Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, May 9, 2021

بہار کے ایک عظیم سائنس داں : ڈاکٹر مانس بہاری ورما-



از/محمد سرفراز عالم قاسمی/صدائے وقت 
==============================
دیش کے پہلے اعلی فضائی فوجی جنگجو طیارہ ”تیجس“ کے پروگرام ڈاٸریکٹر، ایروناٹیکل ڈپلومینٹ ایجنسی (ADA) کے سابق ڈائریکٹر، ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کے قریبی رفیق، متھلانچل کے میزاٸل مین، ”ساٸنٹسٹ آف دی اٸر“ اور ”ٹکنالوجی لیڈر شپ“ ایوارڈ یافتہ، پدم شری، ڈاکٹر مانس بہاری ورما بھی اب ہمارے بیچ نہیں رہے۔ وہ 4 مئی 2021 بروز منگل اپنے آباٸی وطن میں انتقال کرگئے اور بلا تفریق عقائد و مذہب ہر شخص انہی جملوں سے تسلی دیتا ہوا نظر آیا کہ :
”موت سے کس کو رستگاری ہے“۔
وہ ہمارے گاؤں سے چند کیلو میٹر کے فاصلے پر واقع ”باٶر“ نامی پڑوسی گاؤں کے رہنے والے تھے اور 2005 میں سبک دوش ہونے کے بعد سے اپنے گاؤں میں ہی اقامت پذیر تھے اور اپنے علاقے میں تعلیمی چراغ روشن کرنے کے لیے قابل تعریف کام کر رہے تھے، اپنے گاؤں کے قرب و جوار کے تقریبا تین سو اسکولوں کے سوا لاکھ سے زیادہ طلبا و طالبات کو گھوم گھوم کر ”موبائل سائنس لیب“ کے ذریعے دلچسپ سائنسی تجربات دکھا کر کمپیوٹر اور سائنس کی تعلیم سے جوڑ نے کی کوشش کر رہے تھے، ان کی اسی کاوشوں کی وجہ سے پسماندہ دیہاتی علاقوں کے اسکولوں میں طلبا کی تعداد دس فیصد سے بڑھ کر 80 سے 90 فیصد تک ہو گٸ تھی۔

اپنے علاقے میں خدمت کرنے کا قابل تقلید جذبہ:

ڈاکٹر ورما کا گاؤں کملا ندی کی مغربی باندھ سے بالکل متصل ہے اور سیلابی علاقہ ہے اور اس گاؤں سے متصل ہی ایک دوسرا گاؤں ”رسیاری“ ہے اور ان دونوں جگہوں سے متعدد بڑے سرکاری اعلی افسران بھی پیدا ہوئے ہیں۔
ان دونوں گاؤوں کے بیچ میں ”کنکی مسہری ٹولہ“ آباد ہے، جو نہایت ہی پسماندہ غریب اور دلتوں ایک اچھی خاصی آبادی پر مشتمل ہے ، اس آبادی کا ایک حصہ تو مذکورہ مغربی باندھ پر ہی خیمہ زن ہے، جب کہ ان سب کی طرزہاے زندگی اور بود و باش آدیباسی اور خانہ بدوشی سے کچھ ذیادہ مختلف نہیں ہے اور نہ ہی حکومت کو اس طبقے کی ترقی سے کبھی کوٸی خاطر خواہ دلچسپی رہی ہے۔

ایک مرتبہ ڈاکٹر ورما چھٹی میں اپنے گھر آئے ہوئے تھے اور اپنے قریبی گھریلو دوست ڈاکٹر لکشمن جھا سے بات چیت کر رہے تھے، اسی بات چیت میں ڈاکٹر جھا نے ڈاکٹر ورما سے کہا کہ باؤر سے اگر کوٸی پتھر پھینکا جائے تو جا کر رسیاری میں گرے گا، اور رسیاری سے پھینکا جائے تو باٶر میں آکر گرے گا، ان دونوں گاٶں کے بیچ میں اتنی کم دوری اور فاصلہ ہے اور ان دونوں گاٶوں سے کئی لوگ بڑے بڑے عہدے تک پہنچے ہیں، مگر یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ اس کے باوجود آج تک مسہری ٹولہ میں ایجوکيشن کی اے بی سی ڈی بھی لوگ نہیں جانتے ہیں، ڈاکٹر جھا کی یہ بات ڈاکٹر ورما کے دل کو چھو گئی، اور اسی دن انہوں نے دل ہی میں عزم کیا کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد مسہری ٹولہ میں تعلیم کے فروغ کی بھر پور کوشش کریں گے۔

ریٹائر ہونے کے بعد ان کے پاس پروفيسر کے عہدے کے لیے متعدد کالجز اور یونيورسٹيوں کے آفر تھے، مگر انہوں نے اپنے کئی دوستوں سے باتیں کیں، صلاح و مشورے لیے اور ان سب آفر کو چھوڑ کر صرف اپنے علاقے میں خدمت انجام دینے کو ترجیح دی اور کہیں بھی باہر نہیں گئے۔ گاٶں لوٹے کے بعد مسہری ٹولہ سمیت علاقے میں متعدد جگہوں پر بچوں کو تعلیم دینے کی غرض سے ”سندھیا پاٹھ شالا“ کھولا، بھارت وکست فاؤنڈیشن قاٸم کیا، اور پھر 2010 میں موبائل ساٸنس لیب پروجيکٹ کا آغاز کیا اور سیلاب زدہ، پسماندہ، اور دیہاتی علاقوں کے تین سو سے زیادہ اسکول کے بچوں کو کمپیوٹر اور ساٸنس سکھایا گیا اور کٸی نسل کو زیور علم و ہنر سے آراستہ کر گئے۔

ابتدائی احوال :

ڈاکٹر ورما 29 جولائی 1943 کو ضلع دربھنگہ کے گھنشیام پور بلاک کے ایک چھوٹےسےگاٶں”باٶر“ (Bour) میں پیدا ہوئے، ان کے والد کا نام آنند کشور لال داس اور والدہ کا نام یشودا دیوی تھا، ان کے تین بھائی اور چار بہنیں تھیں، ان کا رشتہ میتھلی زبان کے عظیم ادیب بیرج کشور ورما (منی پدما) سے تھا، اسی وجہ سے ان کا گھریلو ماحول علمی تھا، مزید برآں ان کے والد خود بھی مجاہد آزادی تھے، انہوں نے ابتدائی تعلیم سنگھم ضلع جھارکھنڈ سے اور پھر 1959 میں جواہر ہاٸی اسکول، مدھے پور، مدھوبنی سے بہار سنیٸر سکنڈری اسکول ایکزامنیشن بورڈ کے امتحان پاس کیے، ان کے ہائی اسکول کے اساتذہ میں ماسٹر ونکھنڈی جھا، ماسٹر لکشمی نارائن جھا، ماسٹر شمس الھدی صاحب وغيرہ خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں۔
اس کے بعد اعلی تعلیم 1959 سے 1961 تک پٹنہ ساٸنس کالج سے حاصل کی، بعدازاں بہار کالج آف انجینٸرنگ، پٹنہ (جو اس وقت نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی پٹنہ کے نام سےجانا جاتا ہے) بیچلر آف انجینیرینگ اور پھر بنگال انجینرینگ کالج، کلکتہ سے ماسٹر آف انجینیرینگ کی ڈگری حاصل کی،

قابل ذکر خدمات :

ایروناٹیکل ڈپلوپمینٹ ایجنسی کا قیام 1984 میں بنگلور میں عمل میں آیا، یہ ڈیفنس ریسرچ ڈپلوپمینٹ آرگنائزیشن (DRDO) کا ایک ذیلی مگر خود مختار شعبہ ہے جو حکومت ہند کی وزارت دفاع کے تحت کام کرتا ہے، اس کا مقصد اعلی جنگی فوجی طیارہ بنانا ہے۔
ڈاکٹر ورما نے ڈیفنس ریسرچ ڈپلوپمینٹ آرگنائزیشن (DRDO) کے اسی ایروناٹیکل اسٹریم (Aeronautical Stream) میں 35 سال بحیثیت سائنٹسٹ خدمات انجام دیں، اور ایروناٹیکل ڈیپارٹمینٹ کے مختلف برانچز بنگلور، نئی دہلی اور کوراسیٹ میں کام کرتے رہے، پھر ایک وقت آیا جب ایروناٹیکل ڈپلوپمینٹ ایجنسی (ADA) میں بننے والے دیش کی فضائی فوج کے لیے پہلے اعلی قسم کے ہلکے، جنگجو طیارہ لاٸٹ کومبٹ ایٸر کرافٹ (LCA) (جو تیجس کے نام سے مشہور ہے) کے ڈیزائن ٹیم کے پروگرام ڈائریکٹر بنائے گئے۔اور پھر 2005 میں ایروناٹیکل ڈپلومینٹ ایجینسی (ADA) کے ڈائریکٹر کے عہدہ پر رہتے ہوۓ ریٹائرڈ ہوئے۔
ان کی ساٸنسی خدمات کے اعتراف میں، سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے ”سائنٹسٹ آف دی ایئر“ ایوارڈ سے نوازا اور ڈاکٹر منموہن سنگھ کے ذریعہ ”ٹیکنالوجی لیڈرشپ“ ایوارڈ سے نوازا گیا، اور پھر ایک طویل عرصے کے بعد 2018 میں صدر جمہوریہ ہند نے انہیں ایروناٹیکل انجینئرنگ کی میدان میں بیش بہا خدمات کی وجہ سے ”پدم شری“ ایوارڈ سے بھی نوازا۔
انہوں نے پدم شری ایوارڈ وصول کرتے ہوئے کہا تھا کہ :
”مجھے ذرا سا بھی یقین نہیں ہے کہ اس سال مجھے یہ اعزاز دیا جارہا ہے، یہ اعزاز ٹیم ورک کی وجہ سے مجھے حاصل ہوا ہے اور میں اس کے لیے اپنے تمام ساتھیوں کا شکر گزار ہوں“۔

ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کی رفاقت:

سابق صدر جمہوریہ ہند، ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام، للت نراٸن متھلا یونیورسٹی کے سالانہ جلسہ تقسیم اسناد (کنووکیشن) میں شرکت کرنے کے لیے پہلی بار 2005 میں دربھنگہ تشریف لائے تھے۔ اس کے علاوہ ساتھ ہی انہیں متھلا یونیورسٹی کے ایک نئے ادارے، ویمن انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (WIT) کا بھی افتتاح بھی کرنا تھا، اسی وقت زیادہ تر لوگوں کو یہ پتہ چلا کہ دربھنگہ کے گھنشیام پور کے ڈاکٹر ورما، ڈاکٹر کلام کے بہت قریبی دوست ہیں، اور ڈاکٹر کلام صاحب کے ساتھ ڈیفنس ریسرچ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (DRDO) کے پروجیکٹ میں کافی عرصے تک کام کر چکے ہیں، کلام صاحب کا حسن اخلاق دیکھۓ کہ انہوں نے اپنے اس دوست کو یاد کیا، تو فورا ان کے ساتھ موجود وزیر اعلی نتیش کمار نے ان کو لانے کا انتظام کیا، اور ڈاکٹر ورما کو موٹرسائیکل سے لایا گیا، ان کو موٹرسائيکل سے لانے پر کلام صاحب بہت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ آپ نہیں جانتے یہ کتنے بڑے آدمی ہے؟ اور دیش کے لیے انہوں نے کیا خدمات انجام دی ہیں ؟ وزیراعلی احساس شرمندگی سے کچھ جواب دیتے کہ اس سے پہلے ہی ڈاکٹر ورما بول پڑے کہ سر ! ہمارے علاقے کا راستہ ہی ایسا ہے کہ باٸیک کے علاوہ کوئی دوسری سواری نہیں جا سکتی، کلام صاحب کے مزید استفسار پر انہوں نے فرمایا کہ ہمارے یہاں کملا ندی پر ایک پل کی ضرورت ہے، کلام صاحب نے کہا کہ بالکل اسے ہم اپنی فنڈ سے کروا دینگے، مگر وزیراعلی نے اپنی غیرت مندی کا ثبوت دیتے ہوئے خود کروانے کا وعدہ کیا اور معینہ وقت سے پہلے ہی تعمیر بھی کروادیا۔ جو اس علاقہ کے لوگوں کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں ہے۔
پھر کلام صاحب نے اپنے اگستا انٹرنیشنل فاٶنڈیشن کی طرف سے اسکولی بچوں میں ساٸنس کو فروغ دینے کی بھی ذمہ داری ڈاکٹر ورما کو سونپ دی۔ اور اس فاؤنڈیشن کی طرف سے انہیں کافی مدد بھی ملی۔
اس کے بعد 2012 میں کلام صاحب دوبارہ اگستا انٹرنيشنل فاؤنڈیشن کی طرف سے منعقدہ چار روزہ سائنس نمائش میلہ میں شامل ہونے کے لیے دربھنگہ تشریف لائے، یہاں انہوں نے قیام بھی کیا اور ایک شام میڈیکل کے طلبہ کے بیچ گزاری۔
ڈاکٹر ورما کی زندگی سابق صدر جمہوریہ ہند، ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام، ڈاکٹر کوٹا ہری نارائن، ڈاکٹر ڈی جی پائی، ڈاکٹر کے وی رائے، ڈاکٹر پی این اے پی ر آئے، مسٹر کٹی اور شری واتس سے متاثر تھی۔ وہ گاندھیاٸی افکار کے پیرو اور سچے محب وطن تھے۔