Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, May 3, 2021

صدقہ فطر کیوں دیا جاتا ہے؟. ‏. ‏



از/ مولانا محمد نعیم الدین غازی پوری   /صدائے وقت               
+++++++++++++++++++++++++++++
صدقہ فطر یعنی فطرانہ کے چند اہم مسائل

صدقہ فطر کا مقصد روزے کی حالت میں سرزد ہونے والے گناہوں اور کمی کوتاہی سے خود کو پاک کرنا ہے۔
 حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر، روزے دار کو بیہودگی اور فحش باتوں سے پاک کرنے کے لئے نیز محتاجوں کے کھانے کا انتظام کرنے کے لئے فرض کیا ہے۔
صدقہ فطر کس پر واجب ہے؟
جس شخص میں تین شرطیں پائی جائیں اس پر صدقہ فطر واجب ہوتا ہے۔
(۱)مسلمان ہو، کافر پر صدقہ فطر واجب نہیں ۔
(۲)آزاد ہو، غلام پر صدقہ فطر واجب نہیں۔
(۳)اپنے قرضے اور اصل ضروریات اور اہل و عیال کی ضروریات کے علاوہ نصاب کا مالک ہو لہذا اس شخص پر جو قرض اور حوائج اصلیہ سے زائد نصاب کا مالک نہ ہو اس پر صدقہ فطر واجب نہیں ۔گویاصدقہ فطر ہر آزاد مسلمان پر واجب ہے جب کہ وہ یکم شوال (عید الفطر) کو نصاب کا مالک ہو خواہ اسی دن یعنی یکم شوال کو مالک ہوا ہو، اس پر سال گذرنا شرط نہیں۔
صدقہ فطر کا نصاب کیا ہے؟
صدقہ فطر کا نصاب ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کا مال ہے جو کہ انسان کی حاجات اصلیہ سے زائد ہو یہ مال خواہ سونا چاندی یا اس کے زیورات کی شکل میں ہو یا نقدی یا مال تجارت یا ضرورت سے زائد گھریلو سامان یا رہائشی مکان سے زائد کوئی مکان وغیرہ کی شکل میں ہو۔
کس کی طرف سے دیا جائے؟
درج ذیل افراد کی جانب سےصدقۂ فطر نکالنا ضروری ہے۔
(۱) اپنی جانب سے۔
 (۲) اپنے چھوٹے محتاج بچوں کی طرف سے۔
(۳) ہاں اگر وہ مالدار ہوں تو صدقہ فطر انہی کے مال سے نکالا جائے،
مسئلہ:شوہر پر ضروری نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی کی طرف سے صدقہ فطر نکالے، لیکن اگر بیوی پر احسان کرے تو جائز ہے، اسی طرح باپ پر اپنے بڑے باشعور بچوں کی جانب سے صدقہ فطر نکالنا واجب نہیں ، لیکن اگر وہ ان پر احسان کرے تو جائز ہے، ہاں اگر اولاد محتاج و مجنون ہوں تو ان کی طرف سے صدقہ فطر نکالنا واجب ہے۔ عید الفطر کے دن صبح صادق ہوتے ہی یہ صدقہ واجب ہو جاتا ہے۔ لہذا جو شخص صبح صادق ہونے سے پہلے ہی انتقال کر گیا اُس پر صدقہ فطر واجب نہیں ہے
جو بچہ عید الفطر کے دن صبح صادق سے پہلے پیدا ہو اس کا صدقہ فطر بھی دینا ہوگا۔ صدقہ فطر نماز عید سے قبل ادا کر دینا چاہئے اور بہتر ہے کہ عید سے اتنا پہلے ادا کردیں کہ غریب بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہوسكیں اور اگر کوئی اپنی کوتاہی کی وجہ سے نماز عید تک بھی صدقة الفطر ادا نہیں کر سکا تو اس سے معاف نہ ہو گا بلکہ اس کے بعد بھی ادا کرنا ضروري ہے۔
صدقہ فطر کس کو دیا جائے؟
صدقہ فطر کے مستحق وہی لوگ ہیں جو زکوة کے مستحق ہیں۔ صدقہ فطر اپنے غریب رشتہ داروں کو دینے میں زیادہ فضیلت ہے۔ دینی مدارس کے طلباء و طالبات صدقہ فطر کا بہترین مصرف ہیں۔ ان کو صدقہ فطر دینے سے اشاعت دین میں مدد کا اجر بھی ملے گا۔
صدقہ فطر کی مقدار کیا ہے؟
احادیث میں چار چیزوں کا ذکر ہے ہر شخص کو چاہئے کہ اپنی حیثیت کے مطابق اعلی سے اعلی چیز کو اختیار کرے۔
کشمش یا منقی:
کسی بھی قسم کا ایک صاع (ساڑھے تین کلو احتیاطا چار کلو) فی کس
کھجور:
کسی بھی قسم کی ایک صاع (ساڑھے تین کلو احتیاطا چار کلو) فی کس، مارکیٹ ویلیو معلوم کر لی جائے
جو:
ایک صاع کسی بھی قسم کے (ساڑھے تین کلو احتیاطا چار کلو) فی کس،مارکیٹ ویلیو معلوم کر لی جائے
گندم:
کسی بھی قسم کی نصف صاع (پونے دو کلو احتیاطا دو کلو) فی کس، مارکیٹ ویلیو معلوم کر لی جائے
ہر شخص کو چاہئے کہ صدقہ فطر اپنی حیثیت کے مطابق دے۔ صرف گندم کو مخصوص کرلینے سے اگرچہ صدقہ فطر ادا ہوجاتا ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ اگرا للہ تعالی نے وسعت دی ہے تو کشمش، کھجور یا جو کے مطابق صدقہ فطر ادا کرے۔