Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, March 14, 2021

عائشہ مکرانی کی خودکشی۔۔۔۔۔

*                       تحریر۔
*مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ*
                            صدائے وقت۔
----------------------------------------------------------------------
 شوہر کے غیر معمولی جہیز کے مطالبہ سے تنگ آکر ۲۳؍ سالہ عائشہ بانو مکرانی نے ۲۵؍ فروری کو سابرمتی ندی میں کود کر خود کشی کرلی، عائشہ احمد آباد، ریلیف روڈ واقع ایس وی کامرس کالج میں معاشیات سے ایم اے کر رہی تھی ، اس کی شادی عارف خان سے ۶؍ جولائی ۲۰۱۸ء کو ہوئی تھی، شوہر حریص لالچی اور بدمزاج تھا، عائشہ اس سے یک طرفہ محبت کرتی تھی، اور اس نے کم وبیش دو سال اس کے ساتھ وقفے وقفے سے گذارا، لیکن جب تشدد حد سے بڑھنے لگا تو ۱۰؍ مارچ ۲۰۲۰ء کو وہ اپنے سسرال سے میکے آگئی، میکے آنے کے بعد بھی وہ اپنے شوہر عارف خان سے رابطہ کرتی رہی ، ایک موقع سے جب اس نے اپنے شوہر سے کہا کہ میں تمہارے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی تو شوہر نے کہا کہ مرنے کی ویڈیو بھیج دینا، اور واقعتا اس نے خود کشی سے قبل ستر منٹ اس سے بات کیا پھر دو منٹ کا ویڈیو بناکر وائرل کر دیا، اس ویڈیو کی بنیاد پر پولیس نے عارف خان پر خود کشی کے لیے اکسانے کا مقدمہ درج کر لیا اور اس کی گرفتاری بھی عمل میں آگئی ہے۔یہ مقدمہ دفعہ ۳۰۶ کے تحت درج کیا گیا ہے، جس میں مالی جرمانہ کے سات دس سال کی سزا ہو سکتی ہے۔
 اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد پرنٹ، الکٹرونک او رسوشل میڈیا پر مختلف انداز میں بحثیں ہونے لگیں، کسی نے عائشہ کے اس قدم کو حرام موت سے تعبیر کیا، کسی نے اس موت کا ذمہ دار سماج کو ٹھہرایا، جہاں لڑکوں کو بیچا جاتا ہے،اور جس کی وجہ سے لڑکی کی شادی دشوار تر ہو گئی ہے ، اور لڑکی کی پیدائش پر والدین کے منہ سیاہ پڑ جاتے ہیں، بعض سر پھروں نے اس کو علماء سے جوڑ دیا اور لعن طعن کرتے ہوئے لکھا کہ ایسی شادی میں وہ نکاح ہی کیوں پڑھاتے ہیں، ہر ایک کی اپنی اپنی سوچ او راپنی اپنی فکر تھی، جو جس کے من میں آیا کہہ گذرا، حد یہ ہے کہ کئی نے عائشہ کو خود کشی کی وجہ سے جہنم رسید کر دیا۔
 یقینا تلک جہیز کی لعنت مسلم معاشرہ میں ایک ناسور کی طرح ہے اور جس کی وجہ سے بہت سی لڑکیوں کے ہاتھ پیلے نہیں ہو پاتے اور وہ سنّ ایاس کو پہونچ جاتی ہیں، کئی شادی کے بعد شوہر ، ساس اور نند کے ذریعہ مٹی تیل چھڑک کر جلادی جاتی ہیں، اور کئی مختلف طریقوں سے موت کی نیند سوجاتی ہیں، بلکہ اب تو غیر مسلم لڑکیوں کے ساتھ شادی کے وجوہ واسباب میں سے بھی ایک تلک جہیز کی لعنت کو قرار دیا جا رہا ہے، ایسے میں اس رسم بد کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے اور اس کو ختم کرنے کے لیے مختلف ملی تنظیموں کی طرف سے باضابطہ تحریک چھیڑنے کی ضرورت ہے۔
 رہی بات ایسی شادی میں شرکت سے اجتناب اور بائی کاٹ کی، تو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ بائی کاٹ مسئلہ کا حل نہیں ہے اورنکاح کے انعقاد کے لیے قاضی نکاح کی حیثیت جز و لازم کی بھی  نہیں ہے، اور نہ ایک شہر میں سبھی کے لیے ممکن ہے کہ وہ ایسی تمام شادی کا بائی کاٹ کرے، میں نے ایک ایسی شادی میں نکاح پڑھانے سے انکار کر دیا تو لڑکی والے دوسرے شہر سے نکاح خواں لے آئے اور دو گھنٹے بعد نکاح ہوا، اس کا ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ عموما نکاح خواں لڑکی کی طرف کے ہوتے ہیں، لڑکے والوں کا تعلق صرف قاضیانہ دینے سے ہو تا ہے، ایسے میں لڑکی والے کو ایک اور دماغی اور نفسیاتی پریشان سے گذرنا ہوگا جو اسکے لیے مزید پریشانی کا باعث ہوگا، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایسے با اثر علماء ، جن کے چشم وابرو کے اشارے سے تلک جہیز کو روکا جا سکتا ہو، پورے طور پر روکنے کی کوشش نہ کریں، اس سلسلہ میں صحیح طریقہ کار وہی ہے جس کا ذکر حدیث میں آیا ہے کہ جو منکرات کو ہوتا ہوا دیکھے تو اگر طاقت وقوت والا ہے تو وہ اپنے دست وبازو سے روک دے ، اتنی سکت نہ ہو تو زبان سے منع کرے اور اگر زبان سے منع کرنے کی بھی ہمت نہ ہو تودل سے برا مانے،حالاں کہ یہ ایمان کا سب سے کم تر درجہ ہے ، حاصل کلام یہ ہے کہ تلک جہیز کی لعنت کو سماج سے ختم ہونا چاہیے اور اس کے لیے ہر ممکن جد وجہد کرنی چاہیے۔
 عائشہ کے اس قدم سے سماج کی توجہ اس طرف مبذول ہوئی ہے، گو یہ قدم اس کا شریعت کے خلاف ہے، اس کا خود بھی کہنا ہے کہ اس عمل کے بعد اسے جنت ملے گی یا نہیں، البتہ خود کشی کرنے والے کے لیے مغفرت کی دعا کرنا ممنوع نہیں ہے، کیوں کہ وہ اس گناہ کے ارتکاب سے کافر نہیں ہوتا۔ حقیقت جو بھی ہو اس واقعہ نے تلک جہیز سے پاک شادی کرنے کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرانے کا کام کیا ہے، یہ اس پورے واقعہ کا مثبت پیغام ہے(بشکریہ نقیب) ۔