Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, April 3, 2021

تہذیبِ درد کا شاعر: سلیم انصاری


از /کامران  غنی /(شگفتِ آگہی کے حوالے سے) /صدائے وقت 
........................................................... 
کربِ ذات اور کربِ کائنات کو استعارات و علامات کے دبیز پردوں میں چھپا کر پیش کرنے کا فن شاعری ہے۔یوں تو شاعری کو صرف کربِ ذات اور کربِ کائنات کا اظہاریہ نہیں کہا جا سکتا لیکن جب کوئی شاعر بطور خاص ’’غم‘‘ کو اپنی شاعری کا مرکزی خیال بنا کر پیش کرے اور اس طرح پیش کرے کہ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جائے کہ شاعر ’’غمِ ذات‘‘ کی ترجمانی کر رہا ہے یا ’’غمِ کائنات‘‘ کی تو سامع اور قاری کے ذہن میں مختلف قسم کے کردار و واقعات رقص کرنے لگتے ہیں۔ کبھی کبھی اشعار کے اندرون میں اُسے اپنا عکس نظر آتا ہے اور وہ شاعر کو اپنا ہم راز و ہم خیال تصور کرنے لگتا ہے۔ انسانی زندگی رنج و غم سے عبارت ہے۔ اس دنیا میں آنکھ کھولنے کے ساتھ ہی انسان کے ساتھ تکلیف اور رنج و غم کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ یہ سلسلہ تادمِ مرگ جاری رہتا ہے۔ خالقِ رنج و غم نے دکھ اور تکلیف کے ساتھ ساتھ انسان کے اندر اس کے مقابلے کی صلاحیت بھی دی ہے، ساتھ ہی یہ یقین بھی دلایا گیا ہے کہ کسی انسان پر اس کی صلاحیت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جاتا ہے۔(سورۃ البقرۃ)۔لیکن برداشت کی صلاحیتیں ہر انسان میں مختلف ہوتی ہیں۔ بعض باہمت افراد مصائب و آلام کی بڑی بڑی وادیوں سے بھی مسکراتے ہوئے گزر جاتے ہیں وہیں کچھ لوگ چند قدم چلنے کے بعد ہی حوصلہ ہار جاتے ہیںاور ان کی پوری زندگی گلہ شکوہ اور آہ و زاری کی نذر ہو جاتی ہے۔ مصائب و آلام سے پریشان ہونا انسانی سرشت میں داخل ہے لیکن مصائب و آلام جب اپنوں کے بخشے ہوئے ہوں تو ان کی اذیت موت سے بھی سوا ہو جاتی ہے۔ اپنوں کے بخشے ہوئے غم جب اظہارِ تخلیق کا ذریعہ بنتے ہیں تو درد کی ایک تہذیب وجود میں آتی ہے۔ جس طرح مختلف انسانی تہذیبوں کے کچھ اصول و آداب ہوتے ہیں اسی طرح ’’تہذیبِ درد‘‘ کے بھی اصول و آداب ہیں۔یہ وہ تہذیب ہے جہاں خموشی کو گفتگو سکھائی جاتی ہے اور بے زبانی کو زبان عطا کی جاتی ہے۔عشق کے اسرار و رموز تہذیبِ درد سے آشنا ہوئے بغیر نہیں سمجھے جا سکتے ۔
سلیم انصاری کے شعری مجموعہ ’’شگفتِ آگہی ‘‘ کے مطالعہ کے بعد میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ سلیم انصاری کی شاعری ’’تہذیبِ درد‘‘ کی شاعری ہے۔ درد کی تہذیب میں اپنی ذات کو ضم کرنے کا ہنر ہی شاعر کا انفراد و اختصاص ہے  ؎
اس احتیاط سے کی ہم نے درد کی تہذیب
کہ اپنے شعر سے بھی کچھ عیاں نہیں ہوئے ہم
تہذیبِ درد سے آشنائی ہی شاعر کو ’سلیقۂ عرض ہنر‘ عطا کرتی ہے۔ اسے مال و زر کی تمنا نہیں ہے۔ اس کا حاصلِ زیست تو یہی ’سلیقۂ ہنر‘ ہے جو اس کی روح کو آسودگی عطا کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دعائیہ الفاظ انسان کی طبیعت اور اس کے مزاج کا پتہ دیتے ہیں۔ انسان اپنے رب سے وہی کچھ طلب کرتا ہے جو ا س کی روح مانگتی ہے۔اس حوالے سے جب ہم ’’شگفتِ آگہی ‘‘ کی پہلی مناجات کے اشعار کی قرات کرتے ہیں تو شاعر کی طبیعت اور اس کے مزاج کا اندازہ لگانا آسان ہو جاتا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں   ؎
جنہیں طلب ہے انہیں مال و زر عطا کر دے
مجھے سلیقۂ عرضِ ہنر عطا کر دے
میں اور کتنا کسی دوسرے بدن میں رہوں
مرے وجود کو اب کوئی گھر عطا کر دے
کوئی تو ہو مرے لہجے کی سرکشی کا علاج
چراغِ جاں کو ہوائوں کا ڈر عطا کر دے

’’سلیقۂ عرض ہنر‘‘ کی تمنا مقبول ہوتی ہے تو شاعر کو ’’شگفتِ آگہی‘‘ کا سراغ ملتا ہے۔ غمِ حیات سے لذتِ آگہی کشید کرنے کا فن نصیب والوں کو عطا ہوتا ہے۔سلیم ؔ انصاری کی شاعری میں ہمیں غم حیات سے لذت آگہی کشید کرنے کا عمل جا بجا نظر آتا ہے۔ سراغِ زندگی پانے کے لیے دنیا سے کنارہ کش ہو جانا اور اپنے من میں ڈوب جانا صوفیا کی صفات ہیں۔ ان صفات کے نتیجے میں جو کیفیتیں پیدا ہوتی ہیں انہیں صرف محسوس کیا جا سکتا ہے اور انہیں محسوس کرنے کے لیے بھی دل و نظر کو آئینۂ حقیقت بنانا پڑتا ہے۔یہ وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر اسرار ہستی کھلتے ہیںاور مظاہر دنیا نیز خواہشات دنیا سے دل بیزار ہونے لگتا ہے۔شاعر کے اندرون کی آواز اشعار کے پیکر میں ڈھل کر حقیقت حال کی عکاسی کچھ یوں کرتی ہے   ؎
زندگی کم ہے نہ جینے کی تمنا کم ہے
خود میں گم ہوں کہ مجھے خواہش دنیا کم ہے
میرے مرنے کی عجب شرط لگا دی گئی ہے
ٹوٹنا مجھ کو زیادہ ہے بکھرنا کم ہے
ایک حساس اور خوددار انسان کی پوری زندگی رشتے ناطوں کا بھرم رکھتے ہوئے ختم ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے درد کا اظہار بھی گناہ تصور کرتا ہے۔ ایک شاعر اگر اپنے درد کو بیان بھی کرتا ہے تو اسے علامات و استعارات کے دبیز پردوں میں چھپاکر بیان کرتا ہے۔ دوسروں کی خوشی کی خاطر اپنی ذات کو فراموش کر دینا زندگی کی معراج ہے اور یہیں سے ’شگفت آگہی‘ کا سفر شروع ہوتا ہے   ؎
مجھے بھی کر لیا تقسیم گھر کے ساتھ بچوں نے
ستم یہ ہے کہ میں خود اپنے حصے میں نہیں آیا
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ سلیم انصاری کی شاعری تہذیب درد کی شاعری ہے۔یہ وہ تہذیب ہے جہاں گلہ و شکوہ کرتے ہوئے بھی شائستگی کا دامن نہیں چھوڑا جاتا۔چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
اب عطا کون کرے گا مرا پیکر مجھ کو
کوزہ گر بھول گیا چاک پہ رکھ کر مجھ کو
۔۔۔
پھر اس کے بعد خود سے رابطہ بھی کٹ گیا میرا
میں سب کا ہو گیا اک دن ترا ہونے کی کوشش میں
۔۔۔
مرے وجود کے اندر بھی ایک صحرا ہے
ترا وصال کہاں تک مجھے نمی دے گا

سلیم انصاری کی شخصیت کا پرتو غزلوں سے زیادہ ان کی نظموں میں ابھر کر سامنے آتا ہے لیکن یہاں بھی وہ بڑی مہارت سے اپنے وجود کو لفظوں کے حصار میں چھپا لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ان کی نظم ’مری نظموں کے سادہ لوح قاری‘ کی چند سطریں دیکھیں:
۔۔۔۔۔ بظاہر میری سب نظمیں/تمہارے خواب کی تعبیر کی صورت /چمکتی ہیں/مگر یہ سچ نہیں ہے/مری نظموں کے سارے لفظ کاذب ہیں/مرے لہجے کا سارا کرب جھوٹا ہے/مری نظمیں تو میری بھی نہیں ہیں/مری نظموں کے سادہ لوح قاری/تمہیں کیا علم؟
اب سوال یہ ہے کہ شاعر اگر اپنے دعوے میں سچا ہے تو کیا ’تہذیب درد‘ کا سمندر محض سراب ہے؟ایسا نہیں ہے۔ یقینا نہیں ہے۔’مری نظمیں تو میری بھی نہیں ہیں‘ کہہ کر شاعر اشارے کی ایک ڈور اپنے قاری کے ہاتھ میں تھما دیتا ہے۔جس شخص کو خود اپنے حصے میں نہ آنے کا افسوس ہواس کی اپنی ذات بچتی ہی کہاں ہے جو وہ اپنی ذات سے گلہ کرے یا زمانے کے سامنے وہ اپنے وجود کا احساس دلائے۔’’کس سے پوچھوں‘‘،’’عدم تخلیق کا کرب‘‘،’’اعتراف‘‘،’’میرے ہونے میں تم روشن ہو‘‘،’’ مری نظمیں تمہاری منتظر ہیں‘‘،’’ایک غیر ضروری نظم‘‘،’’مری نظموں کو پڑھ کر کیا کروگے‘‘جیسی نظموں کی قرات ہمیں ’تہذیب درد‘ کے مفہوم سے آشنا کراتی ہیں۔’’شگفتِ آگہی‘‘ کے مطالعہ کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ’تہذیب درد‘ کے شہر میں سلیم ؔانصاری کی شہنشاہیت مسلم ہے۔
یہ کتاب مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ(دہلی، علی گڑھ، ممبئی)، موڈرن پبلشنگ ہاؤس دریا گنج دہلی اور بک امپوریم سبزی باغ پٹنہ سے حاصل کی جا سکتی ہے۔
......................... 
کامران غنی صبا
اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اردو
نتیشور کالج، مظفرپور