Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, March 14, 2021

بنیادی دینی تعلیم کے فروغ اور معیاری عصری اداروں کے قیام کے لیے متحد ہوئے جھارکھنڈ کے علماء و دانشور..

امارت شرعیہ کی تعلیمی تحریک اندھیرے میں روشنی کا مینار، پورے ملک کو ملے گی رہنمائی:
حضرت امیر شریعت
رانچی۔۔جھارکھنڈ۔۔صدائے وقت ۔۔۔پریس ریلیز۔
+++++++++++++++++++++++++++++++++++
بنیادی دینی تعلیم کے فروغ اور معیاری عصری اداروں کے قیام کے لیے امار ت شرعیہ بہار ،اڈیشہ وجھارکھنڈ کی آواز پر جھارکھنڈ کے علمائ، دانشوران ، سیاسی و سماجی کارکنان ، ماہرین تعلیم اور خواص آج13مارچ روزسنیچر کو شہر رانچی کے معروف تعلیمی ادارہ راعین اردو گرلس پلس ٹو ہائی اسکول لیک روڈ میں جمع ہوئے ۔امیر شریعت بہار ، اڈیشہ وجھارکھنڈ حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب کی صدارت میں منعقد ہونے والے اس مشاورتی اجلاس میں کئی اہم بنیادی مسائل پر بات ہوئی اور اہم تجاویز منظور ہوئیں۔ اس اجلاس میں خاص طور پر شہر جھارکھنڈ کے تمام اضلاع کے نمائندوں ،علماء،ائمہ کرام ، تعلیمی اداروں کے ذمہ داران ، ماہرین تعلیم ، قانون دانوں اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے خواص کو دعوت دی گئی تھی ۔اپنے صدارتی خطاب میں حضرت امیر شریعت نے سبھی شرکاء کا شکریہ اداکرتے ہوئے کہا کہ اللہ کا بڑا فضل و احسان ہے کہ امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ کے خدام دین و ملت کی موجودگی میں جھارکھنڈ کا دل دردمند اور دماغ فکر مند یہاں جمع ہے ، علماء بھی ہیں ، اہل علم بھی اور الگ الگ نوعیتوں سے دین و ملت کی خدمت کرنے والے ہنر مند بھی ۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہم سب اسلام کی امانت اور دین کی نعمت کو اگلی نسل میں کس طرح اتاریں ، انہیں اس بار امانت کا ذمہ دار کس طرح بنائیں ، تاکہ آنے والی نسلیں اس نعمت کو سنبھالے رکھیں ، شریعت پر عمل کرتی رہیں اور قرآن مقدس کے نور سے زندگی کی راہ کو روشن رکھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بنیادی سوال ہے ، جس کا جواب تلا ش کرنا ہے اور آنے والی نسلوں کے ایمان کو باقی رکھنے کا طریقۂ کار طے کرنا ہے ۔
حضرت امیر شریعت نے اردو زبان کے تحفظ و بقائ کے مسئلہ اٹھاتے ہوئے کہاکہ دوسرا بہت اہم مسئلہ اپنی تہذیب و ثقافت ، اپنی زبان اور اپنے ادب کو نہ صرف باقی رکھنا ہے ، بلکہ اسے ترقی دینا ہے ،جو ہماری تہذیب ، اعلیٰ قدروں ، مستحکم روایتوں ،انسانی طور طریقوں ، اخلاق و آداب، لحاظ و خیال اور نشست و برخواست کے لطیف انداز کا بہترین نمونہ ہے ۔ہماری زبان مٹھاس کا احساس کراتی ہے ، جب کانوں پہ ٹکراتی ہے تو جلترنگ بج اٹھتا ہے ، یہ لفظوں کی پیوندکاری سے دلوں کو جوڑتی ہے ، محبت کا رشتہ قائم کر دیتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سوال یہ ہے کہ نفرت اور تشدد کے سیلاب میں ہم کہاں اور کیسے جزیرہ بنائیں ، جس سے ہماری تہذیب و ثقافت بچ سکے ، پھل پھول سکے، اور تہذیبی یلغار سے اسے بچا سکیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سوال زبان کا ہے جو بڑا اہم ہے ، ہماری زبان اردو ہے اور نظر آرہا ہے کہ اردو ختم ہو رہی ہے ، ہم اس کے تنوں میں تراوٹ کیسے پیدا کریں ، ہم ایسا کیا کریں کہ اس سوکھتے درخت میں نئی کونپلیں نکل آئیں اور پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بیٹھے جو اس شجر کے تلے وہ نہال ہو۔ امارت شرعیہ کی ا س تحریک کے ایک اور اہم پہلو یعنی عصری تعلیم میں مسلمانوں کی حصہ داری پر بات کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ تیسرا بڑا اہم معاملہ ہمارے بچوں کی اعلیٰ تعلیم کا ہے ، ہم جسے تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کہتے اور سمجھتے ہیں ، وہ یہ ہے کہ صاحبزادہ نے بی اے ، ایم اے، پی ایچ ڈی کر لیا ، الحمد للہ،ما شائ اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن یقین کیجئے عام کالجوں میں جو تعلیم ہو رہی ہے ، وہ اعلیٰ نہیں ہے ، اعلیٰ تعلیم وہ ہے جو انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل امپورٹنس(آئی این آئی)میں ہو رہی ہے ، ان معیاری قومی تعلیم گاہوں میں ہمارے بچے کہاں پہونچ پا رہے ہیں ؟یہ تو اللہ کا شکر ہے کہ رحمانی تھرٹی کی مسلسل کوشش اور کاوش کے نتیجہ میں ان معیاری اور قابل فخر اداروں میں ہمارے بچے نظر آنے لگے ہیں ، لیکن یہ سفر بہت لانبا ہے ، اور اس کا کوئی مختصر راستہ ، کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔

موجودہ حالات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حضرت امیر شریعت نے کہا کہ آج ہمارے ، آپ کے بچے دین سے ناواقف ہو رہے ہیں ، وہ قرآن پاک اور اردو نہیں پڑھ رہے ہیں ، ان میں تہذیب اور شائستگی کی بڑی کمی ہے۔یہ حقیقت ہے ، وجہ کیا ہے؟ ہماری سستی ، ہماری بے رغبتی ، ہماری بے توجہی اوربے اعتنائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ دینی تعلیم کا انتظام کرتے ہیں ، نہ عصری تعلیم کا اہتمام ہو تا ہے ، نہ نئی نسل میں زبان اور تہذیب و ثقافت سکھانے کی فکر ہے ، بتائیے بات بنے گی کیسے؟ہمیں بچوں اور بچیوں کو گھروں میں دین اور دینداری سکھانا ہو گی ، جتنا دین ہم جانتے ہیں ، ہمارے گھر کی عورتیں جانتی ہیں ، انہیں بچوں اور بچیوں کو سکھانا ہم پر فرض ہے ، پڑوسیوں کو دین سکھانا ، ان میں دینداری پیدا کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔

اس اجلا س میں مولانا مفتی عبید اللہ قاسمی، ایڈووکیٹ عبد العلام،احسان احمد اربا، ریاض شریف جمشید پور، مولانا شمس پرویز مظاہری امام و خطیب جامع مسجد گڈا، مفتی شعیب صاحب چترا، مولانا انظر قاسمی پاکوڑ،حاجی ریاض صاحب صاحب گنج،جناب عزیر احمد صاحب بوکارو، مولانا رضوان صاحب دیوگھر،مولانا اکرام الحق عینی لوہردگا، ایڈووکیٹ شکیل صاحب ، قاضی شہر جان مصطفیٰ صاحب،جناب شادمان صاحب،مولانا عمران قاسمی صاحب رام گڑھ،جناب منصور مظاہری صاحب، جناب عبد الواحد صاحب لاتیہار ،مولانا اسجد قاسمی جامعہ حسینیہ کڈرو، جناب حامد الغازی ندوی صاحب، مولانا شکیل الرحمن صاحب ہزاری باغ، جناب حافظ انور صاحب جنرل سکریٹری جمیعۃ علمائ جمشید پور، حافظ نعیم صاحب گملا، مولانا عبد القیوم صاحب بلسوکرا، مولانا توقیر عالم قاسمی سمڈیگا، مولانا عمران ندوی مدرسہ مظہر العلوم اربا، چھاتر شکچھک سنگھ کے ذمہ دار کے ایس علی صاحب نے بھی اپنی رائے کا اظہار کیا اور امارت شرعیہ کی تحریک کو عملی شکل دینے کے سلسلہ میںمفید مشورے دیے ۔ اجلاس کی نظامت مولانا مفتی محمد سہراب ندوی صاحب نائب ناظم امارت شرعیہ نے کی ، انہوں نے ابتدائی گفتگو کرتے ہوئے امارت شرعیہ کی اس تعلیمی تحریک کے اغراض و مقاص تفصیل سے بیان کیے، اجلاس کا آغاز قاری صہیب احمد نعمانی استاذ مدرسہ عربیہ کانکے کی تلاوت کلام پا ک سے ہوا ، جب کہ مولانا ابو داؤد قاسمی دار القضاء رانچی نے بارگاہ رسالت میں نذرانۂ عقیدت پیش کیا۔ مولانا مفتی محمد انور قاسمی قاضی شریعت دار القضاء رانچی نے استقبالیہ کلمات کہے ، انہوں نے جھارکھنڈ کے مختلف اضلاع سے آئے ہوئے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا، ساتھ ہی اجلاس کو منعقد کرنے میں تعاون دینے والے سبھی افراد کا شکریہ اداکیا ،انہوں نے تینوں دن ہونے والے پروگرام کی تفصیل بھی سامعین کو بتائی ۔

اس اجلاس میں سبھی لوگوں کی اتفاق رائے سے کئی اہم تجاویز منظور ہوئیں ، جن میں بنیادی دینی تعلیم کے نظام کو مضبوط کرنے کے لیے صوبائی کمیٹی کی تشکیل، نئی قومی تعلیمی پالیسی کے ممکنہ خدشات کا جائزہ لینے او ر ان سے قانونی طور پر نمٹنے کے لیے قانون دانوں اور دانشورو ں کی کمیٹی کی تشکیل، جھارکھنڈ کے تمام اضلاع میں اقلیتی تعلیمی ادارے قائم کرنے کی منظم تحریک چلانے کی تجویز،سرکاری مدارس کے مسائل کے حل کے لیے امارت شرعیہ کے وفد کی وزیر اعلیٰ اور وزیر تعلیم سے ملاقات کی تجویز، حکومتی سطح پر اقلیتوں کے معاشی و تعلیمی مسائل کے حل کے لیے پریشر گروپ بنانے کی تجویز، مسلکی اختلافات سے اوپر اٹھ کر خود کفیل نظام مکاتب پورے صوبے میں قائم کرنے کی تحریک ،اردو کے فروغ کے لیے تمام اسکولوں میں لازمی اردو تعلیم اور اردو اساتذہ کی خالی جگہوں کو پر کرنے کے لیے سرکار کو میمورنڈم دینے کی تجویز، اردو کے فروغ کے لیے انفرادی کوششیں کرنے کی تحریک، ہر گھر میں بچوں کو اردو کی تعلیم ضرور دی جائے اور انہیں اردو لکھنے اور بولنے کی ترغیب دی جائے،پرائیوٹ اداروں میں دینیا ت ا ور اردو کو لازمی نصاب کا حصہ بنانے کی تجویز،اردو پڑھنے لکھنے اور بولنے ، اخبارات و رسائل خرید کر پڑھنے اور اردو لائبریریوں کے قیام اور ان سے استفادہ کی تحریک چلانے کی تجویز، تمام سرکاری محکموں میں اردو کے ملازمین اور مترجمین بحال کرنے کے لیے حکومت سے مطالبہ کرنے کی تجویز ، اور امارت شرعیہ کی تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے عملی جد وجہد کی تجویز وغیرہ شامل ہیں ۔جناب مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ نے یہ تجاویز پڑھ کر سنائیں اور لوگوں سے ہاتھ اٹھا کر ان پر عمل کرنے کا وعدہ لیا۔تجویز کے مطابق ایک صوبائی کمیٹی کی تشکیل بھی عمل میں آئی ہے۔اس اجلاس میں مولانا مفتی نذر توحید مظاہری قاضی شریعت چترا،ڈاکٹر یاسین قاسمی، مفتی عبد الرحمن قاسمی، الحاج شکیل صاحب، جناب حاجی فیروز صاحب، مولانا سہیل اختر قاسمی نائب قاضی شریعت امارت شرعیہ، مولانا عبد الواجد چترویدی، مولانا مفتی طلحہ ندوی، مولانا ڈاکٹر طلحہ ندوی، مولانا سلمان قاسمی،امارت پبلک اسکول کے ذمہ دار مولانا محمد ابو الکلام شمسی ،جمیعۃ الراعین کے تمام ذمہ داران و کارکنان،جھارکھنڈ کے تمام ذیلی دار القضا ء کے قضاۃ اور جھارکھنڈ کے تمام اضلاع کی نمائندہ شخصیات نے اجلاس میں شرکت کی ۔آخر میں حضرت امیر شریعت مد ظلہ کی دعا پر اجلاس کا اختتام ہوا۔