Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, June 28, 2021

بدگمانی اور افواہ طرازی مذموم عمل اور ناپسندیدہ حرکت ہے۔۔



   تحریر  ۔۔ ۔ ۔۔۔ محمد قمرالزماں ندوی
  مدرسہ  نور الاسلام کنڈہ  پرتاپگڑھ
                      صدائے وقت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
      دوست و احباب  (اداروں اور جماعتوں کے افراد و اشخاص کے مابین) اور اہل تعلق میں نفرت کی آبیاری کرنا، ان کے درمیان دوری پیدا کرنا، ایک بھائی کی طرف سے دوسرے بھائی کے دل میں نفرت و کدورت اور میل پیدا کرنا اور ان میں بدظنی قائم کرنے کی کوشش کرنا،  میاں بیوی کے دل میں رنجش کے بیج بونا، مالک اور آقا کے تعلقات خراب کرنا ، حاکم اور محکوم کے درمیان کشاکش اور کشکمش کے بیج بونا ایک ادارہ اور جماعت کے افراد میں بدمزگی اور تلخی پیدا کرکے اپنا الو سیدھا کرنا اور قوم و ملت کو بیوقوف بنانا ،یہ وہ بدترین حرکت اور ناقابل معافی جرم  ہے، جسکا کرنے والا اسلامی معاشرہ میں بد سے بدتر شخص مانا جاتا ہے اور انسانوں کے درمیان نفرت و دشمنی کا بیج بو کر شیطانی کام کا مرتکب ہوتا ہے ،اسلامی سوسائٹی اور اسلامی نظام معاشرت میں ایسوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے، ایسا شخص مذموم اور ناپسندیدہ ہے کیونکہ اس سے  سماج میں انتشار و افتراق پیدا ہوتا ہے اور جماعت و اجتماعیت کا شیرازہ بکھرتا اور منتشر ہوتا ہے  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
           *آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم* کا ارشاد گرامی ہے :-
*جو شخص کسی کی عورت یا کسی کے نوکر کو بہکاوے اور دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں ہے* (ابو داؤد)
                اس وعید میں وہ عورتیں بھی شامل ہیں جو دوسرے کے گھروں میں جاکر میٹھی میٹھی باتیں کرتی ہیں ،اور ان کے ان کے گھروں کی عورتوں سے اپنے مطلب اور مقصد کی باتیں سن کر اس کا چرچا اور پروپیگنڈہ کرتی ہیں اور شوہر اور دوسرے لوگوں کی نظر میں اس طرح عورت کو ذلیل و خوار اور رسوا و بے حیثیت کرنے کی کوشش کرتی ہیں ۔ 
              اسی طرح جو مرد بیٹھکوں،  مجلسوں اور محفلوں میں جاکر محلہ بھر کے لوگوں کی گھریلو باتیں کرتے ہیں اور ہر طرح کی باتیں کرتے ہیں وہ مسلمانوں کے بدترین دشمن ہیں اور آپس میں لڑائی کراکر اور دشمنی پیدا کرکے تماشہ دیکھنے والے ہیں ۔ 
           اکثر جگہوں پر اور خاص طور پر ملی، سماجی تنظیموں اور تعلیمی اداروں میں ایسے لوگ اور ایسی حرکت کرنے والے بہت ہوتے ہیں ان کا باقاعدہ جھتا اور ٹولہ ہوتا ہے اور یہ لوگ باضابطہ کچھ لوگوں کو اس مہم کے لئے خاص کرتے ہیں اور اپنی دشمنی نکالنے کے لئے بے گناہ ملازم ،عملہ اور اساتذہ کی شکایتیں کرتے کراتے ہیں ۔ 
             دوسری طرف کچھ ناعاقبت اندیش لوگوں کا آج یہ مشغلہ ہی ہے کہ کسی ادارہ یا جماعت کے افراد میں لگائی بجھائی کی مذموم کوشش کی جائے اور انتشار و خلفشار کا ماحول پیدا کیا جائے اور امت کو بے چین و مضطرب اور بے سکون رکھا جائے ایسے لوگ ہمیشہ ایسی خبروں کے انتظار میں رہتے ہیں کہ اس تنظیم ادارہ  اور جماعت کے اختلاف سے متعلق خبریں عام ہوں اور نمک مرچ لگا کر اس پر تبصرہ کیا جائے  ۔
          سورئہ حجرات کی آیت نمبر چھ  *یا ایھا اللذین آمنوا ان جاءکم فاسق بنبأ  فتبینوا ان تصیبوا قوما بجھالة فتصبحوا علی ما فعلتم نادمین* ( ایے ایمان والو ! اگر کوئی فاسق و فاجر تمہارے پاس کوئی خبر لےکر آئے تو تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کئے پر پشیماں ہو) میں مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے اور یہ ہدایت دی گئی ہے کہ کبھی ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ادھر تم سے کسی نے بات کی اور ادھر تم نے اسے سچ مان لیا ۔ بالخصوص ایسے مسائل اور معاملات میں تو ہمیں بہت احتیاط کرنی چاہیے، جن کا تعلق قومی اور اجتماعی نقصان سے ہو ۔ ان معاملات میں بسا اوقات ذرا سی بے احتیاطی بے حد سنگین اور خطرناک غلطیوں کا باعث بن جاتی ہے ۔ اس لئے ہمیں چاہیے کہ جب بھی ایسی خبریں ہم سنیں اسے مان لینے اور اس پر یقین کرنے سے پہلے اچھی طرح اس کے بارے میں تحقیق اور چھان بین کر لیا کریں ۔ 
              مفسرین نے اگر چہ اس آیت کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ آیت ولید بن عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ لیکن اس آیت سے عام مسلمانوں کو یہ اصولی ہدایت دی گی کہ جب بھی کوئی اہمیت رکھنے والی خبر جس پر کوئی بڑا نتیجہ مترتب ہوتا ہو تمہیں ملے، تو اس کو قبول کرنے سے پہلے یہ دیکھ لو کہ خبر لانے والا آدمی کیسا ہے ۔ اگر وہ کوئی فاسق شخص ہو یعنی جس کا ظاہر حال یہ بتا رہا ہو کہ اس کی بات اس لائق نہیں ہے تو اس کی دی ہوئی خبر پر عمل کرنے سے پہلے تحقیق کر لیا کرو کہ امر واقعہ کیا ہے ۔         
      *قرآن مجید* نے بدگمانی پھیلانے ہی کی طرح افواہ پھیلانے کو شیطانی عمل قرار دیا ہے اور معاشرے میں سرگوشی اور کانا پھوسی کرنے والوں کی سخت مذمت کی ہے ۔ سرگوشی کے علاوہ افواہ جھوٹ بھی ہوتی ہے اور *نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم* کا ارشاد ہے کہ مسلمان اور سب کچھ ہوسکتا ہے مگر جھوٹا نہیں ہوسکتا ۔ یہی نہیں کہ افواہ پھیلانے والا ہی جھوٹا ہوتا ہے بلکہ بلا تحقیق و تصدیق جو آدمی اسے صحیح مان کر آگے پھیلانا شروع کر دیتا ہے، اسلام کے نزدیک وہ بھی جھوٹا ہے ۔ *آپ صلی اللہ علیہ وسلم* کا ارشاد ہے کہ آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی بات کافی ہے کہ وہ جو بات سنے اسے بغیر تحقیق اور تصدیق کے دوسروں تک بیان کرنا شروع کردی ۔
        *قرآن مجید* مسلمانوں کو تعلیم دیتا ہے کہ وہ یونہی کسی بات کے پیچھے نہ ہو لیا کریں ،فرمایا : 
*ولا تقف مالیس لكم به علم ان السمع و البصر و الفئواد کل ذلک* الخ  اور جس بات کا تجھے علم نہیں اس کے پیچھے نہ ہو لیا کرو ،کیونکہ کان ،آنکھ اور دل ان سب  سے قیامت کے دن پوچھ ہوگی ۔ 
          آج کل جدید وسائل ابلاغ پرنٹ میڈیا ،الکٹرانک میڈیا  واٹسیپ فیس بک ٹویٹر ٹیلی گرام وغیرہ جھوٹ پھیلانے کا سب سے بڑا ذریعہ بنا ہوا ہے ۔ یہ جدید وسائل ابلاغ اس طرح جھوٹ پھیلا رہے ہیں، کہ شرم و حیا بھی شرمانے لگتے ہیں ۔ اس میں شریک اور ملوث افراد ایسا لگتا ہے شرم و حیا اور انسانی و اخلاقی ضابطوں سے دور ہیں ۔ اللہ کی ذات کا ڈر و خوف نہیں رکھتے وہ تو صرف اس کو اچھا سمجھتے ہیں جو اس کے نفس کو اچھا لگے ۔    
          اس لئے ہماری ذمہ داری اور فرض منصبی ہے کہ ہم ایسے لوگوں سے خبر دار رہیں اور معاشرے میں ایسا شعور اور احساس بیدار کریں کہ وہ ایسے عناصر کا وجود ہی برداشت کرنے سے انکار کردے ۔ 
                   غلط اور جھوٹی افواہیں معاشرہ کو تباہ اور انسانی زندگی کو بگاڑ دیتی ہیں،  ان کی عزتوں کو پامال کرتی ہیں سماج کو تتر بتر کر دیتی ہیں ۔ جب کہ انسانی معاشرے سے خاص طور سے اسلامی معاشرے سے اتحاد و اتفاق بھائی چارہ، راست بازی اور ہدایت جیسے اعمال مطلوب ہوتے ہیں ۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہر اس بات کی تحقیق کی جائے جس سے ان کو واسطہ ہے، تو اس پر عمل کیا جائے اس کو پھیلایا جائے اور اگر وہ غلط اور گمراہ ہو تو اس سے خود بھی اجتناب کرے اور پوری مسلم برادری کو اس سے محفوظ رکھا جائے ۔ اس لئے کہ مسلمانوں کے جتنے دشوار کن مسائل ہیں ان کا حل صرف عقل سلیم اور فکر صحیح ہی کرسکتی ہے اور اصحاب رائے علماء و مشائخ اہل علم و دانش ہی کرسکتے ہیں ۔ کہ اللہ تعالی نے ان کو ایسی پختہ عقل سنجیدہ فکر سے نوازا ہے ۔ 
    غرض ہم پر ضروری ہے کہ ہم بے بنیاد باتوں کے پھیلانے کا سبب نہ بنیں ۔ ہم امت میں وہی باتیں عام کریں، جن کی حقیقت سے ہم آشنا ہیں، یا جن کو ہم جانتے ہیں، نیز بری باتوں اور جھوٹی باتوں اور افواہوں کے پھیلانے سے بچیں تاکہ سماج اور  معاشرہ و سوسائٹی اور زیادہ  متحد و منظم اور مضبوط ہوسکے اور لوگ باہم میل و محبت والی اور خوشگوار زندگی گزار سکیں  ۔