Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, April 17, 2021

مدارس میں مالیات کی فراہمی ‏

 
از/ڈاکٹر عبد الوہاب  ایم ڈی یونانی(علیگ)  /صدائے وقت. 
==============================
ہندوستان کے حالات کے پس منظر میں مدراس دینیہ عربیہ کی اہمیت و افادیت ایک مسلم امر  ہے۔ جس پر کسی بحث کی گنجا ئش نہیں ہے۔ ان مدارس کو ہر حال میں قائم و دائم رہنا چاہئے،یقینا یہ دین کے قلعے ہیں۔بر صغیر کے نا گفتہ بہ حالات میں دین کی جو بھی تبلیغ و اشاعت ہے وہ کافی حد تک انھیں مدارس کی رہین منت ہے۔ لیکن جس طرح کسی قلعے کو بہت دن تک باقی رکھنے کے لئے اس کی مرمت،رنگ و روغن کی ضرورت ہو تی ہے نہیں تو وہ حوادث زمانہ اور حالات دوراں سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جا تا ہے۔اسی طرح موجودہ حالات میں ان مدارس کی حالت میں مرمت اور رنگ و روغن کی ضرورت ہے۔ مدارس بے شمار مسائل سے گھرے ہو ئے ہیں، لیکن ان میں جو مسئلہ اُمّ المسائل کی حیثیت رکھتا ہے وہ ہے مدارس کی مالیات کی فراہمی۔ مالیات کی فراہمی کا کیا طریقہ ہو؟اس پر بحث کر نے کی سخت ضرورت ہے۔ 
ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت کے خاتمے کے بعد مدارس کی بقا اور اس کی مالیات کی فراہمی امت مسلمہ کے سامنے ایک بہت بڑا چیلنچ ابھر کر سامنے آئی، قوم کے بہی خواہ و مخیر حضرات نے اپنے تعاون سے ہندوستان بھر میں مدارس کا جال پھیلا دیا،اور اس کو اتنے لمبے زمانے تک چلاتے بھی رہے مگر اب حالات  کے بدلنے کی وجہ سے مدارس دن بدن ٹوٹتے و ختم ہوتے جا رہے ہیں ان میں طلباء کی تعداد بہت تیزی سے گر رہی ہے ان کا معیار تعلیم کم ہوتا جا رہا ہے۔ عموماً یہ دیکھا جا رہا ہے کہ جو ایک بار مدرسہ میں تعلیم حاصل کر لیتا ہے وہ اپنے بچے کو دوبارہ مدرسہ میں تعلیم نہیں دلاتا ہے،یہاں تک کہ بعض مدارس کے ذمہ داران بھی اپنے بچوں کومدرسہ میں تعلیم نہیں دلا رہے ہیں۔جس پرغور کر نے کی سخت ضرورت ہے۔
مدارس کو حکومت کی سرپرستی ختم ہو نے کے بعد مدارس کو چلانے کے لئے قوم کے بہی خواہ افراد اور علماء نے قرآن کریم میں بیان کردہ زکوۃ کی مستحقین کی فہرست  اِنما الصدقات للفقراء و المساکین و العاملین علیھاو المولفۃ قلو بھم و فی الرقاب و الغارمین و فی سبیل اللہ و ابن لسبیل فریضۃ من اللہ و اللہ علیم حکیم  جس کے تحت  ۸ مستحقین بیان کئے گئے ہیں، میں مدارس کو بھی بہت سارے شرائط کے ساتھ ”انفاق فی سبیل اللہ“  کے تحت شامل کیا اور یہ راستہ نکالا کہ مسلمان اگر اپنی زکوۃ مدارس میں دیں،تو ان کو دہرا ثواب ملے گا. ایک غُرباء کی مدد دوسر ا انفاق فی سبیل اللہ کے تحت دین کی خدمت۔ جس سے مدسہ چلتا رہیگا دین کی خدمت بھی ہوتی رہے گی۔ یہ ایک مستحسن قدم رہا۔ 
   یہ سب باتیں بہت اچھی ہیں اس پر کو ئی کلام نہیں، یقیناً ہندوستان میں یہ طریقہ بہت ہی مُستحسن او رقابل تعریف عمل رہا ہے مگر پچھلے کچھ سالوں سے دیکھا جا رہا ہے کہ لوگوں کی مالی حالت قدرے بہتر ہو نے،ہر گاوں اور علاقے میں انگلش میڈیم اسکول قائم ہو جا نے، مدارس سے فراغت کے بعد معاشی مسائل سے دو چار ہونے،اور تعلیمی طریقے کے حالات سے ہم آہنگ نہ ہونے جیسی بہت ساری وجوہات کی بنا پر بہت سے لوگ مدارس میں اپنے بچوں کو بہت کم بھیج رہے ہیں۔ جس سے طلباء کی تعداد دن بدن بہت کم ہو تی جا رہی رہے،درس نظامی سے تعلیم حاصل کر نے والے طلباء گھٹتے جا رہے ہیں، مدارس ٹوٹے جا رہے ہیں۔ یہ بہت ہی تشویشناک مسئلہ ہے جس پر امت کے بہی خواہوں کو سوچنے کی سخت ضرورت ہے، نتیجہ یہ ہو رہ ہے کہ اہل مدارس کو  مدرسہ کو چلانے کے لئے ہر صحیح اور غلط طریقہ اپنانے پر مجبور ہو نا پڑ رہا ہے، 
حالات اور زمانہ کے بدلنے سے مسائل اورا ن کے حل بھی بدل جاتے ہیں۔ کوئی ضروری نہیں کہ مسئلہ کا جو حل آج سے ایک صدی پہلے یا 1857 ،اور ۷۴۹۱؁ میں حالات کی بنا پرتھا وہی حل آج بھی قابل قبول اور صحیح رہے۔  
اب سب سے بڑا مسئلہ جو تمام مسائل کی جڑ ہے جس کی وجہ سے ہی ساے مسائل کھڑے ہو رہے ہیں وہ ہے مدارس کی مالیات کی فراہمی۔
 جہاں تک مدارس میں حکومت کی امداد لینے کا مسئلہ ہے۔  یہ محل نظر ہے۔ اولاً تو امداد نہیں ملتی اور اگر ملتی ہے تو مداخلت کی بہت سے شرائط کے ساتھ۔ 
فی الحال یہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔ 
مدارس کی مالیات کی فراہمی کے تین بڑے ذرائع ہیں۔(۱) زکوٰۃ (۲) صدقات (۳) عوامی امداد
ان میں سب سے بڑا ذریعہ زکوٰۃ ہے. لیکن زکوٰۃ کے استعمال کے لئے بہت شرائط ہیں بٖغیرا ن شرائط کو پُورا کئے زکوٰہ کا استعمال جا ئز نہیں ہے۔ ان شرائط میں سے سب سے بڑی شرط   ”تملیک“ ہے یعنی زکوۃ  دینے والے کو اس زکوۃ کا مالک بنا دینا۔علماء کی اکثریت کا کہنا ہے کہ ادائیگیِ زکوٰۃ کے لئے تملیک شرط ہے۔ بغیر تملیک کے زکوۃ ادا نہیں ہو گی۔لہذا اہل مدارس زکوۃکو تین طرح سے استعمال کرتے ہیں 
 (۱) تملیک کر کے 
(۲) حیلہ تملیک کر کے 
(۳) بغیر تملیک کے 
 تملیک کے لئے دو طریقے اپنائے جاتے ہیں۔
 (۱) ناظم مدرسہ کو محصل زکوۃ اور طلباء کا وکیل بنا کر اس کو خرچ کر نے کا مختار بنا دینا وہ اس طرح سے کہ ناظم مدرسہ زکوۃ کو طلباء کے وکیل کی حیثیت سے  اپنے پا س رکھے گا اور طلباء کی ضروریات مثلا کھانا، کپڑا، دوا، رہائش پر خرچ کرے گا۔ جس سے زکوٰۃ صرف غریب و نادار طلباء پر ہی خرچ ہو گی اور اس طرح تملیک بھی ہو جا ئے گی۔ یہ طریقہ صحیح ہے بشرطیکہ کہ شفافیت رکھی جا ئے۔
(۲)  حیلہِ تملیک کر نا۔ یعنی کسی غریب سے کہا جا ئے کہ تم مدرسہ کی مدد کر دو۔ وہ کہے گا کہ میں کہاں سے کروں۔میرے پاس تو نہیں ہے  تو اس سے کہا جا ئے کہ ہم تمہاری مدد کر دیں گے اور انتظام کر دیں۔ پھر زکوۃ کا پیسہ اس غریب کو دے دیا جا ئے  پھر وہ مدرسہ میں دے دے۔ اس طرح تملیک ہو جا ئے گی (ذاتی طور سے میں اس کو نہیں مانتا میرے نزدیک یہ ڈھکوسلا اور فراڈ ہے)
 (۳) بغیر تملیک کے۔  یعنی عوام سے جو بھی زکوۃ اُصولی جا ئے وہ  مدرسہ کے تمام ضروریات میں خرچ کی  جا ئے۔ اکثر مدرسے والے یہی کرتے ہیں۔ عوام سے جو بھی چندہ زکوۃ، صدقات، عطیات کی شکل میں اکٹھا ہوتا ہے اس سے مدرسہ چلتا ہے۔ 

دوسرے اور تیسرے آمدنی کے ذرائع صدقات و عطیات اور امداد ہیں جو کافی کم مقدار میں ملتی ہے۔
 اکثر علماء کا کہنا ہے کہ اگر ہم  تینوں مدوں کو الگ الگ کر دیں تو عطیات اور امداد  انتی کم ہوتی ہے کہ اس سے مدارس کا چلانا نا ممکن ہے. 
لہذا ہم زکوۃ کو مجموعی طور پر مدرسہ چلانے میں استعمال کرتے ہیں۔  
اب سوال یہ ہے کہ مدرسہ جو دین کی خدمت اور دین کی نشر و شاعت کا ذریعہ ہے کیا وہ نا جائز پیسے سے چلے گا؟؟ اس پر سوچنے کی سخت ضرورت ہے؟؟ 
مدارس میں زکوۃ کس طرح استعمال ہو،کہاں تک استعمال کی جا سکتی ہے،کس کس طریقے سے استعمال کی جا سکتی ہے، یہ ایک مستقل موضوع ہے جس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے،تحریر اور فتوی کی شکل میں موجود ہے،جہاں تک میرا مطالعہ میں یہی سمجھا کہ مدارس میں زکوۃ مستحقین زکوۃ کو ہی دی جا ئے گی انھیں پر خرچ کیا جا ئیگا۔وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ نابالغ بچہ کو اس کے باپ کے تابع مان کر اگر اس کاباپ مستحق زکوۃ ہے تو اس پر زکوۃ خرچ کی جا ئے گی نہیں تو ایسے نا بالغ بچے پر خرچ کر نا جس کا باپ مستحق زکوۃ نہیں ہے،زکوۃ ادا نہیں ہو گی،بالغ بچے پر یہ دیکھا جا ئے گا کہ وہ مستحق ہے کہ نہیں؟ 
صرف مدرسہ کو چلانا ہے اس کے لئے زکوۃ لے کر عممی استعمال کیا جا ئے۔یہ بات محل نظر ہے اس پر غور کر نے کی سخت ضرورت ہے۔ 
بر صغیر جہاں مدارس کو حکو مت سے امداد نہیں ملتی ہے وہاں مدارس  یقینا انھیں طریقوں سے چلیں گے او ر پچھلے 150،برس سے چلتے آرہے ہیں مگر حالات کے اعتبار سے اس میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے، اگر جدید ٹیکنا لوجی کا استعمال کر تے ہو ئے تبدیلی نہیں کی گئی تو مدارس بہت تیزی سے ٹوٹ جا ئیں گے بلکہ ایسے ختم ہو جا ئیں گے کہ پتہ بھی نہیں چلے گا۔ مدارس کو چلانے کا یہ حل 150 سال پہلے پیش کیا گیا تھا یقینا یہ اس وقت بہت اچھا تھا مگر اب حالت کے اعتبار سے اس میں تبدیلی کی سخت ضرورت ہے۔ اس لئے 
زکوۃ کے تعلق سے چند تجاویز  پیش ہیں۔ 
(۱)  زکوٰۃ کا اجتماعی نظم۔
اسلام اپنے بیشتر ارکان کی ادائیگی میں اجتماعیت کا قائل ہے، جب تک مسلمانوں کی حکومت قائم رہی زکوۃ اجتماعی طور سے اُصول کی جاتی رہی، جب سے زکوۃ کا نظام انفرادی ہوا اس وقت سے زکوۃ کا اصل مقصد بھی حل نہیں ہو پا رہا ہے اور خرد بُرد بھی بہت ہو رہی ہے۔ ہندوستان میں اگر چہ مسلم حکومت نہیں ہے مگر یہاں پر آئین کے تحت بہت سے تحفظات حاصل ہیں جیسے آئین کے تحت اقلیتوں کو اپنے پسند کے ادارے چلانے کا اختیار حاصل ہے۔ اسی آئینی تحفظ کی بنیاد پر ہمارے مداس چل رہے ہیں۔  ہندوستانی مسلمان اگر اپنے زکوۃ کا اجتماعی نظام قائم کریں تو ان کو کسی طرح کی قانونی و آئینی دشواری نہیں ہے۔
زکوۃ کا اجتماعی نظم ابتداء میں اگر ملکی اور صوبائی پیمانے پر بنانے میں کسی طرح ک زحمت پیش آرہی ہے تو ضلعی پیمانہ پر تو بہت آسانی سے بنایا جا سکتا ہے۔ جس سے مدارس کے چلانے میں کافی آسانی ہو سکتی ہے۔ مثلاً  ہمارے یہاں مسلمانوں کے ۳ بڑے گروہ ہیں 
(۱) دیوبندی (۲) بریلوی(۳) اہل حدیث۔ 
تینوں میں اتحاد و اتفاق نا ممکن عمل ہے مگر اختلاف کو باقی رکھتے ہوئے چند نکات پر اتفاق قائم کیا جا سکتا ہے۔ اگر یہ بھی نہیں کر سکتے تو اپنے اپنے گروہ کا الگ الگ نظم کر لیں۔ ہر مسلک کی اپنی اپنی ملکی و صوبائی تنظیمیں ہیں مثلاً جمعیۃ علماء ہند،جمعیۃ اہلحدیث وغیرہ وغیرہ  وہی تنظیمیں آگے بڑھیں او اس کا کام کو سنبھالیں۔ان کی ویب سائٹ بنی ہو ئی ہے اس ویب سائٹ کو استعمال کریں اور ہر صوبہ کا ڈاٹا اکٹھا کریں وہ اس طرح سے کہ ہر ضلع تحصیل میں،تحصیل بلاک میں، بلاک گرام پنچایت میں، گرام پیچایت گرام میں،اور گرام وارڈ میں بنٹا ہوا ہے، یہ ساری تفصیل مع آبادی و تعداد افراد صوبائی الیکشن کمیشن یا گورنمنٹ کی بہت ساری ویب سائٹ سے بآسانی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس ڈاٹا کو اکٹھا کر نے کے بعد ضلعی پیمانہ پر ہر ضلع میں بیت المال کا قیام کیا جا ئے۔ اور اس کا ہیڈ کوارٹر ضلع کے ہیڈ کوارٹر پر قائم کو ئی مدرسہ ہی رہے۔ضلع،تحصیل اور بلاک پر ایک ایک ذمہ دار طے کئے جا ئیں۔ اور مدرسہ کو ہیڈ کوارٹر بنایا جا ئے۔ 20 سے 30 گاوں  یا گھروں کی تعداد کی بنیاد پر ماہرین کے مشورے سے انھیں مدارس میں بڑھانے والے علماء سے محصل زکوۃ طے کئے جا ئیں، ان محصلین کو باقاعدہ ۲ سے ۳ ماہ کی کمپیوٹر ٹریننگ دی جا ئے۔ (ساتھ ہی کلسٹر بنا کر مدرسہ میں پڑھانے والے سبھی لوگوں کو باقاعدہ ۶ ماہ کی کمپیوٹر ٹریننگ دی جا ئے)  یہ محصلین بلاک لیول کے ذمہ دار کو جواب دہ ہوں۔  بلاک لیول  پر بنائے گئے  ہیڈ کورٹر جو کسی مدرسہ میں ہو وہاں پر جمع کریں۔بلاک لیول کا ذمہ دار تحصیل لیول کے ذمہ دار کو جواب دہ ہو تحصیل لیول کا ذمہ دار ضلع لیول کے ذمہ ار کو جواب دہ ہو۔ اسی طرح تینوں مسلک کے لوگ اپنے اپنے بیت المال کا قیام کریں۔ محصلین زکوۃ کو باقاعدہ کمپیوٹر کی ٹریننگ دے کر تنخواہ پر رکھا جا ئے اور زکوۃ میں سے ہی ان کی تنخواہ دی جا ئے۔ کیونکہ زکوۃ کا ایک  مد محصل زکوۃ بھی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہو ئے سبھی کام کمپیوٹرائزڈ ہوں تا کہ
کسی طرح کی خرد بُرد کا شائبہ تک نہ رہے۔ اور شفافیت باقی رہے۔ سبھی کام آن لائن ہوں، بدرجہ مجبوری اگر کو ئی کام آف لائن کیا جا ئے تو بعد میں اس کو بھی آن لائن کر دیا جا ئے۔ 
اس طرح زکوۃ  ایک جگہ اکٹھا ہو جا ئے گی۔ پھر وہاں سے شورائی نظام کے تحت حسب ضرورت تقسیم ہو۔  مدرسہ کے لئے صدقات ور عطیات بھی اسی بیت المال میں ایک ہی جگہ اکٹھا کئے جائیں۔  
مدارس چلانے کے نظام میں تبدیلی 
پہلے جیسے بھی مدرسے چلا تے تھے اس سے کو ئی بحث نہیں مگر اب جدید تقاضوں کے پیش نظر مدارس فیس کی بنیاد پر چلا ئے جائیں۔ ہرمد کی فیس الگ الگ طے ہو۔ مثلا ماہانہ طعام فیس، ہاسٹل فیس، ٹیوشن فیس۔
  مدارس جیسے قائم ہیں ویسے رہیں مگر سبھی طلباء سے فیس لی جا ئے۔ اب غریب و نادار طلباء کو بیت المال سے وظیفہ دلاکر فیس وصولی جا ئے۔وہ اس طرح کہ وظیفہ ان کے والدین کو دیا جا ئے۔اس کے لئے مخصوص اکاؤنٹ کھلوائے جائیں،وظیفہ اکاونٹ میں دیا جا ئے،پھر والدین بچوں کو وظیفہ کی رقم دیں جس سے طالب علم فیس جمع کرے تاکہ وظیفہ سے پڑھنے والا کسی بھی طرح کی احساس کمتری کا شکار نہ ہو۔  اور جو فیس ادا کر سکتے ہیں وہ فیس ادا کریں۔ ٹیوشن فیس سے اساتذہ کو تنخواہ دی جا ئے جس طرح  پرائیویٹ اسکولوں میں دی جاتی ہے۔ وظیفہ اتنا دیا جا ئے کہ غریب طالب علم کے سبھی اخراجات پورے ہو جائیں۔ ہر مدرسہ پیشگی اپنا سالانہ بجٹ تیار کرے۔ہر مد کا الگ الگ بجٹ تیار ہو۔ طلبہ پر فیس لگائی جا ئے، جو بآسانی ادا کر سکتے ہیں۔انھیں سے فیس لی جا ئے۔بقیہ طلباء میں سے50فیصد دینے والے،25فیصد دینے والے،10 فیصد دینے والے جیسی کٹیگری بنا ئی جا ئے۔ طلباء کے سرپرستوں سے معلوم کیا جا ئے کہ وہ کتنے فیصد فیس بآسانی دے سکتے ہیں؟ جتنا وہ دے سکتے ہیں اتنا ان سے لیا جا ئے بقیہ ضلعی بیت المال سے وظیفہ جا ری کراکے وصول کیا جا ئے۔ 
کیونکہ 
 عوام نے یہ سمجھ لیا کہ ہم جو زکوۃ دیتے ہیں وہ ہم علماء اور مدارس پر احسان کرتے ہیں جب کہ یسا بالکل نہیں ہے اس لئے کہ زکوۃ دینا ہر مسلمان پر فرض ہے نہیں دے گا تو سخت گنہ گار ہو گا۔
زکوۃ اگر مدرسہ میں جا رہی ہے تو وہ غریب ور نادار طلباء پر خرچ کرنے کے لئے نہ کہ امراء کے لئے۔
 لہذا صاحب حیثیت حضرات اپنے بچوں کو مدرسہ میں فیس دے کر پڑھا ئیں جہاں تک نادار اور غرباء کی باتو ہے تو ان کو بیت لمال سے وظیفہ ملے گا۔ مدرسہ کے مزید اخراجات  بیت المال میں اکٹھا ہو نے والے دوسرے مدوں سے حسب ضرورت  دیا جا ئے۔ 
   
 *زکوٰۃ کے اجتماعی نظم نہ ہو نے کے نقصانات* ۔
(۱) رمضان کے مہینہ میں ہندوستان کے ہر مدرسہ سے تقریباً ۳ یا ۴،استاد مدرسہ کے چندہ کی وصولی کے لئے ہندوستان کے مختلف شہروں میں جاتے ہیں۔ اس میں سے کچھ لوگ کمیشن کی بنیاد پر زکوۃ کی اُصولی کرتے ہیں جو اکثریت کے نزدیک صحیح نہیں ہے۔ کچھ لوگ  اپنی چھٹی کا استعمال کرتے ہوئے اُصولی کرتے ہیں وہ اس طرح کی مدرسہ میں ان کی جو تنخواہ ہے اسی کے برابر ان کو تنخواہ ملے گی ساتھ ہی طعام و سفر خرچ۔
 عموماً وہ جتنا اُصولی کرتے ہیں اسکا 40 فیصد خرچ ہو جاتا ہے بمشکل 60 سے 70 فیصد مدرسہ میں آتا ہے،۔ اس طرح  اچھا خاصا پیسہ بر باد جاتا ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ اگر ضلعی پیمانہ پر بیت المال قائم کر دیا جا ئے اور ہر مدرسہ کو  اس کی ضرورت کے اعتبارسے تقسیم کر دیا جا ئے تو  شفافیت بھی رہے گی اور بربادی سے بھی بچ جا ئیں گے۔ 
(۲) زکوۃ کی اصولی جدید ٹکنالوجی ک استعمال کرتے ہو ئے کیا جا ئے،وہ س طرح سے کہ ہر مدرسہ میں  چندہ دینے والوں کی رودا موجود ہے۔اس سے سبھی لوگوں کے مو بائل نمبر حاصل کئے جا ئیں۔اور وہاٹس ایپ گروپ بنائے جا ئیں،وہٹس ایپ پرصرف 256 لوگ گروپ میں شامل ہو سکتے ہیں لیکن اگرٹیلی گرام پر گروپ بنایا جا ئے تو ٹیلی گرام گروپ میں بیک وقت ۲ لاکھ لوگوں کو جوڑا جا سکتا ہے۔ بیت المال کے اکاونٹ کو عام کیا جا ئے اور لوگوں کو ترغیب دی جا ئے کہ وہ جدید موبائل بینکنگ یا یو پی آئی سسٹم کو استعمال کرتے ہو ئے اپنے چندے کی رقم کو وہ جس بھی مد میں ہو بھیجیں۔ ان کو الیکٹرانک رسید دی جائے۔اور سارے سسٹم کو کمپیوٹرائزڈ کیا جا ئے۔ساتھ میں ایک علاقہ کے لئے ایک محصل طے کر دیا جائے جو نہ ڈائریکٹ نہ بھیجنے والوں کو ترغیب دے کر ان سے وصول کرے. 
 اس سلسلے میں  ایسوسیئیشن آف مسلم پروفیشنلس (ای ایم پی) کی کارگزاری سے مدد لی جا سکتی ہے جنھون نے ۰۲۰۲؁ میں 94 لاکھ روپیہ زکوۃ اصول کیا وہ بھی اسی جدید ٹکنالوجی کی مدد سے۔ تفصیل ن کی ویب سائٹ پر دیکھی جا سکتی ہے۔ 
(۳) مدارس کے نام پر بہت سارے دلال، غلط قسم کے لوگ، فراڈ کر نے والے اُصولی کے نام پر نکلتے ہیں اور وہ سب خود ہی رکھ لیتے ہیں۔ اگر اجتماعی نظام قائم ہو گا تو ان لوگوں پر خود بخود لگام لگ جا ئے گی۔ اس سلسلہ میں جمعیۃ العلماء،تبلیغی جماعت اور بہت ساری تنظیموں نے مچندین کو تصدیق نامہ جاری کرنا شروع کیا ہے۔مگر ان کے پاس خود ڈاٹا نہیں ہے۔ وہ ایک عام سے کاغذ پر تصدیق نامہ لکھ دیتے ہیں۔ ایسے تصدیق ناموں کی فرضی کاپی بہت آسانی سے بنا ئی جا سکتی ہے۔ اگر یہ تنظیمیں پہلے سے ڈاٹا اکٹھا کر کے اپنی ویب سائٹ پر ڈال دیں ور مچندین کا آئی ڈی کارڈ بنا کر ویب سائٹ پر ڈال دیں، تب اس پر مکمل روک لگ جا ئے گی۔  اور گروپ کے ذریعہ یہ بتا دیا جا ئے کہ جن کا ویب سائٹ پر  آئی ڈی کارڈ ہے صرف وہی لوگ بیت المال کے محصلین ہیں ان کے علاوہ کسی کو ہر گز ہرگز نہ دیا جا ئے۔ اور لوگوں ڈائرکٹ اکاونٹ میں ٹرنسفر کریں۔ اس طرح دھیرے دھیرے مچندین کی تعداد بہت کم ہو جا ئے گی۔ 
(۴) بہت سارے مدارس جہاں پر طلباء کی تعداد کم ہے یا غریب و نادار طلباء نہیں بلا ضرورت داخلے، دار الاقامہ اور مطبخ کا نظام قائم ہے اس پر روک لگے گی۔ 
(۵) مسلمانوں کی زکوۃ کا اکثر و بیشتر حصہ صرف مدارس میں چلا جاتا ہے جس سے بقیہ 7 قسم کی مد والے لوگوں کو زکوۃ بالکل نہیں یا بہت تھوڑی مل پا رہی ہے۔  نتیجہ یہ کہ نادار، بیوہ اور غریب قسم کے لوگ بھیک مانگتے ہو ئے نظر آتے ہیں۔ 
(۶) بڑے مدارس  کے سفراء جو پورے سال گھوم گھوم کر مدرسہ کے لئے  چندہ اکٹھا کرتے تھے ان کی تعداد بہت کم تھی۔ مگر پچھلے کچھ سالوں سے دیکھا جا رہا ہے کہ ہر مدرسہ نے خواہ بڑا ہو یا چھوٹا اپنا سفیر بنا رکھا ہے جو سال بھر پورے ملک میں گھوم گھوم کر چندہ کی وصولی کرتے ہیں۔  وہ جتنا وصولی کرتے ہیں اس کا بیشتر حصہ ان کے قیام،سفر خرچ اور طعام پر خرچ ہو جا تا ہے۔ بہت قلیل مقدار وہ مدرسہ کو فراہم کرتے ہیں۔ مدرسہ والے سوچتے ہیں کہ ہمارا کیا؟  ہمیں کچھ تو لا کر دیا۔ مگر اس کا اتنا بڑا نقصان ہے جو بیان سے با ہر۔ نماز کے بعد جیسے ہی ایسے سفراء اعلان کر نے کے لئے کھڑے ہوتے ہیں لوگ بہت ہی حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس کے بعد وہ لوگ مسجد کے گیٹ پر رومال بچھا کر، شرم کے مارے گردن جھکا کر بیٹھ جاتے ہیں۔لوگ لحاضاً  ان کے رومال پر کچھ ڈال دیتے ہیں۔ یہ نہایت ہی افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے مدارس کے فضلاء اس طرح کا عمل کریں۔ دوسرے لوگ متنفر ہوتے ہیں کہ ہم مدرسہ میں اپنے بچے کو کیوں بھیجیں  وہاں سے فراغت کے بعد وہ ایسے ہی کرے گا۔ 
(۷) ہر ادارہ کسی نہ کسی کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے اجتماعی نظام نہ ہونے کی وجہ سے  وہ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں  وہ کہتے ہیں کہ ہم خود عوام سے مانگ کر لا ئے ہیں پھر ہم کسی کو جواب کیوں دیں، نتیجہ یہ کہ بہت سے لوگ اب مدرسہ میں زکوۃ دینا بند کر رہے ہیں۔ 
(۸) اجتماعیت نہ ہو نے کی وجہ سے زکوۃ کا خاطر خواہ فائدہ نہیں ہو پا رہا ہے بلکہ اسی کے وجہ سے جگہ جگہ مختلف قسم کے ادارے اور انجمنین قائم ہو تی جا رہی ہیں۔ جس کو دیکھو وہ زکوۃ اکٹھا کر تا ہے اور مختلف ناموں سے انجمن بنا کر خرچ کر رہا ہے۔ یہاں تک کہ لوگ زکوۃ اکٹھا کر کے کوچنگ انسٹیٹیوٹ چلاتے ہیں جس میں غیر مسلموں کو بھی پڑھاتے ہیں، وغیرہ وغیرہ    
(۹) ہر مدرسہ اپنے تعلقات کی بنیاد پر جتنا پیسہ لا پاتاہے  اسی کے حسب سے اپنے یہاں اساتذہ کی تنخواہیں طے کر تا ہے نتیجہ یہ کہ مدارس میں تنخواہوں کا معیار بہت ہی کم ہے جس کی وجہ سے صلاحیت مند لوگ  مدرسہ کی طرف بالکل رُخ نہیں کر رہے ہیں بلکہ جو اسی تنخواہ کے معیار کے ہیں  یا جو کسی مجبوری کے تحت ہیں وہی لوگ مدرسہ میں جا رہے ہیں۔ یہاں میں یہ قطعا نہیں کہہ ہا ہوں کہ مدرسہ میں صلاحیت مند لوگ نہیں ہے  بلکہ تعداد کم ہوتی جا رہی ہے جس کی سب سے بڑی وجہ تنخواہوں کا معیار ہے۔ نتیجہ یہ کہ طلباء کی تعداد دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے۔ اگر ہم کسی مدرسہ میں آنے والے کل اخراجات اور وہاں تعلیم حاصل کر نے والے طلباء کی تعداد سے تقسیم کر کے حساب لگائیں تو شاید یہ بہت مہنگی تعلیم ثابت ہو گی، جب کہ تھوڑی سی تبدیلی کر کے بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔
(۰۱) تنخواہوں میں یکسانیت۔  مدارس میں تنخواہوں کا نہ کو ئی معیار ہے نہ یکسانیت ہے بلکہ ہر مدرسہ کے ذمہ دار اپنے اپنے حسب سے تنخواہ طے کرتے ہیں اور اپنے حساب سے اضافہ کرتے ہیں۔ جبکہ اجتماعی نظام بنانے سے  بہت آسانی سے یکسانیت اور معیار بنایا جا سکتا ہے۔ تنخواہوں میں یکسانیت لا نے کے لئے گورنمنٹ کے ساتویں پے کمیشن کے چارٹ کے مطابق ایک کمیٹی بنا کر ایسا ہی چارٹ بنا دیا جا ئے۔ 

  *زکوۃ کے نظام کو اجتماعی بنانے  کے لئے مدارس کے نظام میں چند تبدیلیاں کر نی ہوں گی* 
(۱) مدارس کو مربوط کر نا
نظم و ضبط اور اجتماعیت کسی بھی سماج کے ترقی کر نے کا بنیادی سبب ہوتی ہے، جہاں یہ نہیں ہوتا ہے۔وہ سماج انتشار کا شکار ہوتا ہے، آج ہمارے مدارس  اجتماعیت اور ربط و ضبط کی کمی کی وجہ سے بھی بہت سے مسائل کا شکار ہیں، جاہل اہل ثروت  مدارس پر قابض ہیں، ہمارے علماء  ان جہلاء کی جی حضوری کر نے پر مجبور ہیں، جبکہ اگر اہل مدارس تھوڑی سی ہمت دکھائیں اور مدارس کو آپس میں مربوط کردیں تو ان کی آواز کی اہمیت ہو گی ا ور  جاہل اہل ثروت کے اثرات بد سے بھی محفوظ ہیں گے۔ 
ضلع کو بنیادی اکائی بن کر کام شروع کیاجا ئے۔ ہرضلع کئی تحصیل میں اور تحصیل کئی بلاک میں اور بلاک کئی گرام پنچایت میں گرام پنچایت گاوں میں اور گاوں وارڈ میں وارڈ گھر میں تقسیم ہو تا ہے۔ یہ ساری تفصیل ہم کو  ہر ضلع کی ویب سائٹ سے بآسانی مل جا ئے گی۔ گاوں کی سطح پر مسلم آبادی کے اعتبار سے ہر مسجد میں مدرسہ قائم کیا جا ئے۔ اگر مدرسہ قائم ہے تو بہتر۔طلباء کی جتنی تعداد ہو اسی حساب سے درجات کا قیام ہو۔ پھر کئی گاوں کے مدرسہ سے نکلنے ولے بچوں پر ایک بڑا مدرسہ ہو، اتنی دوری پر ہو جہاں تک بآسانی آمد و رفت ہو سکے۔ اگر ضرورت ہو تو ٹرانسپورٹ کا نظم کیا جا ئے،  اس کے لئے گاڑی خریدنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ فی طالب علم دوری کے اعتبار سے ماہانہ کرایا طے کیا جا ئے۔اور ضرورت مندں کو وظیفہ دیا جا ئے۔ گاوں کے لیول کے کئی مدارس کو ملا کر  بلاک لیول پر ضروت  اور طلباء کی تعداد کے اعتبار سے مدارس درجہ ۵ تک قائم کئے جائیں۔ درجہ ۵ تک کے مدارس میں رہائش اور مطبخ کا نظم بالکل نہ ہو بلکہ اساتذہ اگر دور کے ہیں تو ان کو سفری الاونس دئے جا ئیں۔ کیونکہ درجہ ۵ تک کے بچوں کو ہاسٹل میں رکھنے کے بہت سارے نقصان ہیں۔  فوائد ہیں مگر بہت کم۔ 
 یاد رہے ہمیں کسی نئے  مدرسے کے قائم کر نے کی قطعاً کو ئی ضرورت نہیں ہے بلکہ  جو قائم ہیں انھیں کو مربوط کر نا ہے۔ ہاں جس گاوں میں مدرسہ نہیں ہے وہاں مسجد میں قائم کر دیا جا ئے۔
درجہ ۵ کے بعد جو بچے درس نظامی کی تعلیم حاصل کر نا چاہتے ہیں وہ مدرسہ میں جا ئیں اور جو اسکولوں کی طرف جانا چاہتے ہیں وہ اسکو ل کی طرف جا ئیں۔ درجہ ۵ تک کی تعلیم بہت ہی عمدہ اور معیاری ہو۔
اب مدارس کے لئے طلباء کی تعداد کے اعتبار سے ہر بلاک میں ایک یا دو مدرسے قائم رہیں جہاں کم از کم درس نظامی کے عربی چہارم تک تعلیم ہو۔ ہر تحصیل پر ایک مدرسہ اور ضلع میں ۳ یا ۴ تحصیل ہو تی ہے وہاں سے فارغ ہو نے ولے ضلع لیول کے مدرسہ میں داخل ہوں۔ ضلع لیول کامدرسہ فراغت تک کا ہو۔ 
دیکھا یہ جا رہا ہے کہ مدرسہ میں طلباء کی تعداد بہت کم ہے کمیشن کی بنیاد پردور دراز سے طلباء بلائے جاتے ہیں، یا درجہ ۵ سے پہلے کے بچوں کا داخلہ کیا جاتا ہے،یا ۵ سے ۶ بچوں کا درجہ حفظ میں داخلہ کیا جاتا ہے ور انھیں کو دکھا کر چندہ کیا جاتا ہے، نہ تعلیم کا کو ئی معیار ہے نہ تنخواہ کا کو ئی معیار۔
 ِاکثر مدارس کے چندہ کی روداد غلط ہے۔اس میں مدرسہ کو مقروض دکھایاجاتا ہے۔ 
 *درجہ ۵ تک کے مدارس میں نصابی تبدیلی* ۔
درجہ ۵ تک  مدارس میں ۷ مضمون پڑھائے جاتے ہیں 
(۱) قرآن شریف 
(۲) دینیات
(۳)اردو
(۴) ہندی
(۵) انگلش
(۶) حساب
(۷) سماجیات (تاریخ و جغرافیہ)
ٍٍِِدرجہ ۵ تک کے اسکولوں میں ۴ مضامیں پڑھائے جاتے ہیں 
(۱) ہندی
(۲) انگلش
(۳) حساب
(۴) سماجیات (تاریخ و جغرافیہ)
زبان، انگلش،ہندی اور اردو  انھیں زبانوں میں پڑھائے جاتے ہیں۔ حساب  اور سماجیات کو جس زبان میں چاہیں پڑھائیں۔ اگر ہمارے مدارس کے لوگ اپنے اساتذہ کو ۳ سے ۴ مہینے کی ٹریننگ دے دیں تو  اسکولوں کے اساتذہ سے کہیں بہتر ہوں گے۔ مدارس میں حساب اور سماجیات اردو میں پڑھائے جاتے ہیں اگر ان کو  عوام کی ڈیمانڈ کے مطابق انگلش یا ہندی میں پڑھا دیا جا ئے تو میرے خیال سے کوئی نقصان نہیں ہے۔ 
اگر ہمارے مدارس کے لوگ  جو ۷ مضامین پڑھاتے ہیں اس میں سے  ہفتہ میں ۳ دن اردو اور ۳ دن دینیات پڑھائیں اور قرآن شریف کا پیرئڈ روزآنہ رہے تو جس چیز کی تلاش میں عوام الناس کانونیٹ اور مزعومہ انگلش میڈیم کی طرف جارہی ہے ان کو بآسانی مدارس میں رو کا جا سکتا ہے۔ 
  پھر مدرسہ اور کانوینٹ اسکول میں کو ئی فرق نہیں رہ جا ئے گا۔  مثلاً 
(۱) قرآن شریف  (۲) ۳ دن  اردو اور ۳ دن دینیات(۳) انگلش (۴) ہندی (۵)حساب (۶) سماجیات  
ایسا نہ کر نے کا نقصان یہ ہے کہ اہل ثروت حضرات مدرسے میں اپنے بچوں کو نہیں بھیج رہے ہیں۔ یہاں تک کہ جو مدرسے کے ذمہ دار ہیں وہ خود اپنے بچوں کو مدرسہ میں نہیں پڑھاتے ہیں۔ 
عالمی وبا کرونا اور مدارس۔
مارچ 2020 میں کرونا کے بعد سے اب تک مدارس بند ہیں۔اکثر مدارس میں اساتذہ کو تنخواہ نہیں ملی ہے۔ کچھ جگہوں ہر  آدھی کچھ چگہوں پر چوتھا ئی تنخواہ مل رہی ہے۔ لوگوں کو یہ امید تھی کہ  حالات نارمل ہو نگے مگر ایسا جب تک چلے گا کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ لہذا ضرورت ہے کہ اہل مدارس سر جوڑ کر بیٹھیں اور مستقبل کا لا ئحہ عمل تیار کیں۔
دنیا میں یہ اصول رائج رہا ہے کہ جب بھی کو ئی نئی چیز آتی خواہ وہ کتنی ہی مفید کیوں نہ ہو لوگ اس کی مخالفت کرتے ہی ہیں، ٹرین جب ایجاد ہو ئی تو ہندوستانیوں نے اس کی سخت مخالفت کیا،کمپیوٹر، لاوڈاسپیکر،گھڑی اورس کے طرح کے دوسرے مفید آلات کے ایجاد ور قبولیت کے وقت لوگوں نے اس کی مخالفت کیا مگر امتداد زمانہ کے ساتھ وہ ہی آج ہمارے زندگی کا لازمی حصہ بن گئی ہیں۔ جب یہ تجاویز لوگوں کے سامنے پش کی جا ئیں گی تومجھے پورا یقین ہے کہ بہت سے لوگ اس کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیں گے یا کہیں گے کہ ایسا ممکن نہیں ہے۔ لیکن اگر کچھ لوگ اٹھیں اور اس پر عمل شروع کریں تو  آہستہ آہستہ انشاء اللہ بقیہ لوگ بھی ایسا کریں گے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ جو تجاویز پیش کی جا رہی ہیں یہ کو ئی نئی بات ہے اس طرح کی انفرادی کوشش بہت سے لو گ کر کے اپنے مدرسے چلا رہے ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ یہ انفرادیت سے اٹھ کر اجتماعیت کی طرف آئے۔ 
سبھی لوگوں کی آراء و تجاویز کا  استقبال ہے۔ 
                                                                         ڈاکٹر عبد الوہاب ایم ڈی  یونانی (علیگ)
میڈیکل آفیسر گورنمنٹ یونانی ہاسپٹل گنیش پور بستی              یوپی272001 
مقیم حال: خیر بلڈنگ نزد جا مع مسجد گاندھی نگر بستی یوپی  موبائل نمبر  9454966158
متوطن  گرام پرسونیاں پوسٹ سانتھا ضلع سنت کبیر نگر یوپی 272270