Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, May 15, 2021

*اسرائیل نا منظور کیوں؟!*


فلسطین کا مسئلہ اب محض فلسطینیوں یا عربوں کا نہیں رہا بلکہ یہ پوری امت مسلمہ کا مسئلہ ہے. 

از/*محمد نفیس خاں ندوی*
(دار عرفات تکیہ کلاں - رائے بریلی)
                   صدائے وقت 
=============================
اس وقت عالم اسلام اپنے طول وعرض میں جن سیاسی مسائل سے دوچار ہے ان میں سر فہرست ارض فلسطین کا مسئلہ ہے، جو انبیاء و اولیاء کا معبد ومسکن ہونے کی وجہ سے نہایت بابرکت سمجھی جاتی ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے:
 "Too small geography but too big a history."
یعنی جغرافیائی اعتبار سے تو مختصر ترین لیکن تاریخی اعتبار سے طویل ترین۔
 فلسطین‘ بحر متوسط کے مشرق میں واقع ہے جہاں مسلمانوں کا قابل عقیدت واحترام بیت المقدس واقع ہے جو ماضی میں سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا مگر پہلی جنگ عظیم کے بعد سے یہاں کے زیادہ تر علاقوں پر یہودیوں کا قبضہ ہے، فلسطین میں یہودیوں کو آباد کرنے میں برطانیہ کا اہم رول رہا ہے، حکومت برطانیہ نے یہودیوں کی خفیہ تنظیم ’’جیوش ایجنسی‘‘ کو کھلی چھوٹ دی تھی کہ دوسرے ممالک سے یہودیوں کو لاکر یہاں بسائیں اور جب نازی جرمنی اور مشرقی یورپ میں یہودیوں کو ان کے کرتوت کی سزا ملنے لگی تو فلسطین ہی ان کی پناہ گاہ بنا، جو رفتہ رفتہ ایک ملک کی شکل اختیار کرگیا۔
نومبر 1947ء میں اقوام متحدہ کی قرارداد کے ذریعہ فلسطین کا 55% حصہ یہودیوں کو دے دیا گیا اور پھر 14مئی 1948ء کو برطانیہ اور امریکہ کی ساز باز سے تل ابیب کے مقام پر ’’یہودیوں کے قدرتی اور تاریخی حق‘‘ کے طور پر مملکت اسرائیل کے قیام کا اعلان کردیا گیا، اس کے بعد فوج کشی کے ذریعہ اسرائیل کے حدود 78% تک بڑھتے چلے گئے، 1967ء میں اقوام متحدہ نے دو قراردادوں کے ذریعہ اسرائیل کو سابقہ حدود میں جانے کا حکم دیا مگر اس پر کوئی عمل نہ ہوا، بلکہ نہتے فلسطینیوں کوہر طرح سے پریشان کرنے کا سلسلہ چل پڑا، ان کے علاقوں میں جگہ جگہ چوکیاں قائم کردی گئیں، راستے مسدود کر دیے جاتے ہیں، کرفیو لگا کر گھر گھر کی تلاشی لی جاتی ہے، خواتین کی عصمت تار تار کی جاتی ہے، انھیں بے گھر کرکے کیمپوں میں رہنے پر مجبور کیاجاتا ہے، پھر ان کیمپوں کو بھی ان کے قبرستان میں تبدیل کردیا جاتا ہے، ’’جنین‘‘ نامی کیمپ اس کی ایک واضح مثال ہے۔
یہودیوں نے چونکہ فلسطین پر جبراً قبضہ کیا تھا اور وہاں کے باشندوں کو مجبور کیا تھا کہ وہ اسرائیل کے وجود کو تسلیم کریں، جس کے بعد جنگوں کا ہونالازمی تھا اور اسی کا نتیجہ ہے کہ آج تک عالمی سطح پر بھی مسلمانوں نے اسرائیل کو باقاعدہ ملک تسلیم نہیں کیا۔
اسرائیل کے وجود کو منوانے کے لیے گذشتہ سات دہائیوں سے یہی دعویٰ کیا جارہا ہے کہ فلسطین یہودیوں کا آبائی وطن ہے، 1948ء سے اب تک اسرائیل کے سنگین مظالم کے پیچھے یہی پس منظر رہا ہے کہ عربوں نے یہودیوں کو ان کی آبائی سرزمین سے بے دخل کردیا تھا، لیکن یہودیوں کے نزدیک آبائیت کا یہ نظریہ اس بات کی قطعی دلیل نہیں کہ عربوں کا اس تاریخی سر زمین سے کوئی تعلق نہیں ہے، کیونکہ یہ سوال بدستور قائم ہے کہ جب بنی اسرائیل کا وجود ہی نہیں تھا تب یہاں کون سی قوم آباد تھی؟ آثار قدیمہ کے انکشافات اور تاریخی دستاویز کی روشنی میں فلسطین کو کنعانیوں اور یبوسیوں نے آباد کیا تھا جو کہ خالص عرب تھے۔
1450ق م میں حضرت یوشع بن نون ؑ کی قیادت میں یہودی فلسطین کی سرزمین میں داخل ہوئے تھے اور پھر تقریباً چار سو سال تک وہاں آباد مختلف نسلی گروہوں سے لڑنے اور انھیں پسپا کرنے میں مصروف رہے، جن اقوام کو انھوں نے مغلوب کرکے اپنی حکومت قائم تھی وہ عرب ہی تھے۔
 فلسطین کا علاقہ یونان اور پھر روم کی مملکت میں شامل ایک پُرامن علاقہ تھا، لیکن جب یہودی یہاں آبادہوئے تو انھوں نے  حکومتوں کے خلاف سازشیں اور بغاوتیں شروع کردیں جس کے نتیجہ میں متعدد بار یہ سرزمین تہس نہس ہوئی اور یہاں کا امن وسکون غارت ہوا، بالآخر یہودی اپنے کیفر کردار کو پہنچے، وہ قتل کیے گئے، غلام بنائے گئے اور فلسطین کی سرزمین سے باہر نکال دیے گئے لیکن دنیا میں کہیں بھی قابل قبول نہ ہونے کی وجہ سے ہر بار چوری چپکے یہیں آکر بس جاتے اور اپنی جمعیت قائم کرلیتے، آخرش 66ء میں یہودیوں نے رومی حکومت کے خلاف بغاوت کی جس کو کچلنے کے لیے رومی جنرل ٹائٹس (Titus) نے حملہ کیا، یہودیوں کا قتل عام کیا اور زندہ بچ جانے والوں کافلسطین میں داخلہ ممنوع قراردیدیا گیا، اس کے بعد یہودی پوری دنیا میں پھیل گئے، جہاں طاقت ملی وہاں ظلم کیا اور جہاں کمزور پڑے وہاں سازشیں رچیں۔
اس پوری تاریخ کی روشنی میں فلسطین ایک خالص عربی شہر ہے جس کو دوسری اقوام کے حملوں کا سامنا رہا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کی ملکیت کا حق حملہ آوروں کو دے دیا جائے، اگر اُن تمام سالوں کو جمع کیا جائے جو یہودیوں نے حملے کرتے اور تباہی پھیلاتے ہوئے فلسطین میں گذارے تو اتنی مدت بھی نہیں بنے گی جتنی انگریزوں نے ہندوستان میں یا ہالینڈیوں نے انڈونیشیا میں گزاری اوراگر غربت کی حالت میں ایک طویل عرصہ کسی علاقہ میں گذارنے سے اس زمین پر ملکیت کا حق بنتا ہے تو یہودیوں کو چاہیے کہ وہ فلسطین کے بجائے جہاں انھوں نے صرف 200 سال گزارے، مصر کی ملکیت کا مطالبہ کرنا چاہیے جہاں انھوں نے 430 سال گذارے اور اسی طرح مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اندلس کی سرزمین کا مطالبہ کریں جہاں انھوں نے 780برس تک حکومت کی ؎
ہے خاک فلسطین پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پہ کیوں نہیں حق اہل عرب کا
اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جس کی سرحدیں آج تک متعین نہیں ہوسکیں، بہت سے عرب ممالک اور فسلطینی عوام اسرائیل کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتے، اقوام متحدہ نے فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جو سرحدیں کھینچی ہیں‘ اسرائیل ان سرحدوں کو تسلیم نہیں کرتا، اقوام متحدہ کی طے کردہ سرحدیں کچھ اور ہیں اور اسرائیل کے زیر قبضہ علاقوں کی سرحدیں کچھ اور، کسی اصول وقانون کی پرواہ کیے بغیر اسرائیلی فوج جس طرح پورے فلسطین میں دندناتے پھرتی ہے اس سے اسرائیل کی سرحد کا نقشہ کچھ اور ہی دکھائی دیتا ہے، اس کے علاوہ اسرائیلی وصہیونی حکمرانوں کے عزائم پر مشتمل ’’عظیم تر اسرائیل‘‘ (Greater Israel) کا نقشہ سب سے الگ ہے۔ اس نقشہ میں درج ذیل علاقے شامل ہیں:
                
٭فلسطین، لبنان، مغربی شام، جنوبی ترکی۔٭اردن، سینا، شمالی ترکی۔٭عراق اور سعودی عرب کے کچھ علاقے۔
گریٹر اسرائیل کے قیام کے لیے جو منصوبہ تیار کیا گیا اسے  عرف عام میں ینین پلان (Yenon Plan) کہا جاتا ہے، اس منصوبہ کے تحت خاص کر مشرق وسطی کوچھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تبدیل کرنا ہے تاکہ کوئی مضبوط طاقت اسرائیل سے مزاحم نہ ہوسکے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اسرائیل کے پڑوسی ممالک کو نسلی، قومی ومذہبی بنیادوں پر خانہ جنگی کی آگ میں دھکیل دیا گیا، چنانچہ عراق کے اندر سے کرد علاقہ کی تشکیل اور پھر شیعہ سنی بنیادوں پر عراق کی تقسیم، شام کی خانہ جنگی وغیرہ سب اسرائیل کے توسیع پسندانہ عمل ہی کا حصہ ہیں اور ان ساری تباہیوں کی سنگینی اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد مزید سخت ہوتی جائے گی۔
اسرائیل کو تسلیم کرنے سے قبل فلسطین کے حقیقی وارث جنھوں نے اسلام قبول کرلیا ہے نیز دنیا بھر کے سارے مسلمانوں کو خاص کر ’’بیت المقدس‘‘ کے سلسلہ میں اپنے موقف پر نظر ثانی بھی کرنی ہوگی، اس کی دوہی شکلیں ہیں، یا تو اسرائیل کو بیت المقدس سے دست برداری پر آمادہ کر لیا جائے جو کہ نا ممکن ہے یا خود یوٹرن لے کر بیت المقدس کو اسرائیلوں کے سپرد کردیا جائے اور یہ تسلیم کرلیا جائے کہ اب تک کی ساری قربانیاں اور انسانی جان ومال کی ساری قربانیاں ناجائز اور بے مقصد تھیں، یہ فیصلہ کرنا نام نہاد حکمرانوں کے لیے تو شاید آسان ہو لیکن امت مسلمہ کے لیے ناممکن ہے۔
تاریخی شواہد اور انسانی قوانین کی روشنی میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کوئی جواز نہیں، اس بات کو عالمی طاقتیں بھی تسلیم کرتی ہیں یہی وجہ ہے کہ القدس کا اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کی امریکی تجویز کو کلی طور پر مسترد کردیا گیا اور امریکہ کی دھمکیاں بھی کوئی اثر نہ دکھا سکیں۔
اسرائیلی جارحیت اور امریکی دباؤ کے سامنے مسلمانوں کو کسی سمجھوتہ کے بجائے عملی اقدام کی ضرورت ہے، لیکن شرط ہے کہ یہ اقدام ٹھوس اور حکمت عملی سے پر ہو اور جوش کے بجائے ہوش سے تیار کیے گئے منصوبہ کے تحت ہو، کیونکہ فلسطین کا مسئلہ اب محض فلسطینیوں یا عربوں کا نہیں رہا بلکہ یہ پوری امت مسلمہ کا مسئلہ ہے!