Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, April 15, 2021

زکوٰۃ. ‏. ‏. ‏. ‏. ‏



از/ مولانامحمد نعیم الدین غازی پوریؔ/صدائے وقت 
+++++++++++++++++++++++++++++
         زکوٰۃ اسلام کے ستونوں میں سے ایک بنیادی ستون ہے، زکوٰۃ ایک اسلامی فریضہ ہے ۔ اس کی فرضیت کا منکر دأرہ اسلام سے خارج ہے۔ زکوٰۃ ایک مالی عبادت ہے، اللہ تعالیٰ کی قربت کا ذریعہ ہے، نفس کو بخل ،خود غرضی ، غربا، فقراء ،بیوہ ، مساکین کی حق تلفی اور قلب کو قساوت سے پاک وصاف کرنا، اللہ کی مقبولیت ورضا حاصل کرنا ، مساکین و ضعفاء کی دلداری اور ہمدردی کے نتیجہ میں مال میں پاکی نورانیت اور خیرو برکت کا ظہور زکوٰۃ کی بنیادی مصلحت ہے۔
زکوٰۃ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ قرآن مجید میں ۳۲؍ جگہ نماز کے ساتھ زکوٰۃ کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
 حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ ہمیں آپ  ﷺ نماز کے قائم کرنے کا اور زکوٰۃ اداکرنے کا حکم دیتے اور فرماتے کہ جس نے زکوٰۃ ادا نہیں کی اس کی نماز نہیں ہوگی۔
 حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آپ  ﷺ نے فرمایا جو آدمی اپنے مال کی زکوٰۃ ادانہ کرے گا ۔ اسے قیامت کے دن جس کی مدت پچاس ہزار سال ہوگی، آگ کا اژدہا بنادیا جائے گاپھر اس سے اس کی پیشانی ، پہلو ،پیٹھ کو داغا جلایا جائے گا۔ پھر لوگوں کے درمیان انصاف کیا جائے گا۔
 حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ آپ  ﷺ نے فرمایا جو آدمی اپنے مال کی زکوٰۃ نہیں اداکرتا ،قیامت کے دن اسے گنجا سانپ بنادیا جائے گا جسے اس کی گردن میں لٹکا دیاجائے گا۔  شمائل کبریٰ جلد نمبر ۹؍ صفحہ نمبر ۳۲
 حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ آپ  ﷺ نے فرمایا کہ مال میں زکوٰۃ نہیں جب تک کہ اس پر سال نہ گذر جائے ،اسی طرح ابن حضرت عمر ؓ اور حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ مال (نصاب ) میں اس وقت تک زکوٰۃ نہیں جب تک کہ سال گذر نہ جائے۔    ترمذی صفحہ نمبر ۱۳۸ سنن کبریٰ جلد نمبر ۴؍ صفحہ نمبر ۱۰۹
 حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے کہ حضرت محمد  ﷺ نے فرمایا مومن باایمان کی مثال اس گھوڑے کی طرح ہے جو رسی بندھاہو اور گھوم رہا ہو (اِدھر اُدھرچررہا ہو)پھراپنی جگہ آجاتا ہو ،اسی طرح مومن سے کوئی غلطی ہوجا تی ہے تو پھر ایمان (اعمال صالحہ اور توبہ ) کی جانب لوٹ آتا ہے ، اور تم اپنا کھانا نیک لوگوں کو کھلاؤ اور اہل ایمان کے ساتھ بہتر برتاء و کرو۔بلوغ الا مانی جلد نمبر ۱۰؍ صفحہ نمبر ۱۹۵
 حضرت عبد اللہ بن مبارک وائما ً اپنی زکوٰۃ وخیرات اہل علم پر ہی خرچ کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ میں درجہ نبوت کے بعد علماء کے درجہ سے افضل کسی کا مرتبہ نہیںدیکھتا ہوں۔ اگر اہلِ علم تنگ دست ہوگئے تو دینی خدمت نہ ہوسکے گی ۔ نتیجتاًامور دینیہ میں نقص آجائے گا۔ لہٰذا علمی خدمت کے لئے ان کو فارغ و بے فکر کر دینا سب سے بہتر ہے۔
      فضائل العلم والعلماء میں حدیث منقول ہے جس نے کسی طالب علم کو ایک درہم دیا تو گویا راہ خدامیں جبل احد (پہاڑ) کے مثل سونا خیرات کیا ۔ فتاویٰ رحیمیہ جلد نمبر ۲ صفحہ نمبر ۶
 صدقات کے اندر اگر کوئی دینی ضرورت اہم نہ ہو توعام صدقہ سے اہل قرابت پر صدقہ کرنا افضل ہے ۔ البتہ اگر کوئی دینی ضرورت (علم وسنت کی اشاعت مثلاً دینی مدارس کی ضرورت ) درپیش ہو تو اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے کا ثواب سات سو گنا تک ہوجاتا ہے۔ فضائل صدقات صفحہ نمبر ۱۸۸
    مجالس الابرار میں لکھا ہے کہ زکوٰۃ پر ہیز گاروں کو دو، وہ اس امداد سے اعانت فی العبادۃ حاصل کرتا ہے تو اس کو دینے والے بھی ان کی عبادت کے ثواب میں شریک بن جائیں گے،یا زکوٰۃ عالم دین کو دو کہ عالم کی خدمت کرنا اس کے علم میں امداد کرنا ہے اور علم دین افضل العبادات وا شرف ہے ۔یہاں تک کہ اگلے بعض بزرگ اپنی زکوٰۃ اہل علم ہی کو دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ مقام نبوت کے بعد علماء کے مرتبہ سے بڑا رتبہ کسی کا نہیں ۔ اور عالم سے البتہ وہ عالم مراد ہے ۔ جو علم آخرت کے لئے حاصل کرتا ہے نہ کہ برائے دینا ۔ جولوگ دینا کے لئے حاصل کرتے ہیں ان کو خیرات دے کر گناہ میں اعانت کرنا زیبا لائق نہیں کہ ان کے عذاب میں شریک ہوں ۔
  مجالس ابرا جلد نمبر ۲۱ صفحہ نمبر ۱۵۶ ، فتاویٰ رحیمیہ جلد نمبر ۲  صفحہ نمبر ۶ 

    امام غزالی نے لکھا ہے کہ پر ہیز گاروں کو کھلا نا طاعت اور نیکیوں پر اعانت ہے۔ اسی لئے ثواب کی زیادتی اور دینی نصر ت واعانت کی وجہ سے اہل علم پر جولوگ دین کی خدمت اور اس کی اشاعت وتبلیغ میں منہمک ہیں جیسے اہل مدارس اہل تبلیغ اسی طرح جو بھی دین کی خدمت جس لائن سے کررہے ہوں ان پر صدقہ خیرات خوب کرے خوب دل کھول کر زکوٰۃ صدقات سے ان کی مدد کرے ، مسند احمد میں ہے، مستحب یہ ہے کہ اپنا زکوٰۃ وصدقات صالحین اور نیک لوگوں کو دے چونکہ ان سے برکت کی امید ہے ان کی دعائیں قبول ہوں گی ،اللہ کی عبادت میں یہ باعث بنیں گے۔ بلوغ الامانی جلد نمبر ۱۰صفحہ نمبر۱۹۶ 
 پس لوگوں کو چاہئے کہ دینی خدمت کرنے والوں کو مالی اعانت و تعاون میں دریغ نہ کریں تا کہ صدقہ کے ساتھ دین کی خدمت و اشاعت کا بھی ثواب پائیں ، دینی ضرورت کے راستہ میں خرچ کا ثواب سات سو گنا ہوتا ہے۔  فضائل صدقات صفحہ نمبر ۱۸۸
 سونے چاندی میں زکوٰۃ اصلا! وزن کے اعتبار سے واجب ہے( مثلاً ۴۰؍گرام سونے میں ایک گرام سونا واجب ہوگا )اب اگراس کی ادائیگی روپیہ کے ذریعہ کرنے کا ارادہ ہے توبہتریہ ہے کہ واجب شدہ وزن کا سونابازار میں جتنے کا ملتا ہو اسی اعتبار سے زکوٰۃ نکالیں کہ اس میں فقراء کا نفع زیادہ ہے ،لیکن اگر اپنے پاس موجود سونا بازار میں جتنے کا فروخت ہواس کا اعتبار کر کے زکوٰۃ نکالیں گے تو بھی فرض ادا ہوجائے گا کیوں کہ شریعت کی طرف سے اصل مطالبہ اسی سونے چاندی کا ہے جو ملکیت میں فی الوقت موجودہے ، لہٰذا اسی کی فروختگی کی قیمت معتبر ہوگی (مثلاً بازار میں سونے کی قیمت خرید۲۵ ؍ ہزار روپیہ فی دس گرام ہے جبکہ ہم اگر اپنا سونا بیچنا چاہیں تو سنار ۲۳؍ ہزار فی دس گرام کے حساب سے قیمت لگاتا ہے تو ہمارے اوپر اصل زکوٰۃ کا وجوب ۲۳؍ہزار فی دس گرام کے حساب ہی سے ہوگا ،کیونکہ یہی اس کی اصل قیمت ہے۔
     درمختار جلد نمبر ۳ صفحہ نمبر ۲۲۷؍ الحرائق جلد نمبر ۲ صفحہ نمبر ۳۹۵

مسائل زکوٰۃ 

 {۱}  زکوٰۃ ہر اس شخص پر فرض ہے جس کے پاس نصاب کے بقدر مال ہو ، زکوٰۃ کا نصاب ۶۱۲ گرام ۳۶۰ ملی گرام چاندی یا اس کی قیمت کے بقدر رقم سامانِ تجارت ہے ، ایسا نصاب جب سال بھر کسی کی ملک میں رہے تو اس پر زکوٰۃ فرض ہو جاتی ہے۔ {۲}صاحب ِ نصاب اگر کسی سال زکوٰۃ پیشگی دیدے تو یہ بھی جائز ہے البتہ اگر بعد میں سال پورا ہونے سے پہلے مال بڑھ گیا تو اس بڑھے ہوئے مال کی زکوٰۃ بھی دینا ہوگی ۔{۳}جس قدر مال ہے اس کا چالیسواں حصہ دینا فرض ہے، یعنی ڈھائی فیصد ، سونے چاندی یا جس مال تجارت پر زکوٰۃ فرض ہے اس کا چالیسواں حصہ دینا بھی صحیح ہے اور چالیسویں حصے کی قیمت اداکردینا بھی جائز ہے، مگر قیمت خرید نہ لگے کی بلکہ زکوٰۃ فرض ہونے کے وقت بازار میں جو قیمت ہوگی اس کا چالیسواں حصہ دینا ہوگا ۔{۴}کسی فقیر کو اتنا مال دید ینا کہ جتنے مال پر زکوٰۃ فرض ہوتی ہے مکر وہ ہے، لیکن اگر دید یا تو زکوٰۃ ادا ہوجائے گی اور اس سے کم دینا بغیر کسی کر اہت کے جائز ہے۔ {۵}مقروض کو اس کے قرضہ کے بقدر یعنی جس سے اس کا قر ضہ ادا ہو سکتا ہے دینا جائز ہے، قر ضہ خواہ کتنا ہی ہو ۔{۶} زکوٰۃ ادا ہونے کے لئے شرط ہے کہ جو رقم کسی مستحق زکوٰۃ کو دی جائے وہ اس کی کسی خدمت کے معاوضہ میں نہ ہو صرف اللہ کے لیے ہو۔{۷}زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے یہ بھی شرط ہے کہ زکوٰۃ کی رقم مستحق زکوٰۃ کو مالکانہ طورپر دی جائے جس میں اس کو ہر طرح کا اختیار ہو، اس کے مالکانہ قبضہ کے بغیر زکوٰۃ ادانہ ہوگی ۔  {۸} کارخانوں اور مل وغیرہ کی مشینوں پر زکوٰۃ فرض نہیں ، لیکن اس سے جو مال یا تیار شدہ مال ہے اس پر زکوٰۃ فرض ہے۔  {۹} سونے چاندی کی ہر چیز پر زکوٰۃ فرض ہے، برتن حتی کہ سچاگوٹہ ، ٹھپہ ،اصلی زری (چاہے کپڑوں میں لگی ہوئی ہو) سونے چاندی کے بٹن اور انگوٹھی پر بھی زکوٰۃ فرض ہے۔ {۱۰}کسی کے پاس کچھ روپیہ ، کچھ سونا ،کچھ چاندی اور کچھ مالِ تجارت ہے مگر علیحدہ علیحدہ ،ان میں سے کوئی بھی بقدر نصاب نہیں ہے تو سب کوملا کر دیکھیں گے، اگر مجموعہ کی قیمت ۶۱۲ گرام (۳۶۰ملی گرام ) چاندی کے برابر ہو جائے تو زکوٰۃ فرض ہو جائے گی اور اگر اس سے کم رہے تو پھر زکوٰۃ فرض نہیں ، نصاب میں چاندی کا اعتبار کیا گیا ہے۔ اس میں غریبوں کا فائیدہ ہے۔  {۱۱} ملوں اور کمپنیوں کے شیر زپر بھی زکوٰۃ فرض ہے بشرطیکہ شیرز کی قیمت بقد رنصاب ہویا اس کے علاوہ دیگر مال مل کر شیرز ہولڈر مالک نصاب بن جاتا ہو، البتہ کمپنیوں کے شیرز کی قیمت میں جو مشینری اور مکان اور فرنیچروغیرہ کی لاگت بھی شامل ہوتی ہے وہ زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہیں ، اس لیے اگر کوئی شخص کمپنی سے دریافت کر کے جس قدر رقم اس کی مشینری و مکان و فرنیچر میں لگی ہے اس کو اپنے حصے کے مطابق شیرز کی قیمت میں سے کم کر کے باقی کی زکوٰۃ دے تو یہ بھی جائزہے۔{۱۲}سال کے ختم پر زکوٰۃ دینے لگے اس وقت جو شیرز کی قیمت ہوگی وہی لگے گی ،مثلاً ابتدا ء سال میں دو ہزار روپے تھے اور سال ختم ہونے پر دو ہزار پانچ سو کی مالیت ہوگی تو دو ہزار پانچ سو کی زکوٰۃ اداکرنی ہوگی ۔ {۱۳} نابالغ کے مال پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے۔ {۱۴} اپنے اصول و فروع یعنی ماں باپ ، دادا ،دادی ،نانا،نانی، اور اولاد کی اولاد اور میاں بیوی کے علاوہ دوسرے رشتہ داروں کو زکوٰۃ دینا جائز ہے ، بھائی بہن ، بھانجے ، بھتیجے ،چچا، خالہ ، پھو پی اور ماموں وغیرہ کو زکوٰۃ دینے میں کوئی حرج نہیں ، بشرطیکہ یہ لوگ زکوٰۃ کے مسحق ہوں ۔ بلکہ اپنے رشتہ داروں کو زکوٰۃ دینے میں دوہرا اجر ملتا ہے، ایک زکوٰۃ دینے کا ، دوسرے صلہ رحمی کرنے کا، البتہ انہیں زکوٰۃ دیتے وقت زکوٰۃ کی صراحت نہ کرے ۔ {۱۵}زکوٰۃ کے مال سے غیر مسلم  محتاجوں ، بیواؤں اور ان کے یتیموں کی امداد کرنا جائز نہیں ۔ {۱۷}زکوٰۃ کی رقم مدرسہ کے مدرسین و ملازمین کی تنخوا ہوں میں دینا درست نہیں ، اسی طرح امام و مؤذن کی تنخواہوں میں دینا بھی جائز نہیں ۔ احکام رمضان المبارک دارالعلوم دیوبند صفحہ نمبر ۱۴؍۱۶
  {۱۸} جو مال حرام طریقہ (مثلاً سود ، رشوت یا غصب و غیرہ کے زریعہ ) حاصل کیا گیا ہو تو وہ سب کا سب اصل مالک پر لوٹا نا غریبوں پر تقسیم کرنا ضروری ہوتا ہے ، لہٰذا ایسے خالص حرام مال پر زکوٰۃ کا حکم نہیں ہے، البتہ اگر حلال اور حرام مال مخلوط ہو تو زکوٰۃ واجب ہوگی ۔ شامی زکریا جلد نمبر ۳ صفحہ نمبر ۲۱۸ ؍لحرائق جلد نمبر ۲ صفحہ نمبر ۳۶۹
 {۱۹} مچھلی پالن کے لئے تالاب اور اس کی زمین کی قیمت پر کوئی زکوٰۃ واجب نہیں ،البتہ جو مچھلیوں کا بیچ خرید کر کے ڈالا گیا ہے اس پر سال پورا ہونے پر موجودہ قیمت کے اندازہ سے زکوٰۃ واجب ہوگی ۔درمختار زکریا جلد نمبر ۳ صفحہ نمبر ۱۹۸{۲۰} مرغی فارم کی زمین اور عمارت وغیرہ کی قیمت پر زکوٰۃ واجب نہیں اور ان میں جو مرغیاں پالی جاتی ہیں ان کی دوصورتیں ہیں ۔
 ۱ ۔ اگر مرغی فارم سے انڈے مقصود ہیں اور انھیں کے ذریعہ آمدنی حاصل کی جاتی ہے ، مرغیاں فروخت کے لئے نہیں ہیں تو اسی صورت میں مرغیوں کی قیمت پر زکوٰۃ واجب نہ ہوگی بلکہ صرف انڈوں سے حاصل ہونے والی آمدنی پر زکوٰۃ لازم ہوگی ،گویا مر غیاں آلات کے درجہ میں ہیں۔
 ۲۔ اگر مرغی فارم سے محض انڈے مقصود نہیں بلکہ خود مرغیوں اور چوزوں کو بیچنا مقصود ہے تو ایسی صورت میں سال پوراہونے پر ان مرغیوں اور چوزوں کی قیمت پر زکوٰۃ واجب ہوگی ، کیوں کہ یہ خود مالِ تجارت ہے ۔ درمختار زکریا  جلد نمبر ۳  صفحہ نمبر ۱۹۴ 
 {۲۱} اگر باپ یا ماں نے بچی کی شادی کے لئے زیورات بنا کر رکھے ہیں اور وہ ابھی بچوں کے حوالے نہیں کیے گئے بلکہ اپنی ہی ملکیت میں ہے تو ان کی مالیت پر حسبِ ضابطہ زکوٰۃ ماں باپ پر واجب رہے گی اور اگر بچوں کی ملکیت میںدے دیئے ہیں تو جب تک وہ نابالغ ہیں ان پر زکوٰۃ واجب نہ ہوگی اور بالغ ہونے کے بعد اگر نصاب وغیرہ کی شرائط پوری ہوگئی ہوں تو سال گذر نے پر ان پر زکوٰۃ کا وجوب ہوگا۔البحر الرائق کراچی جلد نمبر ۲  صفحہ نمبر ۲۰۳ {۲۲} اگر کوئی شخص ٹرانسپورٹ کا کاروبار کرتا ہے اور اس کی کاریں بسیںیا ٹرک وغیرہ کرایہ پر چلتے ہیں تو ان بسوں یا ٹرکوںکی مالیت پر زکوٰۃ واجب نہ ہوگی ، بلکہ ان سے حاصل ہونے والے منافع پر حسب ضابطہ زکوٰۃ واجب ہوگی ۔ فتاویٰ خانیہ زکریا  جلد نمبر ۱  صفحہ نمبر ۲۵۱  {۲۳} اگر مالک نے زکوٰۃ کی رقم الگ کر کے رکھی تھی اور ابھی فقیر کے قبضہ میں نہیں دی تھی تو وہ اس رقم کو ادل بدل کرنے کا اختیار رکھتا ہے،حتیٰ کہ اگر چاہے تو یہ رقم دوسری ضروریات میں خرچ کر کے اس کی جگہ دوسری رقم رکھ دے یا دوسری رقم سے زکوٰۃ ادا کرکے اس رقم سے وصول کر لے ، اس میںکوئی حرج نہیں ہے۔ 
    شامی زکریا جلد نمبر ۳ صفحہ نمبر ۱۸۹

مدرسہ اشاعت العلوم,سٹی ریلوے اسٹیشن,ضلع غازی پور -- یو پی بھارت
8090509056
8960481996