Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, June 24, 2021

عمرگوتم اور جہانگیر_قاسمی کی گرفتاری*ملت اسلامیہ ہندیہ کے لیے فیصلہ کن موڑ، یا مزاحمت یا غلامی؟ ‏

از/سمیع اللہ خان /صدائے وقت، 
==============================
 سب سے پہلے تو آپ عظیم عمر گوتم کے لیے ماتمی انداز اختیار کرنا چھوڑ دیجیے، عمر گوتم انبیائی مشن کا عظیم سپاہی ہے، اس کےساتھ جو کچھ ہورہاہے وہ بہت کم نصیبوں کے مقدر میں آتاہے، یہ اسلام کی دعوت لیکر چلنے والوں کے لیے انبیائی تحفہ ہے، وہ نہتے اور بے سروسامان پراگندہ حال دعاۃ اسلام جن سے مسلح لشکر خوفزدہ ہوجاتےہیں اور وہ انہی میں اپنی شانِ ایمانی کے نظارے کراتے ہیں ۔
 عمر گوتم کی بات آگے بڑھانے سے پہلے ذرا ۲ منٹ کے لیے ڈاکٹر ظفر الاسلام خان صاحب کو یاد کرلیجیے، ڈاکٹر خان کو یاد کرنے اسلیے کہہ رہا ہوں کہ آج سے تقریباﹰ سال بھر پہلے ان کے خلاف بھی ویسا ہی سرکاری ٹرائل چلا تھا جیسا کہ آج عمر گوتم اور جہانگیر قاسمی کےخلاف ٹرائل جاری ہے 
 ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کو گرفتار کرنے کے ليے دہلی پولیس کی اسپیشل سیل ان کے گھر بھی پہنچ گئی تھی، دنیا کے سب سے غلیظ اور حرامی ٹائپ مسلم۔دشمن بھارتی میڈیا نے ان کےخلاف دن رات پرائم ٹائم شو کرکے زہر اُگلا، انہیں دہشتگرد ثابت کرنے کے ليے زہر میں خون بھی ملایا 
یہ سب چلتا رہا اور مسلم۔لیڈرشپ دیکھتی رہی
پھر اس کےبعد ظفر صاحب کے دفتر پر ملکی ایجنسیوں نے چھاپہ مارا 
 یہ دونوں وقت ایسے تھے جبکہ ملکی سطح کی تمام مسلم مذہبی ملی و سیاسی شخصیات کو میدان میں آکر مورچہ سنبھالنا چاہیے تھا، کیونکہ ظفرالاسلام صاحب ہندوستان کے مسلمانوں کی مقتدر شخصیات میں سے ایک ہیں 
 اور جو بھی کميونِٹی اپنی ملی سطح کی قدآور شخصیات پر بھی ظالموں کے حملے برداشت کرنے لگ جاتی ہے وہ کمیونٹی ظالموں کو حوصلہ دیتی ہے اور اپنی رسوائي کی دعوتِ عام کرتی ہے 
میں نے تبھی مسلم لیڈرشپ سے درخواست کی تھی کہ اپنے آپسی اختلافات کنارے کرکے عملی سطح پر ایک طاقتور پیغام موجودہ فاشسٹ حکومت کو بھیجا جائے جس سے آئندہ کے لیے برہمنی استعمار چوکنا ہوجائے، لیکن افسوس کہ، ظفرالاسلام صاحب سے لیکر پاپولر فرنٹ آف انڈیا PFi کی لیڈرشپ پر بھی حکومت نے حملے بولے ان سب کےباوجود بحیثیتِ مجموعی مسلم لیڈرشپ نے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا اور اپنی بےحیثیتی کا مزید ثبوت دیا ۔

لیکن آج جبکہ یوگی آدتیہ ناتھ کا متعفن منو وادی سامراج داعیانِ اسلام پر حملے کررہاہے تب، ڈاکٹر ظفرالاسلام خان بیباکی سے ظلم کےخلاف آواز اٹھا رہےہیں، اس سے شاید موجودہ مسلم ذمہ داران کو کچھ سیکھنے کا موقع ملے، شاید اب تو وہ اپنی باری کا انتظار کرنا چھوڑ دیں۔
 عمر گوتم اور مفتی جہانگیر کو جسطرح گرفتار کرکے ان کے خلاف میڈیا  ٹرائل چلایا جارہاہے اور انہیں ملک سے غداری کا مجرم بتایا جارہاہے وہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے، بلکہ یہ برہمن ہندوتوا کے آئندہ فسطائی اقدامات کا کھلا ہوا اعلانیہ ہے 
 یہ معاملہ اسلیے بھی ترجیحی توجہ کا طالب ہیکہ اس کےذریعے اسلام کے بنیادی فریضے عملِ دعوت کو مجروح اور مسدود کرنے کی کوشش ہے، اگر آپ دعوتِ اسلامی کے واقعی علمبردار ہیں تو اسوقت آپ کو اپنے داعی ساتھیوں کے لیے ان کی حفاظت اور حریت کے لیے مزاحمت کے میدان میں آنا چاہیے۔
 عمر گوتم نے کوئی جرم نہیں کیا ہے، بلکہ جو فردِ جرم عمر گوتم کےخلاف داخل کی گئی ہے وہ ازخود ہندو۔سماج کے لیے جگ ہنسائی کا سبب ہے، یوگی کا الزام ہیکہ عمر گوتم نے ڈرا دھمکا اور لالچ دےکر ۱ ہزار ہندؤوں کو مسلمان بنا لیا، اس الزام میں ادنیٰ سی معقولیت بھی نہیں ہے کیونکہ لو۔جہاد اور گھر واپسی جیسی مہمات مسلمانوں کےخلاف آر ایس ایس نے شروع کی تاکہ مسلمانوں کو جبراً ہندو بنایا جائے البتہ عمر گوتم اور مسلم دعاۃ کا کام دینی حقائق کی اشاعت کا ہے, اور ان کےذریعے جو بھی بخوشی اسلام لائے ہیں وہ بھی آئینِ ہند کی دفعه ۲۵ کےتحت خودمختار ہی ہیں ! 
 جو لوگ دعوتِ اسلامی کے کاز کی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوں ان پر جب ظالم حملہ آور ہوجائے تو تمام مسلمانوں کو بیک آواز ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہونا چاہیے جو ملت اپنے دعاۃ کے ساتھ نہیں ہوگی جو ملت اپنے جانبازوں کے ساتھ بھی نہیں ہوگی ظاہر ہے وہ بھی ظالموں کی طرف شمار کی جائے گی اور نحوست اسے گھیر لے گی 
 عمر گوتم جیسے عظیم داعی کی گرفتاری سے یہ بھی واضح ہے کہ جہاں ایمان کی دعوت ہوگی وہاں شیطانی گھس پیٹھ بھی ہوگی اور داعیوں کو شیطانی گھس پیٹھ سے محفوظ رکھنے کی ذمہ داری مزاحمت اور جدوجہد کرنے والے جانبازوں کی ہوگی، دعوت اور مزاحمت امت کے دو مرکزی پہیے ہیں ان میں سے کسی ایک کا بھی تعطل پوری امت کو برخاست کردےگا، اگر آج ہندوتوا کے ظالمانہ ٹرائل کےخلاف فیصلہ نہیں لیاگیا تو یقینًا ہم غلامی کی طرف ہی قدم بڑھائیں گے۔

 *امت کے ذمہ داروں کو سوچنا ہوگا کہ کیا آج بھی وہ محض خانہ پری والے اقدامات کے ذریعے اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوسکتےہیں؟ ماب۔لنچنگ، این آر سی، بابری مسجد، پھر این آر سی کے خلاف تحریک چھیڑنے والے مسلم جہدکاروں کی گرفتاریوں کا سلسلہ، تبلیغی جماعت پر حملہ، اور مسلسل مسلم۔دشمن  میڈیا ٹرائل ان سب کا سدباب کیا صرف مذمتی بیانات سے ممکن ہے؟ یہاں مجھے اُن لوگوں کی تلاش ہے جو گزشتہ ساٹھ سالہ کانگریس انڈیا میں بات بات پر رام۔لیلا اور آزاد میدان بھرتے تھے لیکن جب صریح ائمۃ الکفر منو وادی برہمن ہندوتوا کا عہد آیا اور سڑکوں پر ظلم ناچنے لگا ہے تب یہ میدان سُوکھ رہےہیں ۔*
 یاد رکھیں کہ، آج اگر آپ عمر گوتم اور جہانگیر قاسمی کےساتھ کھڑے نہیں ہورہےہیں تو آپ اپنا ہی نقصان کررہےہیں کیونکہ عمر گوتم کےساتھ ہونے کا مطلب ہے انبیائی مشن کےساتھ ہونا، اور انبیائی مشن کےساتھ کون نہيں ہوتاہے؟ آپ قرآن اٹھا کر دیکھ لیں ۔ 
 *یہ آنے والی حقیقت ہے…  وہ وقت دور نہیں جب، ہزاروں عمر گوتم اسلام کا جھنڈا لیے وقت کے بولہبوں اور بوجہلوں سے نبردآزما ہوں گے آج وقت کے فراعنہ ایسے ہی عمر گوتم کی ولادت سے خوفزدہ ہیں ان کی پیدائش پر پہرے لگائے جارہےہیں لیکن انہیں یہ خبر نہیں کہ سنت اللہ تبدیل نہیں ہوتی، ایودھیا کی عمارتوں سے بھی عمر گوتم نکل سکتاہے، عمر گوتم نکلتے رہیں گے، ظالم تَکتے اور موروثی مسلمان ٹھٹھکتے رہیں گے_*
ہزار برق گرے لاکھ آندھیاں اٹھیں 
وہ پھول کھل کے رہیں گے جو کھلنے والے ہیں 
" لا غالب الا الله "
بت شکن عمر گوتم سے محبت کرنے والا ایک مسلمان: 
سمیع اللّٰہ خان
24 جون ۲۰۲۱ 
ksamikhann@gmail.com