Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, May 31, 2021

گاؤں کی باتیں۔۔۔۔۔ اب گیہوں کے خالی کھیت آباد نہیں ہوتے ‏


از/ حمزہ فضل اصلاحی/صداؠے وقت۔
+++++++++++++++++++++++++++++++++++
 یہ گاؤں کی آبادی سے قریب کا ایک کھیت ہے ، یہاں تھوڑی دیر میں ٹریکٹر آنے والا ہے۔ بارش ہوئی تو کسان نے سوچا کہ جتائی بوائی کرلی جائے، پتہ نہیں بعدمیں اس کا موقع ملے گا یا نہیں ؟اس سے پہلے والے سال بوائی کے وقت سے بر سات کے آخرتک مسلسل بارش ہوتی رہی،نتیجتاً ارہر اور مکئی کی بوائی کی مہلت ہی نہیں ملی اور اُس سیزن میں اکثر کھیت خالی رہ گئے ۔ امسال کھیت کے مالک کو گزشتہ سا ل کے تجربہ نے قبل ازوقت بوائی پر مجبور کردیا ہے۔وہ ٹریکٹر والے کا انتظار کر رہا ہے۔  تھوڑی دیر میں اس کھیت کی جتائی کی خبر پھیل گئی ۔  یہ سن کر ایک ایک کرکےنوجوان کھلاڑی جمع ہوئے، کھیت کے مالک  سے ملے، اس سے پوچھا   : ’’ کیا واقعی آج ہی ٹریکٹر آئے گا؟ پورے کھیت کی جتائی ہوگی ؟ ‘‘  جواب ملا:’’ ہا ں آج ہی جتائی ہوگی ، پورے کھیت کی جتائی ہی نہیں بوائی بھی ہوگی ، مکئی بونے کا ارادہ ہے۔اب کھیت کے آس پاس بھی نظر مت آنا۔ ‘‘
  یہ سن کرسب کے چہر ے اتر گئے ہیں ، ان پر ہوائیاں اڑنے لگی ہیں ۔ کسی کھلاڑی کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ ان کھلاڑیوں نےچلچلاتی دھوپ میں پچ بنائی تھی، بہت  محنت کی تھی ، اب اس پر ہل چلنے والا ہے۔سب  ایک دوسرے سے کہہ رہے ہیں :’’ پچ بنانے سے پہلے پوچھا تھا کہ ابھی جتائی ہوگی یا نہیں ؟ اس وقت کہاتھا کہ پندرہ جون کے بعد جتائی ہوگی مگر ۲۵؍ مئی ہی کو پچ میں ہل چلنے والا ہے... ۔ ‘‘
                        حمزہ فضل اصلاحی۔

  پیچھے کھڑا ایک شخص نوجوان کھلاڑیوں کو پریشان دیکھ کر خوش ہورہا ہے ، اس نے جواب دیا :’ ’ بارش ہوگئی ہے ، اب تمہارے کھیل کی وجہ سے وہ اپنا نقصان نہیں کرے گانا ، موقع ملا ہے ، بوائی کر لے گا ، تم لوگوں کو کھیل کے آگے کچھ نظر نہیں آتا تھا ،اب کھیلو جاکر،کسی کی بات نہیں سنتے تھے ۔‘‘
 اس حوصلہ شکنی اوروعدہ خلافی پرکوئی نوجوان کھلاڑی گیہوں کے خالی کھیت میں پچ بنانے کی ہمت کیسے کرے گا؟ 
 یہ اِس سال کا قصہ ہے ، ایسا ہر سال ہوتا ہے ، اسی لئے اب گیہوں کے خالی کھیت میں پچ بنانے کا رجحان کم ہور ہا ہے ۔ بچے کہیں کہیں پچ بنا لیتے ہیں لیکن نوجوانوں کی اکثریت اس سے دور دور  ر ہتی ہے ، اس جھمیلے میں نہیں پڑتی ہے ۔
 ایک وقت تھا، جب گاؤں میں گیہو ں کی فصل کٹتے ہی اس میں نوجوان کھلاڑیوں کی فوج اترتی تھی جواس میں دن رات محنت کرکےپچ بناتی تھی ، ان کے ساتھ بچے بھی ہوتے تھے ، گیہوں کی جڑوں والی او بڑ کھابڑ زمینوں کو ہموار کرنے کیلئے ہزاروں جتن ہوتے تھے ۔ ان پر پھاوڑا چلتا تھا، اینٹ سے زمین کے ابھر ے حصے کو برابر کیا جاتا تھا ۔ نا ہموار زمینوںپر ’پلیا‘چلائی جاتی تھی۔پچ بنانے کیلئے اپریل اور مئی کی گرمی میں ہینڈ پمپ سے پانی لایا جاتاتھا ۔ پانی کی بالٹی اٹھانے کیلئے کمزور سے کمزور بازؤں میں طاقت آجاتی تھی ۔ کھلاڑیوں کو کھانے پینے کی بھی سدھ نہیں رہتی تھی ، پوری پوری دوپہرگھر سے باہررہتے تھے۔ پچ بنانے کیلئے کم سن ہتھیلیاں بھی کھیتی کسانی کے بڑے سے بڑے اور بھاری بھر کم اوزار اٹھاتی تھیں ۔ اب کھیل کا یہ جنون دیکھنے کیلئے آنکھیں ترستی ہیں ۔ اس ہمت اور حوصلہ کے سامنے ناہموار زمین کی کیا حیثیت ؟ چند دنوں میں پچ بن جاتی تھی ،اسکے بعد خالی کھیت آباد ہوجاتے تھے۔دن کے اکثر حصے میں یہاں بچے کھیلتے نظر آتے تھے۔لو کے تھپیڑوں کے درمیان گیند بازی اور بلے بازی ہوتی تھی۔ان مناظر کو کسی کیمرے میں قید نہیں کیا جاسکا ہے، ہاں اس زمانے کی ایک تصویر دیکھئے:
  یہ دس بیس سال پہلے کا منظر ہے ۔ گیہوںکی فصل تیارہو گئی ہے، اس کھیت کے قریب کسان کے ساتھ ساتھ بچے بھی نظرآرہے ہیں۔ جب گیہوں کی بوائی ہوئی تھی ، یا فصل ہری بھری تھی تو وہاں صرف کھیت کا مالک یا اس کے گھروالے ہی آتے تھے،کوئی بچہ نظر نہیں آتا تھا۔ آخرایسا کیا ہوگیا کہ اتنے سارے بچوں کو کھیت کی فکر ہوگئی ہے۔ اس کے اطراف میں منڈلانے لگے ہیں۔کچھ بچے تو ایسے ہیں کہ فصل پکنے کے بعد روزانہ کئی کئی مرتبہ کھیت کا چکر لگاتے ہیں ، نظر دوڑاتے ہیں ، ادھر ادھر دیکھتے ہیں ، سن گن لیتے ہیں اور پھر آگے بڑ ھ جاتے ہیں ۔ دراصل انہیں کھیت خالی ہونے کا انتظار ہے ، انہیں گیہوں کی فصل سے کوئی مطلب نہیں ہے، انہیں اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ یہ کس کی فصل ہے یا کیسی فصل ہے ؟ گیہوں کی جگہ کسی اور چیز کی فصل ہوتی ، تب بھی یہ بچے اسی بے تابی سے فصل کٹنے کا انتظا ر کرتے، اسی طرح آتےجاتے ، انہیں تو بس ایک ہی فکر ہے کہ کسی طرح ان کی پچ بن جائے، انہیں کھیلنے کاوسیع وعریض میدان مل جائے جہاں گلیوں اور محلوں کی طرح کوئی روک ٹوک نہ ہو ، وقت کی بھی کوئی پابندی نہ ہو، جب جی میں آئے یہاںکھیلنے کیلئے آجائیں اورجب تک جی چاہے کھیلتے رہیں۔اس طرح کی پچ بارش تک محفوظ رہتیں ۔ جیسے ہی پہلی بارش ہوتی ، اس پچ پر صبح و شام کھیلنے والوں کی دھڑکنیں تیز ہوجاتیں۔وہ پریشان ہوجاتے ۔انہیں لگتا کہ اب ان کی پچ اور میدان ان سے چھین لیا جائے گا۔ اگر کسی کسان کی کھڑی فصل پر ہل چلادیا جائے تو اس پر کیا گزرے گی ؟اس کا ہر کسی کواندازہ ہے لیکن کسی کی پچ پر ہل چلانے سے کتنی تکلیف ہوتی ہے؟ کتنادکھ ہوتا ہے؟کتنی پیڑا ہو تی ہے؟ شاید  بہت سوں کواس کااحساس تک نہیں ہے ۔