Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, June 20, 2021

گاؤں کی باتیں. .. .. کچے گھر والوں کو بار ش کی ہر بوند ڈراتی تھے. ‏. ‏



 از/حمزہ فضل اصلاحی/صدائے وقت. 
=============================
ایک وقت ایسا بھی تھاجب گاؤں سے شہر آنے والے سب سے زیادہ اپنے کچے مکانوں کو یا د کر تے تھے ۔ اس کے کئی اسباب ہیں جن میں سے سب سے اہم یہ ہے کہ کچے مکان سال کے اکثر حصے میں سکون دیتے ہیں ۔ سردی اور گرمی سے بچاتے ہیں، سردی میںگرم اور گرمی میںٹھنڈے رہتے ہیں ۔کچی دیواریں موسم کا اثر قبول نہیں کرتی ہیں۔ صرف بر سات میں ان سے دشواری ہوتی ہے۔کچے مکان مٹی ، لکڑی اور گھاس پھوس سے بنائے جاتے ہیں ۔ سوکھے تالاب کی مٹی سے دیواریں کھڑی کی جاتی ہیں، یہ مٹی تالاب یا ندی سوکھنے کے بعد مئی کے مہینے میں نکالی جاتی ہے۔
آج کےپکے مکانوں کی طرح کچے گھروں کی بھی بہت سی قسمیں تھیں ۔ خوشحال طبقہ اپنا گھر بنوانے کیلئےماہر کاریگروں کی مدد لیتا تھا۔ وہ سلیقے سے دیوار بناتے تھے ، اس زمانے کے اعتبار سے پلاسٹر ہوتا تھا ، ان پر نقش و نگار بنتے تھے ۔ انتہائی نفاست سے ان میں طاق بنائے جا تے تھے ۔ اس طرح کےگھر وں کے لکڑی کے دروازے بھاری بھرکم ہوتے تھے ، ان میں پیتل کی کنڈی لگی ہوتی تھی ۔ بتاتے ہیں کہ اس زمانے میں کچھ گھر وں میں ایسے دروازے بھی لگائے گئے تھے جنہیں ںتیار کر نے میں  مہینوں لگ گئے ۔ایسے گھروں کے  دروازے کے سامنے اچھی خاصی جگہ چھوڑی جاتی تھی جہاں نیم، پاکڑیا کوئی بھی سایہ داردرخت ہوتا تھا جس کےنیچے دن بھر چارپائی بچھی رہتی تھی ۔گاؤں میں ا س طرح کے۵۔۴؍گھر ہی ہوتے تھے ۔زیادہ تر کچے گھر سادہ ہوتے تھے ۔ یہ تالاب یا ندی کی چکنی مٹی ہی سے بنتے تھے ، انہیں گھر والے کسی کاریگر کی مدد سے تیار کرتے تھے ۔ گرمی ، سردی میں اس طرح کے گھرو ں میں رہنے والے بے فکر رہتے تھے لیکن بر سات کی کچھ راتوں میں ان کی روح کانپ جاتی تھی ، یہ وہ راتیں ہوتی تھیں ، جب تباہ کن بار ش ہوتی تھی ۔   پہلی بار ش ہی میں کچے مکانوں کی دیواریں نم ہوجاتی تھیں ، اُن کی سوندھی سوندھی خوشبو اطراف میں پھیل جاتی تھی۔ یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب کچے مکانوں کی بستی ہی کو گاؤں سمجھا جاتا تھا ۔ گاؤں میں کھپریل ہی کے مکان تھے ۔ جا بجا گھاس پھوس کی منڈئی ہوتی تھیں، ان میں محفلیں سجتی تھیں ، مویشی باندھے جاتے تھے۔ اس زمانہ میں بر سات سے پہلےگاؤں والوں کو سخت محنت کرنی پڑتی تھی ۔ مکان کی کچی دیواروں کو بارش سے بچانے کی پیشگی تیاری کی جاتی تھی ۔ عام طور سے مئی ہی کے مہینے میںکھپریل کی مرمت کی جاتی تھی یا اسے نئے سرے سے بنایا جاتا تھا ۔اب بھی بچے کھچے کچے مکان کی کھپریل کی چھت اسی طریقے سے بنائی جاتی ہے ۔ پوروا نچل کے دیہاتوں میںچھت کی مرمت کو’ پھروٹی‘ جبکہ نئےسر ے سے چھت بنانے کے عمل کو’ کھول بندی ‘ کہتے ہیں۔ پھر وٹی میں نیا کھپر ا لایا جاتا ہے،مٹی بھگوئی جاتی ہے ، گھاس پھوس لائی جاتی ہے ۔ یہ سب ہونے کے بعدچار سے پانچ افراد ایک کاریگر کی مدد سے پھروٹی مکمل کرتے ہیں۔ اب گاؤں میںعام طور پر یہ کام مزدوروں کے ’سپورٹ‘ سے ہوتا ہے ۔ پہلے پھر وٹی ایک ہی گھریا خاندان کے لوگ خود کرتے تھے ۔ محلے پڑوس کے لوگ بھی اس میں ہاتھ بٹاتے تھے۔ہر کسی کو اس کی مہارت کے حساب سے ذمہ داری دی جاتی ہے۔ کچھ کھپریل کی چھت پر تو کچھ اس کے نیچے ہوتے ہیں ۔ کوئی مٹی تیار کرتا ہے ۔کوئی نیچے سے کھڑے ہو کر اوپر کھڑے شخص کو کھپرا تھماتا ہے۔ کاریگر چھت کےکمزور حصوں کو تلاش کرتا ہے ، پھر وہاں سے ٹوٹا پھوٹا کھپر ا ،خراب گھاس پھوس اور سوکھی مٹی ہٹا تا ہےاور اس جگہ ضرورت کے مطابق نئی مٹی اور نیا کھپرا رکھا جاتا ہے ۔ اس طرح چھوٹی بڑی چھت کےاعتبارسے گھنٹوں مشقت کے بعد پھروٹی کا عمل مکمل ہوتا ہے۔ کھول بندی میں کھپریل کی چھت اجاڑ دی جاتی ہے۔اس کے ملبے سے اچھی اشیا ء الگ کر لی جاتی ہیں، خراب پھینک دی جاتی ہیں۔ پھریہ دیکھا جاتا ہے کہ اس میں کس کس چیز کمی ہے ؟ کمی پوری ہونے کے بعد نئی اور پرانی چیزیں ملا کر نئے سرے سے کھپریل کی چھت تیا رکی جاتی ہے۔ اس میں بھی کاریگر کی مد د لی جاتی ہے۔پہلےکھول بندی اور پھروٹی کے بعد لوگ مطمئن ہوجاتے تھے کہ اب بر سات سے زیادہ دشواری نہیں ہوگی 
۔ اس کے باوجود ہر برسات میں کچھ مکان گرتے تھے جن میںجانی اور مالی نقصان ہوتاتھا ۔ جب بارش کی بوندیں مسلسل گرتیں تو کوئی نہ کوئی کمز ور کچا گھر ضرور منہدم ہوتا تھا ۔ بتاتے ہیں کہ اس زمانے میںکسی سر کا ری ٹیم کو اطلاع نہیں دی جاتی تھی ۔بار ش کےد وران  آدھی رات کو بھی کسی کا گھر گرتے ہی گاؤں والے وہاں پہنچ جاتے تھے ۔ اپنے محدود وسائل کے ساتھ ساتھ جی جان سے لگ جاتے تھے ، انسانوں کے ساتھ ساتھ مویشیوں کو بھی بچانے کی کوشش کرتے تھے۔کبھی کبھی پوری پوری رات ملبہ ہٹانے میں گز ر جاتی تھی لیکن ہمت نہیں ہارتے تھے ، ان کا حوصلہ جواب نہیں دیتا تھا ، وہ اُس زمانے کے ’سر چ اور ریسکیو آپریشن ‘ کو ختم کرکے ہی دم لیتے تھے۔کچےمکان کے ملبے میں دبنے سے جنازہ اٹھتا تھا۔ کسی نہ کسی کے گھر کا چراغ بجھتا تھا۔ یہ ہرسال کے بر سات کا قصہ تھا۔کمزور کچے گھروالوں کیلئے بارش کی ہر بوند میں ایک اندیشہ تھا ، خوف تھا ، جس رات بارش ہوتی تھی ، ان کی نیند حرام ہوجاتی تھی، ان کے گھر کا ہر فرد رات بھر جاگتا تھا ۔ ایسالگتا تھا کہ گھر کی کمزور دیوار کسی بھی وقت منہد م ہو جائے گی ، اسی لئےگاؤں کاہر شخص یہی چاہتاتھاکہ بار ش آئے،کھیتوں کو سیراب کرے مگر کچے گھروں کو نقصان نہ پہنچائے۔