Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, May 25, 2021

مصالحت میں بھلائی ہے نئی _ازدواجی ‏ زندگی ‏کی ‏ شروعات ‏ کرنے ‏ والوں ‏کے ‏لیے ‏ بہترین ‏ تجاویز ‏. ‏. ‏. ‏. ‏. ‏. ‏. ‏ ضرور ‏ مکمل ‏ مضمون ‏ پڑھیں ‏



از/ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی/صدائے وقت. 
==============================
         اِدھر کچھ عرصے سے مسلم گھرانوں میں ایک کم زوری کا مشاہدہ ہورہا ہے کہ نوجوان جوڑوں میں ذرا سی مزاج کی ناموافقت ہوئی ، فوراً لڑکی اپنے میکے کا رخ کرتی ہے اور مہینوں شوہر سے رابطہ نہیں رکھتی _ اب شوہرِ نام دار اَڑ جاتے ہیں کہ جیسے زوجۂ محترمہ ناراض ہوکر اپنے والدین کے پاس چلی گئی ہیں اسی طرح خود ہی واپس آجائیں اور بیوی کا اصرار ہوتا ہے کہ شوہر صاحب آئیں ، اپنے رویّے پر معذرت کریں اور منّت سماجت کرکے اسے اپنے ساتھ لے جائیں _ دونوں اپنی بات پر اڑے رہتے ہیں اور تنازعہ نہ صرف جوں کا توں قائم رہتا ہے ، بلکہ خلیج بڑھتی چلی جاتی ہے _
     کبھی شادی کے ابتدائی دنوں میں بہو اور ساس کے درمیان موافقت باقی نہیں رہتی _ اب لڑکی شوہر سے کہتی ہے کہ میں آپ کی ماں کے ساتھ نہیں رہ سکتی ، میرے لیے دوسرے گھر کا انتظام کیجیے اور شوہر کہتا ہے کہ میں اپنی ماں کو اپنے سے الگ نہیں کرسکتا ، انھوں نے مجھے پال پوس کر اتنا بڑا کیا ہے ، اب وہ میرے سہارے اور تعاون کی محتاج ہیں _  بیوی اپنی بات منوانے کے لیے میکے چلی جاتی ہے اور شوہر کا پختہ ارادہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی ماں کو نہیں چھوڑ سکتا ، اس لیے وہ بیوی کو منانے کی کوشش نہیں کرتا _ اس طرح دوریاں بڑھتی چلی جاتی ہیں ، جو بسا اوقات علیٰحدگی اور طلاق پر منتج ہوتی ہیں _
      زوجین کے درمیان ناموافقت کی اور بھی بہت سی صورتیں ہوسکتی ہیں _ وہ کبھی اس صورت حال سے دوچار ہوں تو انہیں سمجھنا چاہیے کہ دنیا میں کوئی بھی انسان 'مثالی' (Perfect) نہیں ہے _ لاکھوں میں کوئی ایک جوڑا ہوسکتا ہے جس کے درمیان ہر معاملے میں صد فی صد موافقت پائی جاتی ہو _ زندگی  تو درحقیقت ایڈجسٹمنٹ کا نام ہے _ بڑے خوش قسمت ہیں وہ جوڑے جو اپنے درمیان چھوٹے بڑے اختلافات کے باوجود ساتھ رہ کر ہنسی خوشی زندگی گزارتے ہیں اور افرادِ خاندان : ماں ، باپ ، ساس ، سسر ، بچوں اور دیگر رشتے داروں کو بھی خوش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں _ اور بڑے قابلِ رحم ہوتے ہیں وہ جوڑے جو معمولی اختلاف کو اپنی اَنا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں، چنانچہ خود بھی زندگی بھر پریشان رہتے ہیں اور اپنے قریبی عزیزوں کو بھی پریشانی میں مبتلا رکھتے ہیں _
        دو انسانوں میں صد فی صد موافقت ہو ہی نہیں سکتی _ جب ماں باپ اور بھائی بہن میں کامل موافقت اور ہم آہنگی نہیں ہوتی تو زوجین کے درمیان کیوں کر ہوسکتی ہے ، جو الگ الگ ماحول سے آتے ہیں اور الگ الگ مزاج رکھتے ہیں _
       جب اختلافات سر ابھارنے لگیں تو فریقین کا کیا رویّہ ہونا چاہیے؟ اس سلسلے میں قرآن مجید نے بہت خوب صورت بات کہی ہے اور بہت عمدہ حل کی طرف رہ نمائی کی ہے  _ اختلافات کی صورت میں کئی رویّے ممکن ہیں : اختلافات کو علی حالہ باقی رکھا جائے ، ان میں اور تیزی لائی جائے ، ہر فریق اپنی بات پر اَڑا رہے ، اپنے کو حق پر  اور دوسرے کو غلط کار سمجھے ، اپنی بات منوانے کی کوشش کرے اور دوسرے کی ایک نہ سنے ، یا مصالحت پر آمادہ ہوجائے _ قرآن مجید میں آخری رویّے کو اختیار کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے _ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَاِنِ امۡرَاَةٌ خَافَتۡ مِنۡۢ بَعۡلِهَا نُشُوۡزًا اَوۡ اِعۡرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡهِمَاۤ اَنۡ يُّصۡلِحَا بَيۡنَهُمَا صُلۡحًا‌ ؕ وَالصُّلۡحُ خَيۡرٌ‌ ؕ وَاُحۡضِرَتِ الۡاَنۡفُسُ الشُّحَّ‌ ؕ وَاِنۡ تُحۡسِنُوۡا وَتَتَّقُوۡا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرًا (النساء :128)
" اگر کسی عورت کو اپنے شوہر سے بدسلوکی یا بے رُخی کا خطرہ ہو تو اس بات میں کوئی مضائقہ نہیں کہ دونوں (کچھ حقوق کی کمی بیشی پر) آپس میں صلح کرلیں ۔ صلح بہرحال بہتر ہے ۔ نفس تنگ دلی کی طرف جلدی مائل ہو جاتے ہیں _ لیکن اگر تم لوگ احسان سے پیش آؤ اور خدا ترسی سے کام لو تو یقین رکھو کہ اللہ کو تمہارے اس طرزِ عمل کی خوب خبر ہے _"
       اس آیت میں کئی اہم باتیں کہی گئی ہیں 
        پہلی بات یہ کہ ازدواجی زندگی کو برقرار رکھنا زیادہ اہم ہے _ عورت کو ہر حال میں اسے پیشِ نظر رکھنا چاہیے _ شوہر سے اختلافات ہونے لگیں تو عورت کے سامنے دو آپشنز ہیں : اس سے علیٰحدگی حاصل کرلے ، یا اس کے ساتھ رہے _  اس آیت میں دوسرے آپشن کو اختیار کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے _
        دوسری بات یہ کہ اس آیت میں ایک زرّیں اصول بیان کیا گیا ہے _" صلح بہر حال بہتر ہے _" یہ اصول یوں تو زندگی کے ہر معاملے میں اختیار کرنا پسندیدہ ہے ، لیکن ازدواجی زندگی میں اس کی غیر معمولی اہمیت ہے _ ذرا ذرا سی بات پر روٹھ جانا ، گھر بیٹھ رہنا اور تمام تعلقات یک سر منقطع کرلینا پسندیدہ رویّہ نہیں ہے ، بلکہ اختلافات چاہے جتنے شدید ہوں ، مصالحت کی کوشش کرنی چاہیے اور اگر کوشش کی جائے تو کوئی نہ کوئی راہ ضرور نکلے گی _
         تیسری بات یہ کہ " نفس تنگ دلی کی طرف جلدی مائل ہو جاتے ہیں _" یہ انسانی فطرت کا بیان ہے _ اس میں ایک اہم نفسیاتی حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے _ ہر شخص اپنے مفادات کو عزیز رکھتا ہے اور انہیں حاصل کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے ، چاہے اس کے مقابل میں اس کا کوئی عزیز ہی ہو ، اس لیے اگر سامنے کے فریق سے ایثار اور محبت کا مظاہرہ نہ ہو تو دل برداشتہ نہیں ہوتا چاہیے ، بلکہ اسے انسانی فطرت پر محمول کرکے نظر انداز کرنا چاہیے _
         چوتھی بات یہ کہ تنازعات کی صورت میں احسان کی روش اختیار کرنی چاہیے اور ہر کام اللہ سے ڈر کر کرنا چاہیے _  یہ خطاب اصلاً مردوں سے ہے کہ وہ برتر پوزیشن رکھتے ہیں ، اس لیے انہیں عورتوں کو دبانے اور ان کے حقوق سے محروم کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے _
        پانچویں بات یہ کہ مصالحت کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ کسی ایک فریق کی تمام باتیں قبول کر لی جائیں اور دوسرے فریق کی ایک بات بھی نہ مانی جائے _ یہ ممکن ہے ، لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے _ مصالحت میں ہر فریق کو کچھ پیچھے ہٹنا ہوتا ہے اور اپنے کچھ مطالبات سے دست بردار ہوتا پڑتا ہے _
           کاش نئی نسل ، خاص طور پر ان     لڑکیوں کو جن کی کچھ عرصہ قبل شادی ہوئی ہے اور ان کی ازدواجی زندگی میں کدورت پیدا ہونے لگی ہے ، اس بات کا شعور ہو اور وہ اَنا کی قید سے خود کو آزاد رکھنے کی کوشش کریں _