Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, June 5, 2021

اردو ‏کے ‏نامور ‏اور ‏وقادر ‏الکلام ‏ شاعر ‏ سیماب ‏ اکبر ‏ آبادی ‏کا ‏141 ‏واں ‏یوم ‏ولادت ‏


عمر دراز مانگ کے لاۓ  تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں. 
                 صدائے وقت 
==============================
اصلی نام :سید عاشق حسین
تخلص    :  سیماب 

پیدائش : 05 جون  1880ء |   آگرہ,   ہندوستان 
وفات    :31 جنوری 1951ءl  کراچی ، پاکستان 
نام سید عاشق حسین صدیقی، سیماب تخلص۔ 5 جون 1880 میں آگرہ میں پیدا ہوئے۔ کتب متداولۂ عربی وفارسی کی تکمیل کے بعد انگریزی اسکول میں داخل ہوئے۔ 
سیماب نے فارسی اور عربی کی تعلیم جمال‌ الدین سرحدی اور رشید احمد گنگوہی سے حاصل کی۔ اسکول گورنمنٹ کالج اجمیر سے الحاق شدہ برانچ اسکول سے میٹرک کیا۔ 1897 میں 17 سال کی عمر میں والد کا انتقال ہو گیا جس کی وجہ سے ایف اے کے آخری سال میں تعلیم ادھوری چھوڑ دی زمانہ طالب علمی میں ان کا یہ دستور تھا کہ فارسی نصاب میں جتنے اشعار شریک درس ہوتے تھے ان کا ترجمہ اردو نظم میں کرکے اساتذہ کے سامنے رکھ دیتے تھے
1898 میں ملازمت کے سلسلے میں کان پور گئے اور وہیں فصیح الملک داغ دہلوی کی شاگردی اختیار کی جو علامہ اقبال کے بھی استاد تھے۔ 1900 میں سکینہ بیگم سے شادی ہوئی۔ دیوہ شریف میں حاجی حافظ سید وارث علی شاہ کے دست مبارک پر بیعت کی۔ 1921 میں ریلوے کی ملازمت چھوڑ کر آگرہ میں مستقل سکونت اختیار کرلی اور قصرِ ادب کے نام سے ادبی ادارہ قائم کیا۔ ملازمت کے دوران ماہنامہ مرصع ، ماہنامہ پردہ نشین اور آگرہ اخبار کی ادارت کے فرائض انجام دیتے رہےانیس سو چوالیس کے شروع میں قرآن مجید کا منظوم ترجمہ کرنے کا بیڑا اٹھایا اور دس ماہ میں منظوم ترجمہ مکمل کر کے علما کی خدمت میں پیش کر دیا۔ ستاروں کا ترجمہ ایک ہی بحر میں منظوم کیا گیا حاشیہ پر ضروری تشریح دی گئی علما کے تعریفی کلمات کتاب کے آخر میں شامل کیے گئے قرآن مجید کا یہ منظوم اردو ترجمہ "وحی منظوم" کے نام سے مشہور ہوا۔ 1981 کو اسلام آباد میں پندرہویں صدی ہجری کے سلسلہِ تقسیم انعامات میں قرآن پاک کے چار مختلف زبانوں کی کتابوں کو انعام سے نوازا گیا۔ وحی منظوم کتاب سرفہرست تھی تقسیم ہند کے بعد سیماب کراچی آگئے اور یہیں 31 جنوری 1951 کو انتقال کرگئے۔سیماب کو قائد اعظم سے بڑی عقیدت تھی اور ان کی ایک کتاب قائد کی خوشبو اس بات کا ثبوت بھی ہے  بلآخر سیماب بھی اپنے محبوب کے پہلو میں نہ سہی تو  کم از کم اس کے کوچے میں ضرور مدفون ہیں ’’کلیم عجم‘‘، ’’سدرۃ المنتہیٰ‘‘، ’’لوح محفوظ‘‘، ’’ورائے سدرہ‘‘، ’’کار امروز‘‘، ’’ساز وآہنگ‘‘، ’’الہام منظوم‘‘(مثنوی مولانا روم کا منظوم ترجمہ) ’’وحئ منظوم‘‘(قرآن مجید کا منظوم ترجمہ) ’’عالم آشوب‘‘ (رباعیات)، ’’تغیر غم‘‘(سلام ومراثی)، ’’شعر انقلاب‘(انقلابی نظمیں) ان کی تصانیف ہیں
 علامہ سیماب اکبر آبادی کے 141 ویں  یوم ولادت پر انہیں کے کچھ منتخب اشعار بطور خراج عقیدت پیش ہیں  
.......................................................... 
عمر دراز مانگ کے لائے  تھے چار دن 
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں 

دل کی بساط کیا تھی نگاہ جمال میں 
اک آئینہ تھا ٹوٹ گیا دیکھ بھال میں 

غم مجھے حسرت مجھے وحشت مجھے سودا مجھے 
ایک دل دے کر خدا نے دے دیا کیا کیا مجھے 

روز کہتا ہوں کہ اب ان کو نہ دیکھوں گا کبھی 
روز اس کوچے میں اک کام نکل آتا ہے 

تجھے دانستہ محفل میں جو دیکھا ہو تو مجرم ہوں 
نظر آخر نظر ہے بے ارادہ اٹھ گئی ہوگی 

صحرا سے بار بار وطن کون جائے گا 
کیوں اے جنوں یہیں نہ اٹھا لاؤں گھر کو میں

ہائے سیماب اس کی مجبوری 
جس نے کی ہو شباب میں توبہ 

وہ دنیا تھی جہاں تم بند کرتے تھے زباں میری 
یہ محشر ہے یہاں سننی پڑے گی داستاں میری

تیرے جلووں نے مجھے گھیر لیا ہے اے دوست 
اب تو تنہائی کے لمحے بھی حسیں لگتے ہیں

منزل ملی مراد ملی مدعا ملا 
سب کچھ مجھے ملا جو ترا نقش پا ملا 

دیکھتے ہی دیکھتے دنیا سے میں اٹھ جاؤں گا 
دیکھتی کی دیکھتی رہ جائے گی دنیا مجھے,

اب وہاں دامن کشی کی فکر دامن گیر ہے 
یہ مرے خواب محبت کی نئی تعبیر ہے 

بت کریں آرزو خدائی کی 
شان تیری ہے کبریائی کی 

پریشاں ہونے والوں کو سکوں کچھ مل بھی جاتا ہے 
پریشاں کرنے والوں کی پریشانی نہیں جاتی 

تجھے دانستہ محفل میں جو دیکھا ہو تو مجرم ہوں 
نظر آخر نظر ہے بے ارادہ اٹھ گئی ہوگی 

تیرے جلووں نے مجھے گھیر لیا ہے اے دوست 
اب تو تنہائی کے لمحے بھی حسیں لگتے ہیں 

چمک جگنو کی برق بے اماں معلوم ہوتی ہے
قفس میں رہ کے قدر آشیاں معلوم ہوتی ہے

خدا اور ناخدا مل کر ڈبو دیں یہ تو ممکن ہے 
میری وجہ تباہی صرف طوفاں ہو نہیں سکتا 

خلوص دل سے سجدہ ہو تو اس سجدے کا کیا کہنا
وہیں کعبہ سرک آیا جبیں ہم نے جہاں رکھ دی

دیکھتے رہتے ہیں چھپ چھپ کے مرقع تیرا 
کبھی آتی ہے ہوا بھی تو چھپا لیتے ہیں

رنگ بھرتے ہیں وفا کا جو تصور میں ترے 
تجھ سے اچھی تری تصویر بنا لیتے ہیں 

سیمابؔ دل حوادثِ دنیا سے بجھ گیا
اب آرزو بھی ترکِ تمنا سے کم نہیں

منزل ملی مراد ملی مدعا ملا 
سب کچھ مجھے ملا جو ترا نقش پا ملا 

نشاطِ حسن ہو جوشِ وفا ہو یا غمِ عشق 
ہمارے دل میں جو آئے وہ آرزو ہو جائے

وہ دنیا تھی جہاں تم بند کرتے تھے زباں میری 
یہ محشر ہے یہاں سننی پڑے گی داستاں میری

کہانی میری رودادِ جہاں معلوم ہوتی ہے
جو سنتا ہے اسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے

اللہ رے شامِ غم مری بے اختیاریاں
اک دل ہے پاس وہ بھی نہیں اختیار میں

  سیمابؔ اکبر آبادی