Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, May 26, 2021

*نئے طرز کی گداگری*



از/ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی/صدائے وقت
------------------+-----------------------------------+--------------
         آپ نے کسی مسجد یا درگاہ کے سامنے یا کسی پبلک مقام پر گداگروں (بھکاریوں) کو ہاتھ پھیلائے اور بھیک مانگتے ہوئے ضرور دیکھا ہوگا _ ان کے انداز الگ الگ ہوتے ہیں _ کچھ اپنی غربت کی فریاد کرتے ہیں ، کچھ بیماری کا تذکرہ کرکے مدد طلب کرتے ہیں ، کچھ آپریشن کے خطیر مصارف کی بھرپائی چاہتے ہیں ، کچھ بیٹی کے سیانی ہونے کا ذکر کرکے اس کی شادی کے لیے پیسہ مانگتے ہیں ، کچھ قدرتی آفات یا فرقہ وارانہ فسادات میں لُٹ پِٹ جانے کا رونا روتے ہیں ، کچھ بس خاموش کھڑے رہتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ گزرنے والے ان کے حال پر ترس کھاکر انہیں کچھ نہ کچھ ضرور دیتے جائیں گے _ ان بھکاریوں کی ہیئت ان کی غربت اور ضرورت کی چغلی کھاتی ہے _ اگر وہ غریب اور ضرورت مند نہ ہوں تو بھی ایسی ہیئت بنانا ان کی مجبوری ہوتی ہے کہ اس کے بغیر انہیں بھیک نہیں مل سکتی _
        آج کل سماج میں گداگروں (بھکاریوں) کی ایک نئی قسم وجود میں آگئی ہے _ یہ لوگ سُوٹِڈ بوٹِڈ ہوتے ہیں _ ان کے پاس پیسے کی کمی نہیں ہوتی اور یہ فاقہ میں مبتلا نہیں ہوتے ، لیکن ذہنی دیوالیہ پن کا شکار ہوتے ہیں _ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے فضل سے بہت کچھ دے رکھا ہوتا ہے ، لیکن یہ سماج کی ظالمانہ رسوم کے غلام بن کر اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے بھیک مانگتے ہیں _ ان کے بھیک مانگنے کے انداز بھی نرالے ہیں _ کچھ لوگ خاموش رہ کر آس لگائے رہتے ہیں _ کچھ اوپری دل سے کہتے ہیں کہ ہمیں کچھ نہیں چاہیے ، لیکن اندرونی طور پر بہت کچھ ملنے کی تمنا رکھتے ہیں ، کچھ پوری عیّاری سے اپنی طلب کا اظہار کرتے ہیں ، کچھ کو حیا و شرم کی ذرا بھی ہوا نہیں لگی ہوتی ہے ، وہ پہلے سے تیار لسٹ تھما دیتے ہیں کہ انھیں کون کون سے چیزیں کس کس کمپنی کی مطلوب ہیں _ یہ جہیز کے طلب گار لوگ ہیں _ ان میں اور اوّل الذکر بھکاریوں میں ذرا بھی فرق نہیں ہے _ وہ لوگ فقر و فاقہ کی وجہ سے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوتے ہیں اور یہ لوگ بغیر فقر و فاقہ کے ہاتھ پھیلاتے ہیں _ وہ لوگ چند سکّوں کے بھکاری ہیں اور یہ لوگ لاکھوں کے جہیز کے بھکاری ہیں _

         جہیز سماج کا ناسور ہے _ اگرچہ اس کا چلن غیر مسلم سماج میں زیادہ ہے ، لیکن تشویش ناک حد تک مسلم سماج بھی اس میں ملوّث ہوگیا ہے _  دوسروں کی تو مجبوری ہے کہ وہ نکاح کے موقع پر اپنی لڑکیوں کو ' دان' کرتے ہیں ، ان کے یہاں لڑکیوں کا وراثت میں حصہ نہیں ، اس لیے وہ ان کے نکاح ہی کے موقع پر کچھ دے دلاکر رخصت کرتے ہیں ، لیکن افسوس کہ اسے ان لوگوں نے بھی اختیار کرلیا ہے جن کے دین نے لڑکیوں کا رشتہ ان کے ماں باپ اور نسبی رشتے داروں سے تاحیات باقی رکھا ہے ، ان کا وراثت میں حصہ متعین کیا ہے اور نکاح کو آسان بنانے کا تاکیدی حکم دیا ہے _

          اسلام میں نکاح کو انتہائی آسان بنایا گیا ہے اور زنا کو انتہائی مشکل ، اس لیے کہ زنا کی انتہائی درد ناک اور عبرت ناک سزا متعین کی گئی ہے _  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے میں بہت آسانی سے نکاح ہوجانے کی بہت سی مثالیں پیش کیں _ اسلام میں جہیز کا کوئی تصور نہیں ہے _ مال دار صحابہ ہوں یا غریب ، کسی نے اپنی یا اپنے بیٹوں کی شادی میں جہیز لیا نہ اپنی بیٹیوں کی شادی میں جہیز دیا _ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چہیتی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح اپنے چچا زاد بھائی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کیا تو گھر گرہستی کا ضروری سامان خود انہی کے پیسوں سے منگوایا _

       مسلم سماج نے جہیز کی رسم کو قبول کرکے نکاح کو دشوار بنادیا ہے _ جیسے عہدِ جاہلیت میں لڑکی کی پیدائش کو عار سمجھا جاتا تھا اسی طرح آج کل بھی اسے بوجھ سمجھا جانے لگا ہے _ لڑکی پیدا ہوتے ہی باپ کو اس کے لیے جہیز اکٹھا کرنے کی فکر ستانے لگتی ہے اور وہ اپنا اور اپنی فیملی کا پیٹ کاٹ کاٹ کر پیسہ پیسہ جٹانے میں لگ جاتا ہے _

        جہیز کے لین دین کے خلاف ماحول بنانے اور بیداری لانے کی ضرورت ہے _ اس کے لیے مختلف تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں :
1_ علماء اور دینی شخصیات عوامی اجتماعات میں آسان نکاح کی ترغیب دیں اور جہیز کے سراسر غیر اسلامی ہونے کا تذکرہ کریں _
2_ وہ مُسرفانہ رسوم اور جہیز کے لین دین کے ساتھ ہونے والی شادیوں کا بائیکاٹ کریں _
3_ وہ سادہ اور آسان نکاح کے عملی نمونے پیش کریں _ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کے نکاح کے موقع پر جہیز کے لین دین سے اجتناب کریں _ 
4_ مسلمانوں کو تقسیمِ وراثت پر آمادہ کیا جائے اور لڑکیوں کو ان کا حصہ دلوایا جائے _ 
5_  اجتماعی اداروں اور این جی اوز (NGOs) کے ذریعے جہیز کے ناپسندیدہ اور نامطلوب ہونے کا پرچار کیا جائے _
6_ سادہ اور آسان نکاح کے جو نمونے سامنے آئیں ان کی خوب تشہیر کی جائے اور اس کا اقدام کرنے والوں کی تحسین کی جائے _
7_ نوجوانوں کی ایسی دینی اور اخلاقی تربیت کی جائے کہ بغیر جہیز کے شادی کرنے پر بہ خوشی آمادہ ہوں _  
8_ ایسا ماحول فروغ دیا جائے کہ بغیر جہیز کے آنے والی لڑکی کو سسرال میں عزّت و احترام کا مقام ملے ، شوہر اور اہلِ سسرال کے ذریعے اس کی تمام ضروریات پوری کی جائیں ، اس کی آسائش کا خیال رکھا جائے اور جہیز نہ ملنے پر اسے طعنے نہ دیے جائیں _

        جہیز کے لین دین کے خلاف مہم چلانا موجودہ وقت کا اہم تقاضا ہے _ قابلِ مبارک ہیں وہ لوگ جو اس مہم کا حصہ بنیں اور قابلِ مبارک ہیں وہ نوجوان جو اس مہم کو تقویت بخشیں _