Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, April 23, 2021

‎مولانا ‏ وحید ‏الدین ‏خان صاحب اور ‏رد ‏ الحاد ‏پر ان ‏کا ‏ منہج ‏

تحریر /یاسر ندیم الواجدی /صدائے وقت. 
+++++++++++++++++++++++++++++
یہ خبر علمی ودینی حلقوں میں حزن وملال کے ساتھ اور کہیں کہیں تحفظات کے ساتھ نقل کی گئی کہ مولانا وحید الدین خان اپنے مالک کے حضور پیش ہوگئے۔ سب سے پہلے تو میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات کو بلند فرمائے۔ 
غالبا 1998 کی بات ہے جب میں نے پہلی بار مولانا وحید الدین خان صاحب کو دیکھا تھا۔ موقع تھا حجت الاسلام مولانا قاسم نانوتوی سیمینار کا۔ یہ سیمینار تنظیم ابنائے قدیم دارالعلوم دیوبند نے منعقد کیا تھا۔ مولانا کو تالکٹورہ اسٹیڈیم میں منعقد ہونے والے اس کے افتتاحی اجلاس میں مدعو کیا گیا تھا۔ میں اس وقت دارالعلوم دیوبند کے وسطی درجات کا طالب علم تھا، اور والد صاحب کے ساتھ سیمینار میں شرکت کے لیے پہنچا تھا۔ مولانا کو سننے کا اشتیاق تھا۔ پروگرام شروع ہوا اور مولانا اپنے مقالے کے ساتھ تشریف لائے۔ ناظم جلسہ نے مولانا کو جیسے ہی دعوت دی تو حاضرین میں سے ایک بھاری بھرکم شخصیت نے مولانا کے خلاف شور شرابہ شروع کردیا اور مولانا وحید الدین خان کو اپنا مقالہ پڑھے بغیر جلسہ گاہ سے جانا پڑا۔ کچھ لوگوں نے ان کے جانے کے بعد خوب تالیاں بجائیں اور کچھ لوگوں نے افسوس کا اظہار کیا۔ میں اپنے بچپن کے اس موقف میں آج تک تبدیلی نہیں پاتا ہوں کہ مولانا کے ساتھ غلط برتاؤ کیا گیا تھا، وہ منتظمین کی دعوت پر بطور مہمان آئے تھے، ان کو ذلیل کرکے نکال دینا اسلامی اخلاق کے خلاف تھا۔ مولانا پر ان کی زندگی میں خوب تنقید کی گئی اور آگے بھی کی جاتی رہے گی۔ مولانا کے بعض منحرف نظریات کی وجہ سے ان پر نرم و گرم تنقید کا ہونا ایک فطری عمل ہے، لیکن مندرجہ بالا رویہ عدم برداشت کی انتہا ہے۔


 
مولانا کی وفات پر جہاں ایک طرف ان کے پرجوش حامیوں نے ان کو مجدد، عبقری زمان اور مصلح ملت کا لقب دیا، وہیں دوسری طرف ان کے مخالفین نے عجیب وغریب فقرے کسے۔ کسی کی موت پر خوشی یا تحقیر کا اظہار بھی غیر اسلامی رویہ ہے۔ بعض حضرات نے اس موقع پر مولانا کے نظریات کو موضوع سخن بنایا، تو ان کے حامیوں نے حدیث اذکروا محاسن موتاکم یاد دلائی
س پر یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ایک روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کسی مرنے والے کی برائی کی گئی تو آپ نے فرمایا کہ واجب ہوگئی یعنی جہنم۔ پھر کسی مرنے والے کی تعریف کی گئی تو آپ نے فرمایا کہ واجب ہوگئی یعنی جنت۔ اس روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے برائی کرنے والوں کو برائی سے نہیں روکا، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میت کی برائی کرنا جائز ہو گیا، البتہ اتنا طے ہے کہ اذکروا محاسن موتاکم جو کہ ایک ضعیف روایت ہے اپنے عموم پر باقی نہیں رہی۔ نیز اگر مان بھی لیا جائے کہ یہ روایت صحیح ہے اور اپنے عموم پر باقی ہے، تو بھی محاسن سے انسان کے ذاتی اعمال و اخلاق مراد ہیں۔ اگر کوئی شخص کسی گناہ کو گناہ سمجھ کر انجام دے، تو وہ چاہتا ہے کہ اس کے گناہ پر پردہ پڑا رہے، لہذا دوسروں کو حق نہیں ہے کہ اس کے پردے کو چاک کریں۔ لیکن وہ نظریات وعقائد کہ جن کی ترویج اس انسان نے خود اپنی زندگی میں کی ہو اس زمرے میں نہیں آتے ہیں، یہ نظریات اس انسان کے نزدیک گناہ نہیں تھے، بلکہ محاسن میں شامل تھے۔ اس لیے اگر میت کے محبین کو وفات کے وقت میت کے کارنامے بیان کرنے کا حق ہے، تو پھر ناقدین کو بھی میت کے افکار و نظریات پر تنقید کا حق ہے۔ البتہ اس تنقید میں بھی اعتدال کا دامن نہیں چھوٹنا چاہیے۔
ایک صاحب نے مولانا وحید الدین کے حوالے سے یہ بات لکھی ہے کہ: "لوگ یہ کیوں کہتے ہیں میں بِک گیا، یہ کیوں نہیں کہتے کہ مجھ سے غلطی ہوئی” اور یہ کہہ کر مولانا آبدیدہ ہوگئے۔ مولانا کی یہ بات بشرط صحتِ نقل بہت اہم ہے۔ میں یہی سمجھتا ہوں کہ مولانا سے بہت سے مواقف میں سخت غلطی سرزد ہوئی ہے، جس کے لیے ہم سب کو دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالی ان کی غلطیوں کو معاف فرمائے، ساتھ ہی ان غلط مواقف کا اظہار بھی کرنا چاہیے تاکہ وہ آگے متعدی نہ ہوں۔
میں نے مولانا کی ان تصانیف سے استفادہ کیا ہے، جن کا تعلق رد الحاد اور احقاق اسلام سے ہے۔ اس میدان میں مولانا کے سامنے ہم طفل مکتب ہی ہیں، مولانا جس طرح اپنی ان کتابوں کے ذریعے ہزاروں لوگوں کے ایمان کی حفاظت کا سبب بنے ہیں، اس کے لیے اللہ تعالی ان کو جزائے خیر دے۔ البتہ یہ ناچیز یہ سمجھتا ہے کہ مولانا کے یہاں اس میدان میں بھی تسامح ہے۔
میری ناقص فہم کے مطابق مولانا اسلام کی حقانیت کو سائنس سے ثابت ضرور کرتے ہیں، لیکن اپنے انداز بیان سے سائنس کو اصل مانتے ہیں۔ گویا سائنس ایک مسلمہ پیمانہ ہے اور اس کی مطابقت اسلام کر رہا ہے، اس لیے اسلام حق ہے۔
حالانکہ سائنس کے تعلق سے دو بنیادی اصول ہمیشہ ذہن میں رہنے چاہییں۔ پہلا ضابطہ تو یہ کہ سائنس falsifiable (قابل تردید) ہے اور دوسرا ضابطہ یہ ہے کہ سائنس تغیر پذیر ہے۔ سائنس کے وہ افکار جو بظاہر مسلّمات لگتے ہیں، ایک عرصے کے بعد بدل جاتے ہیں۔ دوسری طرف اسلام کے بنیادی عقائد ناقابل تغیر ہیں، لہذا ایک کامل و مکمل ضابطے کو ثابت کرنے کے لیے ایک ارتقاء پذیر فن کو معیار اور پیمانہ نہیں بنایا جا سکتا۔ امام غزالی نے تہافت الفلاسفہ میں ایسے افراد کا بھی خوب رد کیا ہے، جو تغیر پذیر فلسفے سے اسلام کی مستحکم عمارت کو ثابت کرنا چاہتے تھے۔
البتہ تفہیم دین کے لیے سائنسی مثالوں کو بطور مثال بیان کرنا ایک مستحسن عمل ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ مولانا ہی سے ہم نے یہ سیکھا ہے کہ سائنس "کیا” کا جواب ہے اور مذہب "کیوں” کا، دونوں کے میدان الگ الگ ہیں، لیکن پھر مولانا خود ہی "کیا” کو "کیوں” کا پیمانہ قرار دینے لگتے ہیں، بلکہ سائنسی معرفت کو انسان کی تخلیق کا مقصد تک قرار دے دیتے ہیں۔
اپنی کتاب "خدا کی دریافت” میں لیعبدون کی تشریح لیعرفون سے کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ: ” خدا کی معرفت کے دو درجے ہیں، پہلا درجہ ہے کامن سینس کی سطح پر خالق کو دریافت کرنا، دوسری سطح ہے سائنٹیفک معرفت۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ انسان کے پاس غور و فکر کی لیے سائنس کا سپورٹنگ ڈیٹا موجود ہو۔ مجرد عقلی غوروفکر سے سائنٹیفک معرفت ممکن نہیں ہے۔۔۔ اللہ نے انسان کو حکم دیا تھا کہ وہ تسخیری قوانین دریافت کرے اور معرفت کے اس درجے پر پہنچے جس کو سائنسی معرفت کہا جاتا ہے، مگر اہل ایمان اس کام کو کرنے سے عاجز ثابت ہوئے، اس کے بعد اللہ نے اپنی سنت کے مطابق ایک دوسری قوم کو کھڑا کر دیا، یہ یورپ کی مسیحی قوم تھی”. مولانا نے اپنی اس بات کو مدلل کرنے کے لیے سورہ محمد کی آخری آیت کا حوالہ بھی دیا ہے، حالانکہ اس آیت کا سائنسی معرفت سے دور دور کا واسطہ نہیں ہے، بلکہ آیت کا مولانا کے لیے اجنبی موضوع: قتال فی سبیل اللہ سے تعلق ہے۔
مولانا وحید الدین خان "خدا کی دریافت” کے ص:47 پر لکھتے ہیں کہ خدا کے وجود پر میرا پہلا فلسفیانہ استدلال یہ تھا کہ "میرا وجود ہے اس لیے خدا کا بھی وجود ہے”، یہ استدلال مشہور فلسفی ڈیکارٹ کے اس جملے کی نقل ہے، جس میں اس نے کہا تھا کہ میں سوچتا ہوں اس لیے میں ہوں۔ ڈیکارٹ نے سوچنے کی صلاحیت کو اپنے وجود کی علت قرار دیا ہے۔ مولانا نے اعتراف کیا ہے کہ ان کا یہ استدلال ڈیکارٹ کے جملے کی نقل ہے۔ اگر مولانا نے الفاظ اور مفہوم دونوں ڈیکارٹ سے مستعار لیے ہیں، تو ان کے جملے کا مفہوم یہ ہوا کہ ان کا وجود خدا کے وجود کی علت ہے، جو بنیادی طور پر ایک غلط تصور ہے۔ اگر ہم تاویل کرکے یہ مان لیں کہ مولانا نے صرف الفاظ مستعار لیے ہیں مفہوم نہیں، تو ان کے جملے کا مطلب یہ ہے کہ میرا وجود خدا کے وجود کی علامت ہے، لیکن مولانا جس طرح اس کو اپنا انفرادی فلسفیانہ استدلال قرار دے رہے ہیں، وہ درست نہیں ہے۔ علم کلام کی متوسط کتابوں میں یہ بات واضح انداز سے لکھی ہوئی مل جاتی ہے کہ عالَم کو عالَم اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ وہ اپنے بنانے والے کے وجود کی علامت ہے۔
صفحہ نمبر 17 پر مولانا وحید الدین خان بخاری کی حدیث کا حوالہ دیتے ہیں کہ ” اللہ تعالی کبھی دین کی نصرت کسی فاجر انسان کے ذریعے کرتا ہے، پھر لکھتے ہیں کہ فاجر سے یہاں سیکیولر انسان مراد ہے، جو ابتدائی رہنمائی فراہم کرے گا (واضح رہے کہ وہ مشہور مغربی مفکر گلیلیو کے ضمن میں یہ بات کہہ رہے ہیں) لیکن فلاسفہ اور مسلم متکلمین اس معاملے میں صحیح رہنمائی تک نہیں پہنچ سکے”۔
مولانا کی دو تین کتابوں میں ہی اس طرح کے بہت سے حوالے مل جائیں گے، جن سے ان کے اس ورلڈ ویو کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سائنس کو مسلمہ معیار مان کر، آگے گفتگو کرتے ہیں۔
اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ مولانا کی کتابیں مفید نہیں ہیں۔ ان کی کتابوں سے میں نے استفادہ اس طرح کیا ہے کہ میں متکلمین کی ذکر کردہ علمیات کی بحث کو اصل مان کر، مولانا کے ذکر کردہ اصولوں کو بطور مثال تسلیم کرتا ہوں، انہوں نے جو مباحث ذکر کیے ہیں، اگر ان کو دین کی تفہیم میں محض مثال کا درجہ دیا جائے، تو ان کی اس موضوع پر کتابیں مفید ہی مفید ہیں۔
رد الحاد پر مولانا وحید الدین خان کے کاموں کا تجزیہ خود ایک مستقل کتاب کا متقاضی ہے، اس تاثراتی مضمون میں، اس سے زائد کی گنجائش نہیں ہے۔ وہ اپنے پیچھے جس قدر وسیع علمی لٹریچر چھوڑ کر گئے ہیں، اس سے قابل استفادہ مواد کو الگ کرنا بھی ایک مشقت طلب کام ہے۔