Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, May 20, 2021

نامور اسلامی مؤرخ، مصنف، شاعر، ادیب، افسانہ نگار اور استاذ الاساتذہ مولانا نظام الدین اسیر ادروی کا ‏انتقال ‏. ‏

مولانا اسیر ادروی- تمام ہوئی داستان ناتمام۔مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
از /مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی /صدائے وقت. 
+++++++++++++++++++++++++++++
نامور اسلامی مؤرخ، مصنف، شاعر، ادیب، افسانہ نگار اور استاذ الاساتذہ مولانا نظام الدین اسیر ادروی بن شیخ عبد الکریم نے بھی مؤرخہ ۲۰/مئی ۲۰۲۱ء کو اپنے آبائی گاؤں ادری ضلع مؤ یوپی میں اس دنیا کو خیر باد کہہ دیا، ۱۳۴۵ ھ مطابق ۱۹۲۶ء میں ان کی ولادت  ادری میں ہوئی تھی، ابتدائی تعلیم گاؤں کے مدرسہ فیض الغرباء میں پانے کے بعد مختلف مراحل میں مدرسہ مفتاح العلوم مؤ، مدرسہ حنفیہ جون پور، احیاء العلوم مبارک پور، دارالعلوم مؤ اور پھر جامعہ قاسمیہ شاہی مرادآباد میں داخلہ لیا، فراغت شاہی مرادآباد سے ہوئی، دوران درس انہوں نے مولانا حبیب الرحمٰن اعظمی عرف بڑے مولانا، مولانا عبد الطیف نعمانی، مولانا شکر اللہ مبارک پوری، مفتی محمد یسین قاسمی، قاری ریاست بحیرہ آبادی رحمھم اللہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا،
 ١٩٤٢ء میں شاہی مرادآباد میں حضرت مولانا سید فخر الدین صاحب سے بخاری شریف، مولانا اسماعیل سنبھلی سے صحیح مسلم اور ترمذی شریف مولانا محمد میاں دیوبندی  رحمہھم اللہ سے پڑھی، انہوں نے فراغت کے بعد اپنی زندگی درس و تدریس، تصنیف و تالیف اور جمعیت علماء ہند کی خدمت میں گذاری، ان کی تصنیفات کی تعداد تیس سے متجاوز ہے، جن میں ماثر شیخ الاسلام، تحریک آزادی اور مسلمان، دارالعلوم دیوبند احیاء اسلام کی عظیم تحریک، دبستان دیوبند کی علمی خدمات، اردو شرح دیوان متنبی، تاریخ جمعیت علماء ہند، فن اسماء الرجال، تفسیر میں اسرائیلی روایات، تاریخ طبری کا تحقیقی جائزہ اور خود نوشت داستان نا تمام خاص طور سے قابل ذکر ہے۔
وفاق المدارس الاسلامیہ امارت شرعیہ کے ناظم، مجلسِ اردو صحافت اور کاروان ادب کے صدر، اردو کارواں کے نائب صدر اور ہفت روزہ نقیب کے مدیر مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نے ان کے انتقال پر گہرے صدمہ کا اظہار کیا ہے، مفتی صاحب نے اوپر ذکر کردہ ان کا سوانحی خاکہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ مولانا کو اللہ ربّ العزت نے لمبی عمر بخشی، تقریباً چھیانوے سال کی عمر پائی، اور بیش تر وقت،تصنیف و تالیف اور تدریس میں لگایا ، ان کی خود نوشت داستان نا تمام برسوں پہلے چھپی تھی، اس کتاب کا نام مولانا نے سوچ سمجھ کر رکھا تھا، ظاہر ہے کوئی بھی خود نوشت ناتمام ہی رہتی ہے، اب جب کہ مولانا نے دنیا سے رخت سفر باندھ لیا تو داستان مکمل ہوگئی،مفتی صاحب نے فرمایا کہ مولانا سے میری مختلف سیمناروں میں اچھی ملاقات تھی، وہ خانوادہ مدنی کے فدائین اور جمعیت علماء کے کاموں کو آگے بڑھانے میں بڑے معاون رہے، امارت شرعیہ کے کاموں کو بھی وہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے، مفتی صاحب نے غم کے اس موقع سے ان کے ورثاء اور متعلقین کی خدمت میں تعزیت پیش کیا اور مولانا کیلئے دعاء مغفرت فرمائ۔