Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, May 23, 2021

فلسطین : خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہےسحر پیدا۔۔۔

                        تحریر
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار و اڈیشہ و جھارکھنڈ
                         صداؠے وقت۔
++++++++++++++++++++++++++++++++++
بالآخر گیارہ دن کی طوفانی جنگ کے بعد مصر اور امریکہ کی ثالثی کے نتیجہ میں اسرائیل نے جنگ بندی کی پیش کش کی اور حماس نے دو شرطوں کے ساتھ اس پیش کش کو قبول کرلیا، یہ دوشرطیں مسجد اقصیٰ میں فوجی دخل اندازی سے گریز اور شیخ جراح علاقہ سے تین مسلم خاندانوں کے بجبر نکالنے کی کوشش سے اجتناب تھیں، اسرائیل نے ان دوشرطوں کو وقتی طور پر ہی سہی مان لیا اور اس طرح جنگ بندی ہو گئی، ہم سب جانتے ہیں کہ جنگ مسٔلہ کا حل نہیں ہے، یہ مسٔلوں کو جنم دیتی ہے، فلسطین کے لوگ اور حماس کی قیادت بھی جنگ سے گریز کرتی رہی ہے، فلسطین کی تحریک کو پوری دنیا میں متعارف کرانے والے جلیل القدر مجاہد یاسر عرفات نے بھی برسوں کے شب خوں اور گوریلا جنگ کے بعد کیمپ ڈیوڈ سمجھوتہ کرکے جنگ سے گریز کرنے کا اعلان کردیا تھا، اس کے نتیجہ میں الفتح کی مقبولیت کم ہوئی اور حماس کا دور عروج شروع ہوا،انتفا ضہ تحریک کے باوجود حماس نے بھی جنگ کے سلسلے میں ہمیشہ محتاط رویہ اختیار کیا، اور جب پانی سر سے اونچا ہونے لگا تو "تنگ آمد بجنگ آمد" کے فارمولے پر عمل کرنا شروع کیا، اس معاملہ میں بھی اس نے پہل نہیں کی ؛بلکہ جب مسجد اقصیٰ کے نمازیوں پر اسرائیل نے قہر ڈھایا اور شیخ جراح علاقہ میں تین خاندانوں کے ساتھ ناروا اور ظالمانہ سلوک کیا؛ تاکہ وہ اس علاقہ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں تو حماس کی قیادت کے صبر کا پیمانہ ٹو ٹ گیا اور حماس نے ان مظلومین کی دفاع کے لیے اقدام کئے، اسرائیل اور اس کی بکی ہوئی میڈیا دنیا کو یہی باور کراتی رہی کہ ہم دفاعی جنگ لڑرہے ہیں، یہ کیسا دفاعی جنگ تھا، جس میں فلسطین کے بچے،بوڑھے، عورت، مرد اور معصوم شہریوں پر بمباری کی گئی، ذرائع ابلاغ سے جڑی عمارت کو نشانہ بنا کر نیست و نابود کر دیا گیا، اسپتال اسرائیل کی بمباری کے شکار ہوے اور دوسری طرف اسرائیل کے صرف  بارہ لوگ کام آئے ممکن ہے مرنے والوں کی تعداد اس سے زیادہ ہو اور جنگی حکمت عملی کے تحت ان کو چھپایا گیا ہو؛ لیکن اس حقیقت سے انکار کی قطعاً گنجائش نہیں ہے کہ غزہ ہر اعتبار سے برباد اور ویران ہوگیا اور اسرائیل کی ظالمانہ حرکت کے نتیجے میں اس ہرے بھرے شہر کو دوبارہ آباد ہونے میں برسوں لگ جائیں گے، اس لڑائی کا یہ منفی پہلو ضرور ہے، اس لڑائی میں حماس کے کئی اہم کمانڈر شہید ہوئے گویا کہ جانی، مالی ہر طرح کی بربادیوں کا سامنا فلسطینیوں کو کرنا پڑا، دونوں رائٹس کے لیے لڑ رہے تھے ایک کی جنگ حقوق( Rights) کے لیے تھی اور دوسرے کی جنگ دنگا فساد بھڑکانے (RIOT) کے لیے, حماس اپنے حقوق کے لیے لڑرہے تھے اور اسرائیل فلسطین میں دنگا فساد بھڑکانے کے لیے اور دنیا نے دیکھا کہ حقوق کی لڑائی، دنگا فساد پر غالب آگئی،نیتین یاہو کا فخریہ بیان کہ ہماری فوج بڑھتی رہے گی اور جہاں تک چلی جائے گی وہی اسرائیل کی سرحد ہوگی،اسے اللہ نے اس طرح ذلیل کیا کہ پوری دنیا دیکھتی رہ گئی۔
اس لڑائی میں فلسطینیوں اور حماس کو یقین تھا کہ ہمارے جوانوں، بچوں،بوڑھوں اور عورتوں کی شہادتیں رائگاں نہیں جائیں گی، اس لیے کہ فطرت اور قدرت کا طریقہ یہی ہے کہ جب ہزاروں ستارے غروب ہوتے ہیں تو سپیدی سحر نمودار ہوتی ہے، شاعر نے اسی بات کو کہا ہے کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا؛چنانچہ ایسا ہی ہوا 
اس پورے حالات واقعات کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوگا کہ اس جنگ کے کئی اہم  اورمثبت فائدے بھی سامنے آۓ، ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ برسوں سے فلسطین کے معاملات و مسائل اس قدر دب گئے تھے کہ دنیا کی توجہ اس طرف جاہی نہیں رہی تھی، اس بے توجہی کے نتیجہ میں کئی عرب ملکوں نے عوامی احساسات سے ہٹ کر اسرائیل سے مختلف قسم کے سمجھوتے کرلئے تھے، اور کہنا چاہیے کہ ایک طرح سے وہ اسرائیل کی گود میں جاکر پڑگئے تھے، اس جنگ کی وجہ سے ایک بار پھر پوری دنیا کی توجہ اس طرف گئی اور سب نے محسوس کیا کہ فلسطین کا مسٔلہ ابھی حل نہیں ہوا ہے، مذمتی قراردار تک ہی محدود رہنے کے باوجود عرب لیگ اور اسلامی تعاون کونسل کی مٹنگوں کی وجہ سے بھی مختلف ممالک پر ایک دباؤ اور پریشر بنا، خود عرب ملکوں کے اپنے اپنے مفادات اور تحفظات تھے، ماضی میں ان ملکوں نے آپس ہی میں بائیکاٹ کی پالیسی اختیار کرکے قطر کو یک و تنہا چھوڑ دیا تھا، لیکن اس لڑائی نے سب کو ایک میز پر بیٹھانے میں نمایاں رول ادا کیا، گو بائ کاٹ کا خاتمہ پہلے ہی ہوچکا تھا، اس لڑائی کی وجہ سے امریکہ کا مکروہ چہرہ ایک بار پھر سامنے آیا جب اس نے مذمتی قرارداد کو یو ان او میں اسرائیل کی حمایت میں ویٹو کرکے پاس نہیں ہونے دیا، دنیا نے جان لیا کہ امریکہ میں حکومت کسی پارٹی کی  ہو، اس کی خارجہ پالیسی بدلا  نہیں کرتی ، اس معاملہ میں یو ان او میں ہندوستانی نمائندہ کی تقریر معتدل اور متوازن تھی، کہنا چاہیے کہ اسرائیل کی طرف مختلف معاملات میں ہندوستان کے بڑھتے قدم کا کم از کم اس تقریر میں کوئی اثر دیکھنے کو نہیں ملا۔
اس جنگ کی وجہ سے دنیا کو حماس کی طاقت کا بھی اندازہ ہوا ، پہلے چھ ملکوں کی فوج کو اسرائیل نے چھ دن میں پسپا کردیا تھا،اس بار گیارہ دن تک حماس نے تنہا مقابلہ کیا اور اسرائیل کو جنگ بندی پر مجبور کردیا، یہ بڑی کامیابی ہے، اس نے قرآنی حکم کے مطابق حسب استطاعت اپنے اندر قوت پیدا کرلی، اور اس حد تک پیدا کرلی کہ اللہ رسول کے دشمن پر خوف طاری ہوگیا اور اسرائیل جیسا دہشت گرد بھی حماس  کے حملوں سے مبہوت رہ گیا، اسے معلوم ہوگیا کہ فلسطین اب پہلے کی طرح تر نوالہ نہیں ہے جسے آسانی سے نگل لیا جائے۔ یہ وہ پہلو ہیں جن کی طرف لوگوں کی نگاہ کم جاتی ہے؛حالانکہ پریشان کن حالات میں بھی یہ خیر کے وہ پہلو ہیں جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے، اللہ ربّ العزت کا ارشاد ہے بعض چیزوں کو تم ناپسند کرتے ہو؛ حالانکہ اس میں تمہارے لئے خیر ہے۔
اس جنگ بندی کو سمجھ لینا کہ مستقل اور پائیدار ہے،بڑی غلطی ہوگی، اسرائیل کی توسیع پسندانہ پالیسی اسے چین سے نہیں بیٹھنے دیتی، اس لیے پھر وہ وعدہ خلافی کرے گا ہی، ہٹلر نے یہودیوں کا قتل عام یوں ہی نہیں کیا تھا، ہو لوکاسٹ کی کہانی جس قدر بھی فرضی ہو؛لیکن کچھ نہ کچھ اس میں صداقت تھی، ہٹلر نے کہا تھا کہ میں نے کچھ یہودیوں کو چھوڑ دیا ہے تاکہ دنیا ان کے کرتوتوں کو دیکھ کر سمجھ لے کہ ہم نے اسے کیوں قتل کرایا، آج  فلسطین کے ساتھ اس کے ظالمانہ رویہ کو  دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہٹلر کا یہ عمل ظالمانہ سہی؛لیکن اس کے وجوہات کجھ نہ کچھ معقول تھے،اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ہٹلر کے اس عمل کو سراہتے ہیں،ایسا ہرگز نہیں ہے، ظلم تو ظلم ہے کسی کے ساتھ ہو، اسی طرح ہم نسلی بنیادوں پر بھی تفریق کے قائل نہیں؛حالانکہ اسرائیل نے فلسطین پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے وہ بھی نسلی بنیادوں پر ہی بال وپرنکال رہا ہے، ہم ہندوستانی شروع سےہی نسلی امتیاز کے خلاف رہے ہیں، اسلام کی تعلیمات بھی یہی ہیں، اسی لیے ہندوستان جنوبی افریقہ کا بائیکاٹ کئے ہوۓ تھا، اس کے پاسپورٹ پر صراحتاً لکھا ہوتا تھا کہ آپ فلاں فلاں ملک جانہیں سکتے،جب وہاں سے یہ امتیاز ختم ہوا تب ہندوستان سے اس کے تعلقات استوار ہوئے۔
اسرائیل کی مخالفت کی ایک بنیاد یہ بھی ہے کہ یہ صرف اسلامی نہیں، انسانی مسٔلہ ہے،اس مسٔلہ کو حل کرنے کے لیے تمام مسلم اور عرب ممالک کو متحد ہوکر فلسطین کی آزادی کی جدو جہد جاری رکھنی ہوگی، عملی طور منظم موقف ہی اس کا واحد حل ہے، عالمی میڈیا بھی اسرائیل کے زیر اثر ہے اوراسرائیل اسے دودھ پلا پلا کر پروپیگنڈہ کے لئے استعمال کرتا رہا ہے، راۓ عامہ کی بیداری کے لیے میڈیا کو اس کے لیے تیار کرنا کہ وہ جانب دار نہیں ہے، حق کا طرف دار ہوکر کام کرے، یہ بھی ایک کام ہے، گو یہ بہت آسان نہیں ہے،ایک اور کام غزہ کی تعمیر نو کا ہے، جس کے لیے کثیر رقم کی ضرورت ہوگی، زخمیوں کا علاج اور صحیح دیکھ ریکھ بھی اس وقت کا بڑا کام ہے، بعض غیر اسلامی ملک نے تعاون کی پیشکش کی ہے، مسلم اور عرب ملکوں کو بھی اس سمت میں پیش قدمی کرنی چاہیے؛تاکہ غزہ میں جو کچھ تباہ ہوگیا ہے اس کی تعمیر نو کی جاسکے، دفاع کے لیے اسلحے بھی آج کی ضرورت ہیں ، اس سمت بھی توجہ دینی چاہیے؛تاکہ فلسطین پہلے سے طاقتور ہوکر دنیا کے سامنے آۓ، اور بتا دے کہ تم جتنا دباؤگے، اتنا ہی یہ ابھرے گا۔