Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, April 23, 2021

یادوں کے چراغ مفتی مجتبیٰ حسین قاسمی : ضد تھی جائیں گے آسمانوں میں

                             تحریر 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ
                            صدائے وقت 
=============================
مولانا مفتی مجتبیٰ حسین قاسمی (ولادت ١٢/فروری ١٩٧٨ء)بن محمد عثمان ساکن چندر سین پوروایا رہیکا ضلع مدھوبنی بھی ٢٠/ اپریل ٢٠٢١ء مطابق شب ٨/رمضان ١٤٤٢ھ بروز منگل رات کے آٹھ بجے اپنی سسرال کھرما، دربھنگہ میں داعئ اجل کو لبیک کہا، جنازہ کی نماز ٨/رمضان دن گذار کر بعد نماز مغرب ان کے آبائی گاؤں چندر سین پورمیں پڑھی گئی، ان کے یارغار اور بصیرت آن لائن کے چیف ایڈیٹر مولانا غفران ساجد قاسمی نے  جنازہ کی نمازپڑھائی اور مقامی قبرستان جہاں علماء و صلحاء کی بڑی تعداد مدفون ہے اور جہاں دوروز قبل ہی مولانا اعجاز ارشد قاسمی کی تدفین عمل میں آئی تھی، وہیں کی خاک میں مولانا مفتی مجتبیٰ حسین قاسمی کو بھی جگہ ملی، پس ماندگان میں ایک بیوی، چار لڑکے اور ایک لڑکی کو چھوڑا،مفتی صاحب دو بہن پانچ بھائی تھے، جن میں سے دو بڑے بھائی پہلے ہی راہی ملک عدم ہو چکے تھے، اور اب قصر عثمان کا یہ تیسرا ستون بھی گر گیا۔انتقال کے وقت مفتی صاحب کے بچے ماٹلی والا بھروچ میں ہی تھے؛ لیکن دارالعلوم ماٹلی والا بھروچ گجرات کے ذمہ داروں نے ان کے گھر پہونچانے کی شکلیں پیدا کیں، جس کی وجہ سے ان بچوں کے لیے آخری دیدار ممکن ہوسکا۔
مولانا مفتی مجتبیٰ حسین قاسمی نے جس
 گاؤں میں آنکھیں کھولیں وہ بڑا مردم خیز رہا ہے، وہاں کی زمین سے مولانا سعید الرحمن، مولانا عتیق الرحمن، مولانا محمد صابر، مولانا محمد زبیر قاسمی رحمھم اللہ جیسے ماہر علم و فن پیدا ہوئے، جن کی خدمات کے تابندہ نقوش مختلف اداروں اورشاگردوں کی شکل میں ملک کے مختلف حصوں میں دیکھے جا سکتے ہیں، اسی گاؤں میں ایک تعلیمی ادارہ مدرسہ فیض عام سعیدیہ کے نام سے قائم ہے، ابتدائی تعلیم کے حصول کے لیے مفتی صاحب کو یہیں بیٹھایا گیا، تھوڑی عمر بڑھی تو مدرسہ حسینیہ مفتاح العلوم رمول نیپال میں داخلہ کرا دیا گیا، ان دونوں جگہوں میں مختلف  اوقات میں آپ نے مولانا حسین احمد قاسمی، مولانا قمر الزماں، مولانا ابو الحسن، مولانا جمشید، مولانا محمود الحسن قاسمی، مولانا فرقان احمد صاحبان کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کیا اور عربی دوم تک کی تعلیم کے بعد دارالعلوم سبیل السلام حیدرآباد کا رخ کیا، جہاں انھوں نے عربی سوم اور چہارم کی کتابیں وہاں کے اس دور کے نامور اساتذہ مولانا نورالعین قاسمی، مولانا احمدعبد المجیب قاسمی اور مولانا عبد القدوس صاحبان سے پڑھیں اور کتاب ہی نہیں فنون کی فہم پائی۔
اعلیٰ تعلیم کے لئے حیدرآباد سے دارالعلوم دیوبند کے لیے رخت سفر باندھا، اور دورہ حدیث کی کتابیں حضرت مولانا نصیر احمد خاں، حضرت مولانا عبد الحق اعظمی، حضرت مولانا مفتی محمد سعید احمد پالن پوری علیھم الرحمہ اور مولانا نعمت اللہ اعظمی، مولانا حبیب الرحمن اعظمی، مولانا ارشد مدنی اور قاری محمد عثمان صاحبان دامت برکاتہم سے پڑھیں، ١٩٩٩ء میں دورۂ حدیث سے فراغت کے بعد یہیں سے ٢٠٠٠ء میں تکمیل افتاکیا اور حضرت مولانا مفتی نظام الدین صاحب، حضرت مولانا مفتی محمد ظفیر الدین صاحب مفتاحی، مفتی حبیب الرحمن حیدرآبادی جیسے اجلہ روزگار سے افتا نویسی کا فن حاصل کیا اور کم و بیش چھ سال دارالعلوم دیوبند کی علمی اور روحانی فضا میں گذارے، تکمیل افتا کے بعد پھر سے حیدرآباد کا رخ کیا اب کہ ان کی منزل  المعھد العالی الاسلامی حیدرآباد اور ہدف تخصص فی الفقہ کا تھا؛ چنانچہ یہاں تخصص فی الفقہ کے سال دوم میں داخلہ لیا اور فقیہ عصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم کے دامن تربیت سے وابستہ ہوکر خوب خوب کسب فیض کیا اور  فقہ و فتاویٰ نویسی کی ممتاز صلاحیت لے کر نکلے، ایسی صلاحیت جس پر خود ادارہ کو ناز تھا اور جس کا اعتراف خود حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم نے نشان امتیاز دے کر کیا۔

تدریسی زندگی کا آغاز جامع الہدیٰ کھاری بجنور سے کیا، پھر مدرسہ قاسمیہ گیا، مدرسہ چشمۂ فیض و جامعہ فاطمۃ الزھراء للبنات ململ، جامعہ عربیہ شمس العلوم شاہدرہ، دارالعلوم مدنی دار التربیت کرمالی بھروچ گجرات کو مختلف سالوں میں اپنی خدمات پیش کرنے کے بعد دارالعلوم ماٹلی والا بھروچ میں درس و تدریس سے وابستہ ہوئے، ان اداروں میں نحو و صرف کی ابتدائی کتابوں سے لے کر بخاری شریف تک درس دیا،اور ایک اچھے معلم اور اور استاذ کی حیثیت سے شاگردوں میں اپنی پکڑ برقرار رکھی، شعبہ افتاء میں طلبہ کی تربیت کی تو ان کے کئی شاگرد افتانویسی میں طاق اور ممتاز ہوکر مختلف جگہوں پر بہترین خدمت انجام دے رہے ہیں۔
مفتی صاحب کو اللہ تعالیٰ نے تصنیف وتالیف کا بھی اچھا ملکہ دیا تھا، فقہ اور فتاوی کے حوالہ سے ان کی کئی کتابیں معروف و مقبول ہوئیں، جن میں الاختلافات الفقیہ بین الفقہاء و الحنفیہ (کتاب الطھارت) اسلام اور جدید ذرائع ابلاغ،فتاوی فلاحیہ، مسلمان عورتوں کے لئے اسلامی ہدایات خاص طور سے قابل ذکر ہیں، فتاویٰ فلاحیہ کی تحقیق تعلیق، تحشیہ، اور ترتیب کی پانچ ضخیم جلدوں نے اہل علم کی توجہ ان کی طرف مبذول کرائی، انہوں نے مفتی احمد بیمات رح کی بیس سے زائد کتب و رسائل پر تحقیق و تحشیہ، تخریج، نظر ثانی اور ترجمہ کاکام بھی کیا؛ جو بذاتِ خود ایک بڑا کام ہے۔
مفتی صاحب درس و تدریس، تصنیف و تالیف،وعظ و خطابت کے ساتھ اورادو اذکار کے بھی پابند تھے، ان کا اصلاحی تعلق حضرت مولانا قمر الزمان آلہ آبادی دامت برکاتہم سے تھا اور اس میدان میں بھی ان کا پھریرا تیزی سے آسمان کی طرف بلندہورہا تھا کہ داعئ اجل نے یک لخت ان کو آسمان تک پہونچا دیا۔ وہ اپنی محنت جد و جہد سے جس طرح ہر میدان میں آسمان کی بلندیوں کو چھونا چاہے تھے اللہ ربّ العزت نے اپنے یہاں بلا کر سب کا تکملہ کردیا، پروفیسر ثوبان فاروقی مرحوم نے ایسے ہی اولو العزم باحوصلہ جوان کی موت پر ایک مرثیہ لکھا تھا، جس کا ایک شعر تھا۔

ضد تھی جائیں گے آسمانوں میں
عمر تھی حوصلہ دکھانے کی

مفتی صاحب چلے گئے، ہم سب کو بھی جانا ہے ؛ لیکن ان کی جدائیگی کا غم دیر تک باقی رہی گا اور دور تک ہم محسوس کرتے رہیں گے، مفتی صاحب سے میری بہت قربت نہیں تھی، اسلامک فقہ اکیڈمی اور مباحث فقہیہ کےبعض سیمناروں کی ملاقات تھی؛ لیکن مختصر ملاقاتوں میں بھی ان کی محبت کا عکس جمیل ذہن و دماغ پر قائم ہوتا تھا، وہ امارت شرعیہ سے بھی بڑے قریب تھے اور حسب موقع اس کی مدد کے لیے فکر مند بھی ہوا کرتے تھے؛ بعض ہنگامی موقعوں سے انہوں نے ریلیف کے کام کے لیے گجرات کے اہل خیر کو متوجہ کرنے کا بھی کام کیا، وہ ایک بافیض انسان تھے، یہی وجہ ہے کہ ان کی جواں سال موت پر اہل علم بے چین ہو گئے، مولانا غفران ساجد قاسمی، مولانا عمر عابدین، مولانا مظفر رحمانی،  مولانا فاتح اقبال ندوی مولانا نافع عارفی وغیرہ تو ان کے دوست اور بعض ان کے ہم سبق ہیں، مفتی مجتبیٰ حسین قاسمی صاحب کی جدائ کا اثر ان پر گہرا ہے، دھیرے دھیرے یہ کم ہوگا، رہ گئے ان کے بچے جن سے ظاہری سہارا چھن گیا ہے، اس کے لیے ہم سب کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اصل سہارا تو ذات باری ہے؛ جو ظاہری سہارے چھین کر یتیم کو در یتیم بنا دیتا ہے۔ اللہ کے اس سہارے کا ابتدائی مظہر بدرجہ اسباب مولانا شاہد ناصری حنفی اور مولانا غفران ساجد قاسمی کی شکل میں موجود ہے، اللہ ان سب کو صبر عطا فرمائے،مرحوم کی مغفرت فرمائے۔آمین ثم آمین یا رب العالمین۔