Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, May 23, 2021

گاؤں کی باتیں داستانِ ٹکورا، کھٹائی،مربہ اور اچار۔۔

                             تحریر
                    حمزہ فضل اصلاحی   
                        صدائے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔          
یہ آم کا باغ ہے ،گاؤں کے باہر ہے ،لب سڑک ہے۔ ہلکی ہلکی بارش ہورہی ہے ، خنک ہوائیں چل رہی ہیں ، سڑک سےکچھ گاڑیاں سنبھل سنبھل کر جبکہ کچھ پوری رفتار سے گزر رہی ہیں ۔ باغ کے اس حصے میں جہاں دھوپ آتی ہے کچے آم یوں ہی زمین پر ہیں۔ یہ ڈھیر  آم پکنے تک اسی طرح باغ میں پڑے رہتے ہیں ۔یہ سب کچھ جھیلتے ہیں، گرمی کے ساتھ ساتھ ان پر بارش کا پانی بھی گرتا ہے۔ باغ والے سے پوچھنے پر پتہ چلا کہ اب لوگ آندھی اورہوا سے گرے ہوئے کچے آم کم خرید تے ہیں ،اسی لئے اب باغ والے ٹوکری میں آم لے کر گلی گلی نہیں گھومتے۔ روزانہ جتنا بھی آم نکلتا ہے ، اسے باغ میں اسی طرح پھینک دیتے ہیں ، اسےکاٹا اور چھیلا بھی نہیں  جاتا، جب یہ سوکھ جاتا ہے تو اس کی کھٹائی بنائی جاتی ہے، اس کی بہت ڈیمانڈ ہے، یہ کھانے کو مزیدار بناتی ہے ۔
پہلے اسی کچے آم کی اہمیت تھی ۔ باغ کی نگرانی کرنے والا اسے بانس کی ٹوکر ی میں جمع کرتا تھا۔ وہ وقفے وقفے سے باغ کے چکر لگاتا تھا، ایک ایک پیڑ کے نیچے جا کر دیکھتا تھا۔ جو بھی آم ملتا تھا، اسے ساتھ لے کر آتا تھا، اس طرح کچے آموں کا ڈھیر لگ جاتا تھا۔ اسے خریدنے کیلئے گاؤں والے بھی باغ میں آتے تھے جبکہ باغ والا کچا آم گھوم گھوم کر بھی بیچتا تھا۔ گرمی کی دوپہر میں وہ گلی گلی میں یہی صدا لگاتا تھا: ’’لے لو ٹکورا (کچا آم)...‘‘ اس آواز پر اپنے اپنے گھروں سےبچے یا بڑے نکلتے تھے۔ گاؤں کے جن گھر وں میں بچے یا بڑےموجود نہیں ہوتے تھے، اس کی گھر عورتیں دروازے کے پیچھے سے کچا آم خریدتی تھیں۔
اس زمانے میں کچے آم کی خریدو فروخت شو ق سے کی جاتی تھی، اس کی وجہ یہ تھی کہ لوگ اس سے بہت کچھ تیار کرتے تھے۔ سیزن میں یہ دسترخوان کا لازمی حصہ ہوتاتھا ۔ انو اع و اقسام کی کھٹی میٹھی چٹنیاں بنتی تھیں، اچار بنتے تھے، مر بے بنتے تھے ۔ گھر کی بڑی بوڑھیاں،  نانیاں دادیاں اس میں پیش پیش رہتی تھیں۔ کھٹائی بنانے میں بہت محنت کرتی تھیں۔ پہلے و ہ کچے آم کا چھلکا اتارتی تھیں، اس کا بیج نکالتی تھیں، پھر اسے کاٹتی تھیں، دھوپ میں سکھاتی تھیں ۔ آم کے دنوں میں ان کا روزانہ کایہی معمول تھا ۔ گھر کا سب کام ختم کر کے گھر کی تمام عورتیں اسی میںلگ جاتی تھیں ۔ وہ پوری لگن سے کچے آم کے قتلے بناتی تھیں۔ اکثر بڑی بوڑھیوں کی گرمی کی دوپہر کچا آم کاٹنے میں گزر جاتی تھی۔ اس طرح بیس تیس دن کچے آم کے ساتھ گزرتے تھے۔ ا تنی محنت کے بعد دھوپ میں سکھانے کے سبب چند کلو سوکھے ہوئے کچے آم ہاتھ آتے تھے۔ انہیں اوکھلی میں کوٹا جا تا تھا۔ اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بنا ئے جاتےتھے۔ اس عمل کے دوران گھریلو خواتین پسینے سے تر بتر ہو جاتی تھیں۔ پھر ان ٹکڑوں میں نمک اورتیل ڈال کر انہیں مرتبان میں محفوظ کرلیا جاتا تھا اور ان کا سال بھر استعمال ہو تا تھا، کبھی کبھی دودوسال تک یہ کھٹائی خراب نہیں ہوتی تھی، یہ خالص ہوتی تھی۔ اب ایسی کھٹائی ملنی مشکل ہے۔
مئی کے آخری عشرے میں آموں میں گٹھلی پڑ جاتی تھی۔ اس کے بعد دادیوں نانیوں کی مصروفیت بدل جاتی تھی۔ ان کا پورا پورا دن اچار اورمربہ بنانے میں گزر جاتا تھا ۔ پیڑ سے بچا بچاکر گٹھلی والے کچے آم توڑے جاتے تھے۔ پھر انہیںکٹنی (آم کاٹنےکا اوزار)سے کاٹا جاتاتھا۔ خاص بات یہ ہے کہ پورے محلے میں ایک دو کٹنی ہی ہوتی تھی، جو گھر گھر جاتی تھی جہاں اس سے آم کے دو ٹکڑ ے کئے جاتے تھے۔ کاٹنے کے بعد ایک دو دن تک اسے دھوپ میں سکھایا جاتا تھا ۔ پھر اس میں نمک، مرچ،مسالہ اور خالص سر سوں کا تیل ڈالا جاتا تھا۔ اس طرح اچار تیا ر ہوجاتاتھا، اس اچار کی خوشبو دور دور تک پھیل جاتی تھی، اس کےذائقہ کی ہر کوئی تعریف کر تاتھا۔ گاؤں سے زیادہ اس لذیذ اچار کی دھوم شہروں میں ہوتی تھی۔ گاؤں والے اسے ساتھ میں پردیس بھی لے جاتے تھے، اسے اپنےشہری دوستو ں کو بطور تحفہ دیتے تھے، جوبھی ایک بار گاؤں کی دادیوں نانیوں کے ہاتھ کےبنے ہوئے اچار کھا لیتا تھا، اس کا دیوانہ ہوجاتا تھا۔ شہر سے گاؤں آتے وقت اکثرشہروالے اپنے گاؤں کے دوست سے فرمائش کرتے تھے: ’’ دیکھو اس بار اپنی دادی کے ہاتھ کا بنا ہوا اچار ضرور لانا، بھولنا مت ۔ ‘‘
کچے آم سے بچوں کو بھی دلچسپی ہوتی تھی۔ وہ اس کیلئے مارے مارے پھرتے تھے۔ گھر والوں کے ڈانٹنے اور لا کھ منع کرنے کے باوجود وہ روزانہ آم کی تلاش میں نکلتے تھے۔ پوری دوپہر ایک باغ سے دوسری باغ کا چکر کاٹتے تھے۔ لو‘ اور جھلسادینےو الی گرمی کی بھی پروا نہیں کرتے تھے۔ آندھی آنےپر سب کچھ چھوڑ کر باغ کی طر ف بھاگتے تھے جہاں آم جمع کرنے کا مقابلہ ہوتاتھا۔ جو بچے اپنے کپڑے میں آم رکھتے تھے، ان میں چیپ (آم سے نکلنے والا پانی ) لگ جاتی تھی، اس کا داغ مشکل سے صاف ہوتاتھا۔ نمک اورلال مرچ پاؤڈر کے ساتھ کچا آم کھا یا جاتا تھا۔  جو بچے زیادہ کچا آم کھاتے تھے،ان کی نکسیر پھوٹتی تھی اور ناک سے خون نکلنے لگتا تھا۔ اب یہ سب بہت کم ہوتا ہے۔ کچے آم جمع کرنے کا مقابلہ نہیں ہو تا، دوپہر کے وقت باغ میں بچے نظر ہی نہیں آتے، کیونکہ اب انہیں اسکرین ٹٹولنے سے فرصت ہی نہیں ملتی، وہ ایک ایک درخت کے نیچے کیسے جائیں؟ باغ کا ٹوکر ا کیسے ٹٹولیں ؟