Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, May 3, 2021

مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ---

                 تحریر 
مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار ،اڈیشہ و جھارکھنڈ. 
                   صدائے وقت 
++++++++++++++++++++++++++++++
کورونا نے اس بار پھر سے پورے ہندوستان پر قبضہ جما لیا ہے، اس قبضہ کی وجہ سے پورے ہندوستان میں ہاہا کار مچا ہوا ہے، تمام ریاستوں نے اس مرض پر قابو پانے اور بقول ان کے مرض کے چین کو توڑنے کے لئے الگ الگ تدبیریں اختیار کر رکھی ہیں، کہیں رات کا کرفیو ہے اور کہیں دن میں بھی لاک ڈاؤن،حالانکہ رات کا کرفیو پہلے چور اچکوں اور نکسلائٹ کے دہشت گردانہ حملوں کو روکنے کے لیے لگایا  جاتا تھا، گذشتہ سال کی پریشانی اور بربادی کا تجربہ نہیں ہوتا تو ہمارے وزیر اعظم اب تک کتنی بار تالی اور تھالی پٹواچکے ہوتے اور چراغاں کراکر فضائی آلودگی میں اضافہ کرواتے، پورے ملک میں لاک ڈاؤن کرکے غریبوں، مزدورں اور معاشی طور سے کمزور لوگوں کو مارنے کے اپائے ہوچکے ہوتے؛ لیکن اس بار منظر کچھ الگ ہے،  ہائی کورٹ کہتا ہے کہ لاک ڈاؤن کروتو ریاستی حکومت سپریم کورٹ جا پہونچتی ہے کہ ہمیں لاک ڈاؤن نہیں کرناہے اور سپریم کورٹ راحت دیتے ہوئے کہتی ہے کہ ریاستی حکومت کا لاک ڈاؤن نہ کرنے کا فیصلہ صحیح ہے، وزیر اعظم جو گذشتہ سال ہر لاک ڈاؤن کے اختتام کے بعد اگلے لاک ڈاؤن کا اعلان کرنے الکٹرونک میڈیا پر آجاتے تھے اور ریاستوں سے مشورے نہیں لیا کرتے تھے، وہ بھی اپنے اس قانونی حق کو ریاستی حکومت کے پالے میں ڈال چکے  ہیں، وزیر داخلہ کو انتخابی مہم سے  فرصت نہیں ہے. مدراس ہائ کورٹ اس مصیبت کا ذمہ دار الیکشن کمیشن کو ٹھہرا رہا ہے. ریاستیں اپنے اپنے انداز میں کام کر رہی ہیں اور مرض تیزی سے بڑھتا جارہا ہے، اتنی کثرت سے جس کا اندازہ کسی کو نہیں تھا، ہندوستان نے دو دو ویکسین اس مرض کے بنائے اور پوری دنیا میں اپنی حصولیابی کا ڈنکا بجایا اور واہ واہی بٹوری، دنیا کے بہت سارے ملکوں کو ویکسین برآمد کرایا؛ لیکن  خود اپنے ملک میں حال یہ ہے کہ کئی لوگ جو ویکسین کے دونوں ڈوز لے چلے گئے تھے، اس مرض میں مبتلا ہو کر دنیا کو الوداع کہہ چکے ہیں اور کئی کورونا پوزیٹو ہوکر اس ویکسین کے غیر مؤثر اور مرض کے دفاع میں ناکام ہونے کا اعلان کر رہے ہیں، ایسے ہی لوگوں میں سابق
 وزیراعظم من موہن سنگھ بھی ہیں
اسپتال کا حال بھی بہت برا ہے مریضوں کے لیے نہ تو بیڈ دستیاب ہے اور نہ ہی آکسیجن، سپریم کورٹ نے اپنی خفگی کا اظہار کرتے ہوے کہا کہ آکسیجن کو اسپتال تک پہونچنے میں  جوبھی رکاوٹ بنے وہ چاہے جس درجہ کا ہو اسے  سولی دیےدینی چاہیے ۔
اس بیماری کو روکنے کے لئے ریاستی اور مرکزی سطح پر جو گائیڈ لائن جاری کی گئی ہے وہ بھی ناقابل فہم ہے، کرفیو رات کا لگایا گیا ہے وہ بھی  چھ بجے شام سےچھ بجے صبح تک اس درمیان اکثر اوقات عموماً لوگ اپنے گھروں میں ہی رہتے ہیں، پھر اس کرفیو کا کیا حاصل ہے اور یہ کورونا کے چین کو توڑنے میں کس طرح مؤثر ہو سکتا ہے۔
تعلیمی ادارے بند کر دئیے گئے ہیں؛ لیکن اساتذہ کی حاضری تینتیس فی صد ضروری ہے، جب بچے اسکول نہیں آئیں گے تو اساتذہ اسکول جاکر کیا کریں گے اور کیا انہیں کورونا سے متأثر ہونے کا ڈر نہیں ہوگا،اسکول میں اساتذہ دوردراز سے آتے ہیں، لاک ڈاؤن کے اس ضابطہ میں اساتذہ اور سرکاری ملازمین کی صحت کی ان دیکھی کی گئی ہے،انسانی حقوق کی تنظیم نے اس کا نوٹس لیا ہے. لیکن حکومت کی طرف سے پہلے والا حکم اب بھی اپنی جگہ پر ہے. یہ دور موبائل کا ہے اگر اساتذہ سے کوئی کام لینا ضروری ہوجائے تو موبائل کے ذریعہ انہیں بلانا چنداں دشوار نہیں ہے۔
لاک ڈاؤن کے ضابطہ میں شادی اور آخری رسومات میں پچاس، ایک سو اور بعض ریاستوں میں دوسو لوگوں تک شرکت کی اجازت دی گئی ہے، کیا اس شرکت سے کورونا کے جراثیم کو پھیلنے کا موقع نہیں ملے گا، جب کہ دیکھا گیا ہے کہ اس قسم کی تقریبات میں نہ تو لوگ عموماً ماسک کا استعمال کرتے ہیں اور نہ ہی جسمانی فاصلے کا خیال رہتا ہے، اور اگر دوسو لوگوں کا جمع کرنا مرض کے پھیلنے میں معاون نہیں ہے تو اتنے ہی تعداد کے ساتھ مذہبی عبادت گاہوں کو کھولنے میں کیا حرج ہے جب کہ عبادت گاہوں میں عوامی داخلہ پر پابندی لگا دی گئی ہے؛ عمومی صورت حال یہ ہے کہ عبادت گاہوں میں عبادت کرنے والے ماسک کا بھی اہتمام کرتے ہیں اور جسمانی دوری کے لئے انہوں نے نشانات بھی بنا رکھے ہیں۔ گائڈ لائن میں اس کا بھی خیال رکھنا چاہیے تھاکہ ہندوستان مذہبی ملک ہے، ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ ربّ العزت عبادت سے خوش ہوتا ہے اور اس کی رضامندی حاصل ہوجائے تو مرض کے رفو چکر ہونے میں دیر نہیں لگے گی؛ لیکن جس وقت سب سے بڑی ضرورت اللہ کو راضی کرنے کی ہے، حکومتوں نے ان تمام دروازوں کو بند کردیاہے جہاں سے اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل ہونے کے زیادہ امکانات تھے۔
یہ کیسی عجیب اور مضحکانہ سوچ ہے کہ مذہبی عبادت خانوں میں سودو سو کی تعداد سے کورونا بڑھے گا؛ لیکن انتخابی ریلی میں لاکھوں کی شرکت تمام ضابطہ اخلاق کو توڑ کر کے ہوتو کوئی فرق نہیں پڑتا، کمبھ میں اکیس لاکھ لوگ اشنان کرلیں اور سینکڑوں کورونا پوزیٹیو ہوں تو مرض نہیں پھیلتا؛ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ اکھاڑے کے ایک مہنت بھی اس مرض میں دنیا چھوڑ چکے اور کمبھ میلے میں شریک سینکڑوں لوگ جانے کے کگار پر ہیں جو بچ کر اپنے علاقوں میں آئیں گے وہ پرشادی کے بجائے کورونا ہی لوگوں میں تقسیم کریں گے، بعد از خرابیئ بسیار ہمارے وزیر اعظم نے کنبھ کو علامتی بنانے کی درخواست ضرور کی ہے؛ لیکن اس کا اثر بھی محدود پیمانے پر ہی ہوا ہے۔
سرکارکے اس رویہ کی وجہ سے مزدوروں نے پھر نقل مکانی شروع کردی ہے، بس اور ریلوے اسٹیشنوں پر پہلے ہی کی طرح جمواڑہ ہورہاہے اور لوگوں کو مرض کا خوف کم، بھوکے مرجانے کا ڈر زیادہ ستا رہا ہے۔
 جو ہوسپیٹل پہونچا اس کے مرنے کی ہی خبر آتی ہے، پہلے ریکوری ریٹ زیادہ تھا، دھیرے دھیرے وہ انتہائی کم ہوتا جارہا ہے، صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ کورونا پوزیٹو ہونے کا مطلب مرجاناہی سمجھاجانے لگا ہے۔
اس ایک سال میں حکومت اسپتالوں کی کارکردگی کو بڑھانے کے لئے بہت کچھ کرسکتی تھی؛ لیکن حکومت نے اس طرف توجہ نہیں دی، اسے سیاسی اتھل پتھل ہی سے فرصت نہیں ملی، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہندوستانی شہری بے بس و لاچار ہیں اور وہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے پر مجبور ہیں۔
اس تحریر کا حاصل قطعاً یہ نہیں ہے کہ بیماری سے بچنے کے لیے جو تدابیر اور احتیاط ضروری ہے اس سے صرف نظر کر لیا جائے،جو کچھ اور جتنا کچھ ہمارے بس میں ہے اسے ضرور کرنا چاہیے، توکل کا مطلب تدبیر چھوڑ دینا نہیں ہے۔