Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, May 14, 2021

رمضان کے بعد ہماری عملی زندگی کیسی ہونی چاہئے ؟



(ماہِ رمضان کے بعد کامیاب زندگی کے لئے ایک قابلِ مطالعہ تحریر)

/از /مولانابدیع الزماں ندوی قاسمی /صدائے وقت 
==============================
سب سے پہلے ہم اپنے لئے اورتمام مسلمان بھائیوں اور بہنوں کے لئے دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی ہماری اور آپ سب کی نیکیاں قبول فرمائے اور رمضان المبارک کا مہینہ ہمیں بار بار نصیب فرمائے ، رمضان المبارک کا مہینہ رخصت ہوا، اس کے خوبصورت دنوں اور اس کی خوبصورت اورمعطرراتوں کو ہم نے الوداع کہا ،الله رب العزت كی جانب سےرحمتوں اور مغفرتوں سے بھرا ہوا مبارک مہینہ ختم ہوگیا، اس با برکت مہينے كےلمحات گیارہ ماہ کے لیے ہم سے رخصت ہوگئے ، اس کےدنوں کو روزہ رکھ کراس کی راتوں کو تراویح کی نما زادا کرکے ہم نے آباد کیا، اور اپنے نفس کو خیروبھلائی کاعادی بنایا، ہمیں چاہئے کہ ہم ہمیشہ نیکیوں پرگامزن رہیں، اعمال صالحہ اور امور خیر پرمداومت وہمیشگی برتیں ، ملک کے مشہور عالم دین چیرمین انڈین کونسل آف فتویٰ اینڈ ریسرچ ٹرسٹ بنگلور وجامعہ فاطمہ للبنات مظفرپور ، بہار مولانابدیع الزماں ندوی قاسمی نے ان خیالات کا اظہار مختلف اخبار کے صحافیوں کے درمیان اپنی ایک طویل گفتگو میں کیا ، انہوں اپنی گفتگو کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ایک مومن بندہ کی یہی شان ہونی چاہئے،اللہ کےجو نیک بندے ہوتے ہیں وہ رمضان المبارک کے بعد بھی نیک عمل کرتے رہتے ہیں کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالی تمام مہینوں اور تمام دنوں کارب ہے، وہ صرف رمضان المبارک ہی کارب نہیں ہے اس لئے وہ رمضان المبارک کے بعد بھی نیک کاموں پرقائم و دائم رہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ماہِ رمضان میں ہم نے جو نیکیاں کی ہیں ان کے مقبول ہونےکی علامت وپہچان یہ ہے کہ ہم نیکی کےبعد بھی نیکی کرتے رہیں ،اور ہماری نیکیوں کے قبول نہ ہونے کی علامت یہ ہے کہ ہم نیکی کےبعد برائی کرنا شروع کردیں ،ایک مومن سے اس کے مرتے دم تک نیک عمل کرنا مطلوب ہے، موت تک اعمال خیر پرمداومت مقصود ہے۔
انہوں نے کہا کہ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمۃ الله عليه فرماتے ہیں : " اگر دیکھنا ہوکہ کسی کی رمضان المبارک کی عبادت قبول ہوئی ہے یا نہیں ؟ تو اس کے رمضان بعد والے اعمال دیکھو ، اگر رمضان بعد بھی نیک اعمال پر اس کی استقامت اسی طرح باقی ہے جیسے ماہ رمضان میں تھی تو سمجھ لو کہ اﷲ تعالیٰ نے اس کی رمضان میں کی جانے والی عبادتوں اور اطاعتوں کو قبول فرمالیا ، جس کی وجہ سے اسے ان اعمال کو تسلسل کے ساتھ باقی رکھنے کی توفیق عطا فرمائی ۔ اور جس کو دیکھو کہ رمضان کے بعد اس کے اعمال میں یک لخت فرق آگیا ہے ، وہ راہ ہدایت سے بھٹک کر پھر اسی راہ کا راہی ہوگیا جس پر کہ وہ ماہ رمضان المبارک سے پہلے گامزن تھا ، تو سمجھ لو کہ اس کا شمار بھی انہی لوگوں میں ہے ، جن کے متعلق رسول اﷲ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:
" کتنے ہی ایسے روزہ دار ہیں جن کے نصیب میں سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ نہیں ہے ، کتنے ہی ایسے رات میں قیام کرنے والے ہیں جن کے نصیب میں سوائے رات میں جاگنے کے کچھ نہیں۔"
(ابن ماجه: 1690 ، أحمد (2/441)
چنانچہ ہم دیکھتے تھے کہ رمضان مبارک میں مسجدیں تنگ ہوجاتی تھیں ،(ليكن اس سال تو مشيت الهي ايسی رہی كہ كرونا جيسی غير مرئی بيماری نے مسجدوں كے دروازے تک كو بند كرديا)
 انہو ں نے کہا کہ حسن بصری رحمہ اللہ  فرماتے ہیں ( لایکون  لعمل المومن اجل دون الموت) کہ مومن کے نیک عمل کرنے کے لئے کوئی وقت نہیں ہے سوائے موت کے، پھرآپ نے قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی " وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ۔" اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں ، یہاں تک کہ آپ کو موت آجائے (سورت الحجر آیت :99)  یہاں پر "الیقین" سے مراد موت ہے، اس آیت میں نبی کریم صلی الله عليه وسلم کو مرتےدم تک عبادت وبندگی کا حکم ہے ، جب کہ آپ بخشے بخشائے ہوئے ہیں، اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا رمضان میں نیکیاں کرلینا سال بھر کے لئے کافی ہے، اب ہمیں آئندہ رمضان تک نماز پڑھنےکی قرآن مجید تلاوت کرنے، ذکرواذکار کرنے،روزہ رکھنےکی کوئی ضرورت نہیں، یہ تصور سراسرغلط اورغیراسلامی تصور ہے۔ 
انہوں نے کہا کہ حضرت سفیان بن عبد اللہ الثقفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ’’میں نےعرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھےاسلام کے بارے میں ایک ایسی بات بتلادیجئے ( کہ جس میں ساری باتیں آجائیں) کہ آپ کے بعد مجھے کسی اور سے پوچھنے کی ضرورت نہ پڑے ،توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "امنت باللہ" کہہ کر اس پر ڈٹ جاؤ ،ثابت قدم ہوجاؤ، یعنی اپنی زبان سے "امنتُ باللہ "کہہ کر اپنے مومن ہونے کا اقرار کرو اورپھراس اقرارپرقائم اور دائم ہوجاؤ، مطلب یہ ہےاب تومومن ہے، تمہاری ذمہ داری ہے کہ ایما ن کے مطالبات کو ایمان کے تقاضوں کو اور ایمانی صفات کواختیارکرو یعنی اللہ تعالی نے جن چیزوں کا حکم دیا ہے، جن بھلے کاموں کا حکم دیا اس کو بجالاؤ اورجن کاموں سے روکا ہے اس سے رک جاؤ اور باز رہو، اللہ کے حکموں کا خیال رکھو تب تو تم دین اسلام پراستقامت اور ثابت قدمی اختیار کرنے والا سمجھے جاؤ گےورنہ نہیں، اس حدیث میں ایک مسلمان کو ایمان لانے کے بعد طاعت کے کاموں اور نیکیوں پرگامزن رہنےکا حکم دیا جاریا ہے بایں طور کہ وہ اللہ کےاوامرکو بجالائے اورنواہی سے پرہیز کرے،اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح رمضان میں ہم نے خیر کے کاموں پر استقامت کا مظاہرہ کیا اسی طرح شوال میں اورسال کے باقی تمام مہینوں میں بھی  ہمیں استقامت اختیارکرنا چاہئے ۔
ماہِ رمضان کے بعد ایک مسلمان کا اللہ کے فرائض واجبات کی پابندی کرنا اور نیکیوں پر گامزن رہنا اور اپنے اقوال وافعال کی اصلاح کرلینا یہ بہت بڑی دلیل ہے کہ اس نے رمضان سے کچھ حاصل کیا اورسیکھا ہے کیوں کہ  رمضان پورے ایک مہینہ کا مکمل تربیتی کورس ہے، اور یہ اس کےاعمال خیر کےمقبول ہونے کی علامت اور پہچان ہے، ایک مومن کا عمل رمضان کے چلےجانے اوردوسرے مہینےکےشروع ہوجانےسے نہ رکتا ہے اورنہ ہی ختم ہوتا ہے ، بلکہ مومن کا عمل مرتے دم تک جاری رہتا ہے ۔
مولانا موصوف نے بڑے ہی دلنشین انداز میں کہا کہ اگرچہ رمضان کا روزہ ختم ہوگیا ہےمگرنفلی روزے رکھنا تو سال بھر ہمارے لئے مشروع ہے ، اور مشروع عبادات میں سے ہےکہ رمضان کے بعد ماہ شوال کے چھ روزے رکھےجائیں، ہر مسلمان کے لئے شوال کے چھ روزے رکھنا مستحب ہے، شوال کے اس چھ روزہ رکھنے کی بڑی فضیلت ہے، اوراس کے رکھنے پر بڑا اجروثواب بیان ہوا ہے ،
 مسلم شریف کی حدیث ہے ، حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ حدیث کے راوی ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا"جس نے رمضان کا روزہ رکھا اس کے بعد شوال کا چھ روزہ رکھا تواس نے زمانہ بھر کا روزہ رکھا ۔" رمضان کا روزہ اور اس کے بعد شوال کا چھ روزہ رکھنا یہ  سال بھر روزہ رکھنے کے برابر ہے ۔
انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی کتنا مشفق اورمہربان ہے اپنے بندوں پر کہ وہ بلاکسی پریشانی اور مشقت کے زمانہ بھرکے روزے کا ثواب آپ کے نامہ اعمال میں لکھدیتا ہے، اس لئے شوال کے اس چھ روزہ رکھنے میں ہمیں جلدی کرنا چاہئے،شوال کےاس چھ روزے رکھنے میں جلدی کرنا مستحب ہے، کیوں کہ خیر کے کاموں میں ہمیں جلدی کرنا چاہئے،ویسےاس روزہ کو اس ماہ کے اخیراوردرمیان کے دنوں تک موخر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، سلف صالحین شوال کا چھ روزہ رکھنےمیں مبادرت کرتے تھے، امام شافعی رحمہ اللہ  شوال کے دوسرے اور تیسرے ہی دن سے روزہ رکھنا شروع کردیتےتھے،اسی طرح ان چھ دنوں کے روزے متواتر ومسلسل رکھنا زیادہ افضل ہے ،البتہ ان روزوں کا متفرق اورالگ الگ رکھنا بھی جائز ہے۔ انہوں کہا کہ البتہ جس کے ذمہ رمضان کے قضا روزے ہوں تو اسے چاہئے کہ وہ پہلے قضا روزے رکھے، اس کے بعد شوال کے یہ چھ روزے رکھے، اسی طرح سوموار اور جمعرات کے روزے رکھے جائیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سوموار اور جمعرات کے روزے رکھا کرتے تھے ، اور آپ ان دنوں کا روزہ اس لئے رکھتے تھےکہ آپ نے خود فرمایا ہے کہ اس دن لوگوں کے اعمال اللہ کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں ،
اسی طرح ایام بیض ( تیرہویں ، چودھویں اور پندرہویں کا) عاشوراء( نو اور دس محرم کا)اورعرفہ 9( ذی الحجہ) وغیرہ کے روزے رکھے جائیں ۔
انہوں کہا کہ اگرچہ رمضان کے جانے سے قیام رمضان تراویح کی نمازختم ہوگئ مگر قیام اللیل سال کی ہررات مشروع ہے، الله تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔ ” وہ رات میں تھوڑا سوتے تھے اور وقت صبح وہ استغفار کرتے تھے‘‘ ( الذاریات: 17)  اس آیت میں اللہ تعالی نے اپنے نیک بندوں کے اوصاف کو بیان کرتے ہوئے فرمایا وہ رات کو قیام اللیل تہجد کی نماز پرھتے ہیں ۔
کیا ہمارے رسول نے اللہ تعالی کے بارے میں ہمیں یہ نہیں بتایا کہ جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہتا ہے، تواللہ تعالی ہررات آسمان دنیا پر اترتا ہے اور اس کا یہ نزول اترنا حقیقی ہوتا ہے ۔ " جیسا اس کی جلال وعظمت کولائق ہے ۔" پھر اللہ سبحانہ وتعالی فرماتا ہے۔" کون ہے جو مجھ سے دعا مانگے میں اس کی دعا قبول کروں ، کون ہے جو مجھ سے سوال کرے میں اسے عطاکردوں، کون ہے جومجھ سے مغفرت طلب کرے میں اسے بخش دوں ۔۔۔۔”
لیکن افسوس صد افسوس آج بیشتر مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ رمضان ختم ہوتے ہی اپنی پہلی حالت پر لوٹ جاتے ہیں،عبادت میں جو کوتاہی اور سستی پہلے تھی وہی کوتاہی وسستی دوبارہ شروع کردیتے ہیں، اور اسی پر بس نہیں کرتے بلکہ جماعت کے ساتھ فرائض وواجبات کو ترک کرنا شروع کردیتے ہیں جب کہ ایک مومن کی یہ شان نہیں ہونی چاہئیے ۔
انہوں نے زور دے کر جذباتی انداز ميں کہا کہ ہم اپنی عبادات میں موسمی نہ بنیں، اللہ والے بنیں ،رمضانی نہ بنیں بلکہ طاعات اور نیکیوں پر مداومت وہمیشگی کرنے والا بنیں ،  اگرچہ رمضان کا مہینہ ختم ہوچکا اور جاچکا جو فضائل وخوبیوں کا مہینہ تھا، لیکن نیکیوں کے جو فضائل وخوبیاں ہیں وہ منقطع اور ختم نہیں ہوتے، جو رمضان کی عبادت کرتا تھا وہ سمجھ لے کہ رمضان گزرگیا اور جو اللہ کی عبادت کرتا تھا وہ سمجھ لے کہ اللہ تعالی زندہ ہے اسے موت نہیں آئے گی۔
انہوں نے کہا کہ بندہ مومن رمضان میں زکاة ، صدقات اور خیرات کرتا ہے ، اور اس ماہ مبارک میں اپنی داد ودہش سے غریبوں ، مسکینوں ، یتیموں، بیواوں کی دست گیری کرتا ہے ، اور ننگوں ، بھوکوں ، بیماروں اور محتاجوں کا خیال رکھتا ہے ، اور یہ ایک اہم فریضہ ہے جس سے تغافل پر قیامت کے دن رب کے دربار میں اس کی گرفت ہوسکتی ہے ، حضرت ابو ہريره رضی الله عنہ روايت ہے ،اور یہ حدیث قدسی ہے ، جس کا ترجمہ یہ ہے کہ" قیامت کے دن ایک بندے کو رب العالمین اپنی بارگاہ میں طلب کرے گا اور اس سے کہے گا : اے ابن آدم !میں بیمار تھا لیکن تو نے میری عیادت نہیں کی؟ بندہ کہے گا :اے میرے رب !میں تیری عیادت کیسے کرسکتا ہوں جب کہ تو رب العالمین ہے ؟ تو اﷲ تعالیٰ فرمائے گا : تجھے معلوم تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہے لیکن تو نے اس کی عیادت نہیں کی ، اگر تو نے اس کی عیادت کی ہوتی تو اس کے پاس تو مجھے ضرور پاتا ۔ اے ابن آدم !میں نے تجھ سے کھانا مانگا تھا ، لیکن تو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا ؟بندہ کہے گا : میں تجھے کیسے کھلاسکتا ہوں جب کہ تو دونوں جہانوں کا پالنہار ہے ؟ تو اﷲ تعالیٰ فرما ئے گا : میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا ، لیکن تو نے اسے کھانا نہیں کھلایا ، اگر تونے اسے کھلایا ہوتا تو اس کا ثواب آج ضرور میرے پاس پاتا ۔ اے ابن آدم !میں نے تجھ سے پانی مانگا تھالیکن تو نے پانی نہیں پلایا ؟بندہ کہے گا : میرے پرور دگار ! میں تجھے کیسے پلاسکتا ہوں جب کہ تو رب العا لمین ہے ؟ تو ﷲ فرمائے گا : میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا لیکن تو نے اسے نہیں پلایا ، اگر تو نے اسکو پلایا ہوتا تو اسکا ثواب ضرور میرے پاس پاتا ۔
(صحيح مسلم: 2569)
انہوں کہا کہ بندہ مومن رمضان ہو یا غیر رمضان ، رب کی راہ میں برابرخرچ کرتا ہی رہتا ہے ، جیسا کہ فرمان باری ہے :
" اس کتاب میں کوئی شک وشبہ نہیں ، اﷲ سے ڈرنے والوں کے لیے رہنمائی کرتی ہے ، جو غیبی امور پر ایمان لاتے ہیں ،اور نماز قائم کرتے ہیں ، اور ہم نے ان کو جو روزی دی ہے اس میں سے خرچ کرتے ہی رہتے ہیں۔"
(البقرة: 2 - 4)
نیز متقیوں کے اوصاف کا تذکرہ کرتے ہوئے قرآن فرماتا ہے :
"اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف دوڑ لگاؤ جس کی وسعت آسمانوں اور زمین کے برابر ہے ، جو اﷲ سے ڈرنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہے ، جو لوگ خوشی اور غم ہر حال میں ( اﷲ کی راہ میں ) خرچ کرتے ہیں ، اور غصہ پی جانے والے اور لوگوں کو معاف کردینے والے ہوتے ہیں ، اور اﷲ احسان کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے ۔"
 (آل عمران: 133، 134)
 الله رب العزت ہم تمام مسلمانوں کو ان باتوں پر عمل کی توفیق عطا فرمائے ، اور ہمیں نیکیوں پر مداومت وہمیشگی کرنے والا بنائے ۔( آمین یارب العالمین)