Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, June 29, 2021

جونپور: 'سب رنگ' کے مصنف سے خصوصی گفتگو۔۔۔

ریاست اتر پردیش کے ضلع جونپور میں ادبی حلقوں سے تعلق رکھنے والے ماسٹر طفیل انصاری کی جدید تصنیف 'سب رنگ' منتخب مضامین کے منظر عام پر آنے کے بعد ان کی کتاب اور ادب کے تعلق سے ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے خصوصی بات چیت کی ہے۔

جونپور۔۔اتر پردیش /صدائے وقت/اجود قاسمی کی رپورٽ۔

++++++++++++++++++++++++++++++++++

طفیل انصاری کی اب تک کل پانچ کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں سب سے پہلے شاعر 'حفیظ جونپوری' کے تعلق سے 'حفیظ جونپوری حیات اور شاعری' سنہ 2006 میں شائع ہوئی جسے ادبی حلقوں میں کافی سراہا گیا اور جسے معروف نقاد مرحوم شمس الرحمٰن فاروقی نے بھی کافی پسند کیا اور ساتھ ہی 'کلیات حفیظ جونپوری' کو تصنیف کرنے کی جانب رغبت دلائی.


ای ٹی وی بھارت سے گفتگو کرتے ہوئے طفیل انصاری نے بتایا کہ 'سب رنگ' میں مضامین کا انتخاب ہے جو گزشتہ 40 سالوں کے دوران لکھے گئے تھے اور ملک کے مختلف رسائل میں شائع ہوئے تھے انہیں میں سے کچھ مضامین کو منتخب کر کے کتابی شکل دے دیا گیا ہے اس کتاب میں کل 33 مضامین شامل ہیں جس میں سے بیشتر مضامین جونپور سے متعلق ہیں یہ کتاب جونپور کے لئے ایک ادبی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کورونا وبا کی وجہ سے ادبی پروگرام نہ ہونا یہ اردو کے لئے بدقسمتی ہے ایسے ماحول میں مشاعرہ وغیرہ نہیں ہو سکے لیکن آن لائن مشاعرے ہوتے رہے ہیں ویسے مشاعروں سے اردو زبان کی بنیادی ترقی تو نہیں ہوتی ہے لیکن اردو زبان کے تئیں دلچسپی میں اضافہ ہوتا ہے.

طفیل انصاری نے شہر جونپور کے تعلق سے کہا کہ جونپور شیراز ہند تھا ہمیشہ سے یہاں ادبی ماحول قائم تھا یہاں بڑے بڑے مصنف گزرے ہیں 18ویں صدی میں سب سے نمایاں نام شاعر 'حفیظ جونپوری' کا تھا نسل نو میں ادبی ذوق نہ ہونا باعثِ تشویش ہے.

انہوں نے شاعر 'حفیظ جونپوری' کے تعلق سے کہا کہ اردو زبان کے بہترین شاعر تھے غزل گو شعراء میں ان کا ایک نمایاں مقام ہے حسرت موہانی نے بھی ان کو سراہا ہے بڑے ادیبوں نے ان کو لکھا ہے ان کی شاعری میں ہر رنگ موجود ہے.

ڈاکٹر عبدالسلام ندوی نے لکھا ہے کہ 'حفیظ جونپوری' کی شاعری عجیب و غریب پھولوں کا گلدستہ ہے.

آپ کو بتا دیں کہ ماسٹر طفیل انصاری کا شمار جونپور کے اچھے ادیب و تاریخ داں میں ہوتا ہے انہوں نے معروف شاعر 'حفیظ جونپوری' کو کافی پڑھا ہے جس کا نتیجہ یہ رہا کہ 'حفیظ جونپوری' کے تعلق سے ان کی دو کتاب شائع ہوکر منظر عام پر آچکی ہے جس نے 'حفیظ جونپوری' کو ادبی حلقوں میں دوبارہ ایک نئی زندگی بخشی ہے ورنہ 'حفیظ جونپوری' کو صرف ان کے دو شعر سے ہی جانا و پہچانا جاتا رہا ہے۔

''بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے،
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے''

بشکریہ۔ای ٽی وی بھارت۔