Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, May 15, 2021

کوئی ‏ بچا ‏نہیں ‏ ہے ‏کو رونا ‏کی ‏ مار ‏سے ‏. ‏. ‏. ‏. ‏. ‏. ‏ ایک ‏ نظم ‏

نظم
*کُرونا کی مار*
(بھارت کے تناظر میں)/صدائے وقت 
========+++++++++++++++++++++
آئی عذاب بن کے کرونا کی یہ وبا
سارا جہان ہو گیا دہشت میں مبتلا
ہندوستاں بھی اس کے لپیٹے میں آگیا
*محفوظ کوئی شعبہ نہیں انتشار سے*
*کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے*
.............................................. 
ہر شخص بدحواس وپریشاں ہے آج کل
سب فکر مند ہیں کہ پڑا کیسا یہ خلل
ہر بستی ہر محلے میں رقصاں ہے اب اجل
*اب رستمِ زمانہ بھی ڈرتا ہے خار سے*
*کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے*
................................................. 
سردی اگر ذرا سی ہوئی ،جاں نکل گئی
آئی ذرا سی چھینک کبھی،جاں نکل گئی
گر سانس تھوڑی پھول گئی،جاں نکل گئی
*ڈرنے لگا ہے ہر کوئی کھانسی بخار سے*
*کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے*
.................................................. 
ٹیچر ہو یا وکیل ہو یا کوئی ڈاکٹر
انجینئر ہو کوئی، کہ ہو کوئی لکچرر
گھبرا رہا ہے ہر کوئی، ہر شخص کو ہے ڈر
*میں بات کر رہاہوں بہت اختصار سے*
*کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے*
.......……...............…...................... 
ہیں دوست دور دور ،پڑوسی بھی دور دور
بھائی سے آج ہو گیا بھائی بھی دور دور
ماموں سے ہو گئیں ہیں ممانی بھی دور دور
*ملتا نہیں کسی سے کوئی آج پیار سے  
کوئی بچا نہیں ہے کورونا کی مار سے 
......................................................... 
اس سے بچاؤ کے لیے کرنا ہے کیا ہمیں؟
نسخے عجیب لوگ بتاتے ہیں، کیا کہیں
تجویز کچھ نہ کچھ ہے ہراک کے دماغ میں
*دیتے ہیں مشورے یہ بڑے افتخار سے*
*کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے
....................................................... 
سن کر صلاح مشورے،سر پیٹ لیجیے
   کہتا ہے کوئی "جسم کو گوبر سے لیپیے"
کہتے ہیں اک مہاشے کہ "گو مُوت پیجیے"
*اللہ کی پناہ ہے ان "شُبھ وچار" سے* 
* کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے*
...................................................... 
کہتے ہیں بعض لوگ "یہ دجالی چال ہے"
"سازش ہے عالمی" یہ کسی کا خیال ہے
کچھ کو تو اس کے ہونے ہی میں احتمال ہے
*یہ بات اک معمہ  ہے اس اعتبار سے*
* کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے*
...................................................... 
کہتے ہیں ماہرین، یہ باتیں فضول ہیں
جو ایسا کہتے ہیں، وہ یقینا جہول ہیں
 یعنی یہ سب کے سب، بڑے ناداں ہیں، فُول ہیں
*ہشیار باش ! ایسے ہر افواہ کار سے*
*کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے*
......................................................... 
یوں پھنس رہے ہیں لوگ کرونا کے جال میں
کہرام ہے مچا ہوا ،ہر اسپتال میں
آئیں گے ایسے دن، نہ تھا وہم وخیال میں
 *سب لوگ کہہ رہے ہیں یہی اضطرار سے*ل    *کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے             ............................................................                                            
ظاہر ہے اسپتالوں کا جو کچھ کہ حال ہے
قلت ہے بستروں کی، دواؤں کا کال ہے
نظم ونسق خراب تھا، سو حسبِ حال ہے
*ہر اسپتال گونج رہا ہے گہار سے*
*کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے*
............................................................
                                                              پُرسانِ حال کوئی نہیں ہے غریب  کا
  اُس کا علاج کوئی نہیں ،موت کے سوا
   بے چارہ اسپتال کے آنگن میں ہے پڑا
*سہمت ہیں سچ پسند مرے اس وچار سے*   *کوئی بچا نہیں  ہے کرونا کی مار سے*
...................................................... 
سناٹا بستیوں میں ہے، ویران ہاٹ ہیں
رونق ہےگر کہیں ،تو وہ شمشان گھاٹ ہیں 
یہ حال دیکھ کر سبھی کے دل اچاٹ ہیں
* امید اب سبھی کو ہے پروردگار سے*
  *کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے
..................................................... 
لاشوں کو ڈھوتے ڈھوتے ،تھکے جارہے ہیں لوگ
پیاروں کو روتے روتے ،مرے جارہے ہیں لوگ
اپنوں کو کھوتے کھوتے، مٹے جارہے ہیں لوگ
*بد حال اور نڈھال ہیں سب غم کے بار سے*
  *کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے*
 .......................................................... 
  بازارِ موت میں بھی سیاست کا کھیل ہے
   اور پھر کہیں کہیں تو تجارت کا کھیل ہے
     اللہ کی پناہ!قیامت کا کھیل ہے
    *خوش ہیں شکاری سارے اپنے اپنے شکار سے
  * کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے*
....................................................... 
انسانیت سے گر گیا ہے کس قدر بشر؟
کچھ لوگ خوش ہیں ایسے میں نفرت پروس کر
شیطاں ہیں ،راکھشس ہیں یہ انساں کے نام پر  *اس دکھ بھرے سمے میں تو پیش آئیں پیار سے*
  *کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے*
.................................................... 
تھالی بجائیے، کبھی تالی بجائیے
بجلی بجھائیے، کبھی دیپک جلائیے
ان ٹوٹکوں کے بل پہ کرونا بھگائیے
*آدیش ایسے ملتے رہے اقتدار سے*
* کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے*
........................................................ 
راجا جو ہیں، وہ راج سنگھاسن میں مست ہیں
    لیڈر جو ہیں، وہ اپنے الیکشن میں مست ہیں
    جلسے جلوس ریالی وبھاشن میں مست ہیں
    *ان کو اگر ہے پیار ،تو ہے اقتدار سے*
    *کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے*
،..................................................... 
ہر شخص بدحواس ہوا ،لاک ڈاؤن سے
دھکا لگا سبھی کو بڑا ،لاک ڈاؤن سے
نقصان ہر کسی کا ہوا، لاک ڈاؤن سے
*ہیں لوگ سارے چھوٹے بڑے دل فگار سے*
*کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے*
.................... .................................. 
  مزدور، کامگار، پھنسے ہیں وطن سے دور
کیا ظلم ہے، کہ ہوگئی بلبل چمن سے دور
کیا وقت آگیا، کہ ہے دولھا دلھن سے دور
*معلوم ہو رہے ہیں سبھی بے قرار سے*
* کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے*
.................................................... 
بے روزگار ہو گئے مزدور بے شمار
ٹھپ پڑ گیا ہے دیکھیے! ہر ایک کاروبار
قلّاش ہو گئے ہیں، کئی کارخانے دار
*محروم ہو گئے ہیں ملازم پگار سے*
*کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے*
................................................. 
درزی، کمھار، موچی ہو عطّار یا سُنار
نجّار،ہو تمبولی، بِساطی ہو یا لہار
وہ کوئی کاروباری ہو یا کوئی دست کار
*زخمی سبھی ہوئے ہیں وبا کی کٹار سے*
* کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے*
.................................................. 
کم زور کاروبار ،معیشت نڈھال ہے
آیاہرایک  شعبےمیں اب اختلال ہے
ایسے ہیں گھر کئی ،جہاں آٹا نہ دال ہے
*تنگ آچکے ہیں لوگ سبھی حالِ زار سے*
* کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے*
.........    ........................................ 
ہوں گردوارے، چرچ ،منادر کہ مسجدیں 
ان مذہبی مقاموں کے حالات کیا کہیں
یک لحظہ ختم ہو گئیں سب ان کی رونقیں
*محروم ہوگئے ہیں یہ استھل بہار سے*
*کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے*
...................................................... 
   رمضان کی بہار، خزاں میں بدل گئ 
  حاصل نہ ہو سکی کسی کو عید کی خوشی
    اس دن بھی دل ادس تھے، آنکھوں میں تھی نمی
 *غم خواری کر سکے نہ گلے مل کے یار سے*   *کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے*
........................ ......................... .     
کالج اگر ہیں بند، تو ہیں مدرسے بھی بند
تعلیم وامتحان کے ہیں سلسلے بھی بند
میرے بھی کام بند ہیں، تو آپ کے بھی بند
*دامن کسی کا بچ نہ سکا اِس شرار سے*
*کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے*
.................................................... 
ہر چیز کی ہوا ہے چلی آن لائن اب
تدریس ساری ہونے لگی آن لائن اب
جلسے، مشاعرے ہیں سبھی آن لائن اب
*ہر چیز جڑ گئی ہے اسی ایک تار سے*
*کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے*
.................................................... 
یارب!ترے حضور ہے ،میری یہی دعا
دنیا سے ختم کر دے ،کرونا کی یہ وبا
فضل وکرم سے تیرے،ہو اب اس کا خاتمہ
*اتنا ہی مانگتا ہوں ادب انکسار سے*
کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے*
............................................. ......... 
*ڈاکٹر مقبول احمد مقبول                                  اودگیر ،مہاراشٹرا(بھارت)