Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, May 4, 2021

*کرونا وائرس قدرت کا تازیانہ ہے*


تحریر :رشید سمیع سلفی
مہتمم جامعة التوحید کھاڑی پار، بھیونڈی(مہاراشٹر). 
                          صدائے وقت
============)) ===============
وبا نے ملک میں ہاہاکار مچادی ہے،چاروں طرف موت کا تانڈو جاری ہے،سوشل میڈیا پر صف ماتم بچھی ہوئی ہے،خوف کی سائے میں زندگی سانس لے رہی ہے،امیدوں کا دیا ٹمٹما رہا ہے،اجل زندگی کا تعاقب کررہی ہے،ہرطرف افسردگی چھائی ہوئی ہے،اسپتالوں میں تڑپتے مریض،سڑکوں پر دوڑتی ایمبولینس،شمشانوں سے اٹھتے دھوئیں کے مرغولے،قبرستانوں میں تازہ قبروں کی قطاریں خوف کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں۔
دوسری طرف لاک ڈاؤن کےسبب شہر سے ہجرت کرتے مزدور،زندگی کی نارسائیاں ومحرومیاں،بند دکانوں کا کرب،ریڑھی والوں کی بےبسی،تاجروں کی بے کاری و لاچاری اجتماعی بحران کے دروازے کھٹکھٹا رہی ہے،مصائب وآلام کا اک سلسلہ ہے جو تھمنےکا نام نہیں لے رہا ہے،بعض وہ ہیں جنھیں مالی حالات نے بھی زخم دیا اور بیماری نے بھی کسر اٹھا نہ رکھی،کچھ تو سب کچھ بکھر جانے کے بعد زندگی کی کرچیاں سمیٹنے میں لگے ہوئے ہیں۔

ایک سال سے تعلیم کا سلسلہ بند پڑا ہے،اسکولوں میں کاٹ کھانے والا سناٹا پسر ا ہے،کلاس روم میں دھول اڑرہی ہے،درودیوار فریاد کناں ہیں،طلبہ کی تعلیمی کیرئیر اجڑ رہا ہے،کھیل اور گیم کلچر پروان چڑھ رہا ہے،آن لائن تعلیم سسٹم کا مذاق اڑارہی ہے،بے تنخواہ اساتذہ غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہیں،کتنے ہیں جو تدریسی پیشے کو خیر باد کہہ کر کسی اور میدان میں قسمت آزمائی کررہے ہیں،کتنے طلبہ ہیں جو چھٹیوں سے تنگ آکر کام پر لگ چکے ہیں۔اسپتالیں قتل گاہوں میں تبدیل ہورہی ہیں،افواہوں کے درمیان مریض اسپتال میں داخل ہونے سے پہلے آدھا مرچکا ہوتا ہے،بعض ہاسپٹل بیڈ فل دکھانے کیلئے کرائے کے مریض رکھے ہوئے ہیں تاکہ بڑی مچھلیوں کی آمد پر انھیں ڈسچارج کرکے امیر مریضوں کو ایڈمٹ کیا جاسکے،آکسیجن کی کالا بازاری ہے،کورونا کے داؤں کا شاٹج دکھا کر منہ مانگی قیمت وصول کی جارہی ہے،لاکھوں روپئے اینٹھ کر مریض کی لاش رشتے داروں کے حوالے کردی جاتی ہے۔
قضا و قدر پر ایمان رکھنے والے مسلمان خوف ودہشت سے مرے جارہے ہیں،بات بات میں توکل کی گردان کرنے والے اپنے ہی مریضوں سے بھاگ رہے ہیں،اسلامی اخوت کی دہائی دینے والے احتیاط کے نام پر تجہیز وتکفین سے بھی گئے گذرے ہوگئے،انسانیت نوازی کی بات کرنے والے اپنے اوپر دروازہ بند کرکے دنیا و مافیہا سے کٹ گئے ہیں،محشر سے پہلے محشر کا نظارہ ہے۔
حالات کی سنگینی بتاتی ہیکہ خلق خدا ایک بھیانک عذاب میں گرفتار ہے،جی ہاں ایک ہمہ جہت اور گلوبل عذاب  جس نے انسانیت کے ہر طبقے کو متاثر کیا ہے اور زندگی کے ہر شعبے کو نقصان پہنچایا ہے،ظلم وجور میں ملوث دنیا پر قدرت کا غضب بھڑک رہا ہے ،حیرت اس بات پر ہیکہ انسان اب بھی درس عبرت لینے کیلئے تیار نہیں ہے ،صرف اسباب کےگرد گھوم کر وباء کو شکست دینا چاہتا ہے،سوچ رہا ہیکہ ویکسین آئےگی اور وباء ختم ہوجائے گی،لیکن یہ نہیں دیکھتا کہ ویکسین جب تک تمام افراد تک پہونچےگی تب تک  موتوں کا آنکڑا بہت دور نکل چکا ہوگا اور بعض جگہوں پر ویکسین لگوانے کے بعد بھی لوگ پوزیٹیو پائےگئے ہیں،ضروری تھا کہ انسانیت خالق کائنات سے رجوع ہوتی اور رورو کر اپنے گناہوں سے تائب ہوتی کیونکہ اللہ فرماتا ہے (ترجمہ)" کیوں نہیں جب ہمارا عذاب ان پر آیا تو یہ گڑگڑائے"،لیکن غافل انسان عبادت گاہوں کے دروازے بند کرکے ثابت کررہا ہیکہ اسے اس بحران کے دور میں بھی خالق کا سہارا نہیں چاہئے بلکہ میڈیکل سائنس ہی اس کی امید ہے۔