نظم
*کُرونا کی مار*
(بھارت کے تناظر میں)/صدائے وقت
========+++++++++++++++++++++
آئی عذاب بن کے کرونا کی یہ وبا
سارا جہان ہو گیا دہشت میں مبتلا
ہندوستاں بھی اس کے لپیٹے میں آگیا
*محفوظ کوئی شعبہ نہیں انتشار سے*
*کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے*
..............................................
ہر شخص بدحواس وپریشاں ہے آج کل
سب فکر مند ہیں کہ پڑا کیسا یہ خلل
ہر بستی ہر محلے میں رقصاں ہے اب اجل
*اب رستمِ زمانہ بھی ڈرتا ہے خار سے*
*کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے*
.................................................
سردی اگر ذرا سی ہوئی ،جاں نکل گئی
آئی ذرا سی چھینک کبھی،جاں نکل گئی
گر سانس تھوڑی پھول گئی،جاں نکل گئی
*ڈرنے لگا ہے ہر کوئی کھانسی بخار سے*
*کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے*
..................................................
ٹیچر ہو یا وکیل ہو یا کوئی ڈاکٹر
انجینئر ہو کوئی، کہ ہو کوئی لکچرر
گھبرا رہا ہے ہر کوئی، ہر شخص کو ہے ڈر
*میں بات کر رہاہوں بہت اختصار سے*
*کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے*
.......……...............…......................
ہیں دوست دور دور ،پڑوسی بھی دور دور
بھائی سے آج ہو گیا بھائی بھی دور دور
ماموں سے ہو گئیں ہیں ممانی بھی دور دور
*ملتا نہیں کسی سے کوئی آج پیار سے
کوئی بچا نہیں ہے کورونا کی مار سے
.........................................................
اس سے بچاؤ کے لیے کرنا ہے کیا ہمیں؟
نسخے عجیب لوگ بتاتے ہیں، کیا کہیں
تجویز کچھ نہ کچھ ہے ہراک کے دماغ میں
*دیتے ہیں مشورے یہ بڑے افتخار سے*
*کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے
.......................................................
سن کر صلاح مشورے،سر پیٹ لیجیے
کہتا ہے کوئی "جسم کو گوبر سے لیپیے"
کہتے ہیں اک مہاشے کہ "گو مُوت پیجیے"
*اللہ کی پناہ ہے ان "شُبھ وچار" سے*
* کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے*
......................................................
کہتے ہیں بعض لوگ "یہ دجالی چال ہے"
"سازش ہے عالمی" یہ کسی کا خیال ہے
کچھ کو تو اس کے ہونے ہی میں احتمال ہے
*یہ بات اک معمہ ہے اس اعتبار سے*
* کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے*
......................................................
کہتے ہیں ماہرین، یہ باتیں فضول ہیں
جو ایسا کہتے ہیں، وہ یقینا جہول ہیں
یعنی یہ سب کے سب، بڑے ناداں ہیں، فُول ہیں
*ہشیار باش ! ایسے ہر افواہ کار سے*
*کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے*
.........................................................
یوں پھنس رہے ہیں لوگ کرونا کے جال میں
کہرام ہے مچا ہوا ،ہر اسپتال میں
آئیں گے ایسے دن، نہ تھا وہم وخیال میں
*سب لوگ کہہ رہے ہیں یہی اضطرار سے*ل *کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے ............................................................
ظاہر ہے اسپتالوں کا جو کچھ کہ حال ہے
قلت ہے بستروں کی، دواؤں کا کال ہے
نظم ونسق خراب تھا، سو حسبِ حال ہے
*ہر اسپتال گونج رہا ہے گہار سے*
*کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے*
............................................................
پُرسانِ حال کوئی نہیں ہے غریب کا
اُس کا علاج کوئی نہیں ،موت کے سوا
بے چارہ اسپتال کے آنگن میں ہے پڑا
*سہمت ہیں سچ پسند مرے اس وچار سے* *کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے*
......................................................
سناٹا بستیوں میں ہے، ویران ہاٹ ہیں
رونق ہےگر کہیں ،تو وہ شمشان گھاٹ ہیں
یہ حال دیکھ کر سبھی کے دل اچاٹ ہیں
* امید اب سبھی کو ہے پروردگار سے*
*کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے
.....................................................
لاشوں کو ڈھوتے ڈھوتے ،تھکے جارہے ہیں لوگ
پیاروں کو روتے روتے ،مرے جارہے ہیں لوگ
اپنوں کو کھوتے کھوتے، مٹے جارہے ہیں لوگ
*بد حال اور نڈھال ہیں سب غم کے بار سے*
*کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے*
..........................................................
بازارِ موت میں بھی سیاست کا کھیل ہے
اور پھر کہیں کہیں تو تجارت کا کھیل ہے
اللہ کی پناہ!قیامت کا کھیل ہے
*خوش ہیں شکاری سارے اپنے اپنے شکار سے
* کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے*
.......................................................
انسانیت سے گر گیا ہے کس قدر بشر؟
کچھ لوگ خوش ہیں ایسے میں نفرت پروس کر
شیطاں ہیں ،راکھشس ہیں یہ انساں کے نام پر *اس دکھ بھرے سمے میں تو پیش آئیں پیار سے*
*کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے*
....................................................
تھالی بجائیے، کبھی تالی بجائیے
بجلی بجھائیے، کبھی دیپک جلائیے
ان ٹوٹکوں کے بل پہ کرونا بھگائیے
*آدیش ایسے ملتے رہے اقتدار سے*
* کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے*
........................................................
راجا جو ہیں، وہ راج سنگھاسن میں مست ہیں
لیڈر جو ہیں، وہ اپنے الیکشن میں مست ہیں
جلسے جلوس ریالی وبھاشن میں مست ہیں
*ان کو اگر ہے پیار ،تو ہے اقتدار سے*
*کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے*
،.....................................................
ہر شخص بدحواس ہوا ،لاک ڈاؤن سے
دھکا لگا سبھی کو بڑا ،لاک ڈاؤن سے
نقصان ہر کسی کا ہوا، لاک ڈاؤن سے
*ہیں لوگ سارے چھوٹے بڑے دل فگار سے*
*کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے*
.................... ..................................
مزدور، کامگار، پھنسے ہیں وطن سے دور
کیا ظلم ہے، کہ ہوگئی بلبل چمن سے دور
کیا وقت آگیا، کہ ہے دولھا دلھن سے دور
*معلوم ہو رہے ہیں سبھی بے قرار سے*
* کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے*
....................................................
بے روزگار ہو گئے مزدور بے شمار
ٹھپ پڑ گیا ہے دیکھیے! ہر ایک کاروبار
قلّاش ہو گئے ہیں، کئی کارخانے دار
*محروم ہو گئے ہیں ملازم پگار سے*
*کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے*
.................................................
درزی، کمھار، موچی ہو عطّار یا سُنار
نجّار،ہو تمبولی، بِساطی ہو یا لہار
وہ کوئی کاروباری ہو یا کوئی دست کار
*زخمی سبھی ہوئے ہیں وبا کی کٹار سے*
* کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے*
..................................................
کم زور کاروبار ،معیشت نڈھال ہے
آیاہرایک شعبےمیں اب اختلال ہے
ایسے ہیں گھر کئی ،جہاں آٹا نہ دال ہے
*تنگ آچکے ہیں لوگ سبھی حالِ زار سے*
* کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے*
......... ........................................
ہوں گردوارے، چرچ ،منادر کہ مسجدیں
ان مذہبی مقاموں کے حالات کیا کہیں
یک لحظہ ختم ہو گئیں سب ان کی رونقیں
*محروم ہوگئے ہیں یہ استھل بہار سے*
*کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے*
......................................................
رمضان کی بہار، خزاں میں بدل گئ
حاصل نہ ہو سکی کسی کو عید کی خوشی
اس دن بھی دل ادس تھے، آنکھوں میں تھی نمی
*غم خواری کر سکے نہ گلے مل کے یار سے* *کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے*
........................ ......................... .
کالج اگر ہیں بند، تو ہیں مدرسے بھی بند
تعلیم وامتحان کے ہیں سلسلے بھی بند
میرے بھی کام بند ہیں، تو آپ کے بھی بند
*دامن کسی کا بچ نہ سکا اِس شرار سے*
*کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے*
....................................................
ہر چیز کی ہوا ہے چلی آن لائن اب
تدریس ساری ہونے لگی آن لائن اب
جلسے، مشاعرے ہیں سبھی آن لائن اب
*ہر چیز جڑ گئی ہے اسی ایک تار سے*
*کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے*
....................................................
یارب!ترے حضور ہے ،میری یہی دعا
دنیا سے ختم کر دے ،کرونا کی یہ وبا
فضل وکرم سے تیرے،ہو اب اس کا خاتمہ
*اتنا ہی مانگتا ہوں ادب انکسار سے*
کوئی بچا نہیں ہے کرونا کی مار سے*
............................................. .........
*ڈاکٹر مقبول احمد مقبول اودگیر ،مہاراشٹرا(بھارت)