Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, June 23, 2021

*ہم نے ممبئی جامع مسجد کی زیارت کی ‏

.



   از ـ محمود احمد خاں دریابادی / صدائے وقت. 
==============================                
     یوں تو ممبئی جامع مسجد پتہ نہیں کتنی بار جانا ہوا، جمعہ سمیت دیگر نمازیں بھی بارہا پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی، وہاں منعقد ہونے والے تبلیغی اجتماعات اور دیگر دینی مجالس میں شرکت کا بھی موقع ملتا رہا ـ مگر  " زیارت " جس کو کہا جاتا ہے اس کا شرف 17 جون 2021 کو حاصل ہوا ہے ـ 

   تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ اخبارات اور دیگر ذرایع سے یہ معلوم ہوا کہ اس تاریخی مسجد کا حوض ان دنوں صفائی کے لئے خالی کرالیا گیا ہے ـ یہ تو سب نے سنا ہوگا کہ ممبئی کی اس تاریخی مسجد کی تعمیر ایک بہت بڑے تالاب بلکہ جھیل کے اندر پتھر کے کھمبے کھڑے کرکے کی گئی ہے اور اسی تالاب کا ایک کنارہ کھلا چھوڑ دیا گیا ہے جہاں نمازی وضو کرتے ہیں ـ ............. تفصیلی زیارت سے پہلے ذرا مسجد کی تاریخی حیثیت کو سمجھ لینا فائدہ مند ہوگا ـ
    جیسا کہ بتایا جاچکا کہ یہ مسجد تالاب پر قائم ہے،  کہتے ہیں کہ اٹھارویں صدی میں جب اس علاقے میں مسجد کی تعمیر کے لئے مناسب جگہ کی تلاش شروع ہوئی تو اس وقت کے اہل خیر کو  یہ جگہ بہت مناسب معلوم ہوئی، خیال ہوا کہ تالاب کو بھرنے کے بعد ایک ایکڑ سے زاید جگہ جو ملے گی اس پر مسجد تعمیر کی جائے، اس تالاب کے مالک مومن صاحب تھے، بہت بڑے تاجر تھے، کوکن سے تعلق تھا، انھوں نے مسجد کی تعمیر کا لحاظ کرتے ہوئے اصل قیمت سے بہت کم مبلغ بارہ ہزار روپیہ پر کوکن ہی کے ایک اور تاجر حمزہ پٹیل کو وہ تالاب سپرد کردیا، بارہ ہزار روپیہ بھی اس زمانے میں انتہائی خطیر رقم ہوا کرتی تھی، آج کی قیمتوں کے حساب سے اگر اس وقت کے بارہ ہزار کا تناسب نکالا جائے تو تقریبا اسی لاکھ روپے کی رقم بنتی ہے ـ ............  اس وقت ممبئی میں دو ہی قوموں کی آبادی تھے، غیر مسلموں میں کولی جو سمندر سے مچھلیاں پکڑتے اور فروخت کرتے ہیں اور مسلمانوں میں کوکنی جو جہازوں کے مالک تھے اور سمندر کے راستے تجارت کیا کرتے تھے ـ
   
  اس وقت کوکنی مسلمانوں کی تنظیم جماعت المسلمین تھی جو قوم کے درمیان ملی ورفاہی کام انجام دیاکرتی تھی، حمزہ صاحب نے جماعت المسلمین کے ذریعے مسجد کی تعمیر کا آغاز کیا، کوکن ہی کے دو تاجر برادران نتھو پٹیل اور بھیکن پٹیل نے اس میں بھر پور معاونت کی، 
     بہر حال 1774ء میں اللہ کا نام لیکر تالاب میں پتھروں کے کھمبے کھڑے کئے گئے 1775ء میں باقاعدہ مسجد کی عمارت کی تعمیر شروع کی گئی، آس پاس چونکہ برادران وطن کا علاقہ ہے، اور خالص تجارتی علاقہ ہے، .........  یوں سمجھئے کہ اگر ممبئی ہندوستان کی معاشی راجدھانی ہے تو اس راجدھانی کی راجدھانی وہ علاقہ ہے جہاں جامع مسجد قائم ہے، انتہائی قیمتی زمین ہے  ـ اس لئے مسجد کی تعمیر پر اعتراض ہوا جس کی وجہ سے چند سال تعمیر تعطل کا شکار رہی، مگر 1778ء میں دوبارہ کام شروع کردیا گیا، اگرچہ انگریز گورنر کی عدالت میں مقدمہ چلتا رہا ـ اس دوران تالاب کے اوپر کی منزل ایک ایکڑ کے قریب کی جگہ پرمسجد بنادی گئی ـ 
   1811ء میں انگریز گورنر نے مسجد کے حق میں فیصلہ دیا، اس بیچ کوکن جماعت المسلمین کی ذمہ داریاں کوکن کے ایک مشہور تاجر مرحوم محمد علی روگھے کے ہاتھ آگئیں، جن کے اپنے جہاز سمندر میں چلتے تھے، انتہائی فیاض شخصیت تھی، خیر کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے، جنوبی ممبئی کے ایک مہنگے علاقے میں اپنی ایک وسیع زمین قبرستان کے لئے وقف کردی تھی، آج بھی قبرستان قائم ہے ممبئی کا سب سے بڑا قبرستان ہے اور بڑا قبرستان کہلاتا ہے ـ 
   محمد علی روگھے نے ممبئی جامع مسجد میں پہلی توسیع کی، پہلے تعمیر شدہ عمارت کی تزئین وآرائش کا کام بھی ہوا،  چنانچہ مسجد کے اوپر کی منزل تعمیر ہوئی، تقریبا ایک ایکڑ ہر مشتمل  اوپر کا پورا ہال کچھ اس طرح بنایا گیا ہے کہ درمیان کے حصے میں ایک بھی ستون نہیں ہے، چھت میں پھول پتوں کی خوبصورت مینا کاری کی گئی ہے،  جس میں خالص سونے کا بھی استعمال کیا گیا ہے، نچلی منزل کی چھت پر بھی خوبصورت بیل بوٹے بنائے گئے، ان میں بھی خالص سونا استعمال ہوا ہے ـ تزئین میں استعمال کئے گئے سونے کی قیمت آج کے دور میں کڑوڑوں میں ہوگی ـ محمد علی روگھےنے اپنی بہت سی جائدادیں، بلڈنگیں بھی جامع مسجد کو وقف کردی تھیں، جن سے آج بھی جامع مسجد کے تمام اخراجات پورے ہوتے ہیں، غریبوں، ضرورت مندوں کی امداد بھی کی جاتی ہے، رفاہی کام بھی کیا جاتا ہے ـ ............... کرونا کے موجودہ دور میں ممبئی جامع مسجد کی طرف سے بڑے پیمانے پر دواؤں اور آکسیجن کی تقسیم کا کام کیا گیا، مسجد ٹرسٹ کے موجودہ چئرمین شعیب خطیب کے مطابق سوا کڑوڑ سے زیادہ کی رقم اس کار خیر میں صرف ہوئی ہے ـ ممبئی کی مشہور شاہراہ محمد علی روڈ ان ہی محمدعلی روگھے کے نام منسوب ہے ـ 
    اب ہم پھر مسجد کا رخ کرتے ہیں ـ مسجد کے دو داخلی دروازے ہیں، جہاں سنگ مرمر کی سیڑھیاں ہیں، جن پر خوبصورت نقاشی کی گئی ہے، اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ کھردرا ہونے کی وجہ سے چلنے والوں کے پیر پھسلنے کا خطرہ نہیں رہتا، مشرق کی طرف جو دروازہ ہے اس کے بائیں طرف حوض کا کھلا حصہ ہے جہاں وضو کیا جاتا ہے، بائیں طرف اندورنی حصہ میں جانے کی راہ داری ہے، اس میں بھی سنگ مرمر کا نقاشی کیا ہوا فرش ہے، بائیں طرف محراب دار ستون ہیں جہاں سے حوض کا نظارہ بھی ہوتا ہے، یہیں دو ستونوں کے درمیان کی جگہ پر بیٹھنے کے لئے تین سنگ مرمر کی بنچیں بنائی گئی ہیں، جو انتہائی دیدہ زیب ہیں ـ منبر بھی سنگ مرمر کا ہے، اس میں بھی عمدہ نقاشی ہے، اونچا ہے، آٹھ سیڑھیاں ہیں، آخری سیڑھی سے خطبہ دیا جاتا ہے ـ قبلہ رخ محراب مکمل سنگ مرمر کی ہے، اس میں جو مینا کاری ہے وہ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے ـ مسجد کے اندرونی حصے میں اٹھارہ صفیں ہیں ہر صف میں تقریبا سو  ادمی نماز پڑھتے ہیں، برآمدہ ہے جس میں چار صفیں ہیں ہر صف میں تقریبا سو نمازیوں کی گنجائش ہے، اوپر کی منزل بھی برآمدے سمیت اتنی ہی بڑی ہے، حوض کے اوپر کچھ حصے میں عمارت بنی ہوئی ہے، مشرق کی طرف ایک چھوٹا صحن ہے، دائیں طرف خالی جگہ ہے جس کے اوپر ٹین کا شیڈ ڈال دیا گیا ہے، وہاں عورتیں نماز پڑھتی ہیں ـ صحن سمیت پوری مسجد میں بیک وقت آٹھ ہزار نمازی آتے ہیں ـ
   جامع مسجد ٹرسٹ کے تحت اور بھی کئی مسجدیں ہیں، ایک ہائی اسکول ہے ، یہ اسکول  پہلے مدرسہ محمدیہ کے نام سے مدرسہ تھا، جہاں دورہ حدیث تک تعلیم ہوتی تھی، ہمیں بتایا گیا کہ بڑے مدارس کی طرف طلبا کا رجحان بڑھا اور یہاں طلبا کی تعداد کم ہوتی گئی اس لئے1960ء سے یہاں محمدیہ ہائی اسکول قائم ہے، بڑا قبرستان بھی ٹرسٹ کے زیر انتظام ہے، کئی ایکڑ پر مشتمل ہے، یہاں ٹرسٹ نے درمیان میں چلنے پھرنےلئے پختہ راستے بنائے ہیں، قبروں پر نمبر دئےگئے ہیں، روشنی پانی کا معقول نظم ہے ـ لاوارث لاشوں کی تجہیز وتکفین بھی ٹرسٹ کی جانب سے کی جاتی ہے ـ............ جامع مسجد ہی کے ایک حصہ میں یہاں کا مشہور اور تاریخی کتب خانہ ہے جہاں تقریبا پندرہ ہزار سے زائد قدیم اور نایاب کتابیں وقیمتی مخطوطات کا ذخیرہ ہے ـ یہاں کے مفتی جو کتب خانہ کے انچارج بھی ہیں  مفتی اشفاق قاضی نے بڑی مشقت سے قدیم اور بوسیدہ کتابوں کو ڈیجیٹل کرواکر اس بیش قیمت خزانے سے آئندہ نسلوں کے استفادے کو آسان بنادیا ہے ـ بوسیدہ کتابوں کی جلد بندی کی گئی ہے ـ کانچ کے شوکیشز کے اندر قدیم نایاب کتب اور مخطوطات کی نمائش کی گئی ہے، میز کرسی لگا کر ریڈنگ روم (دارالمطالعہ ) کا بھی نظم ہے ـ .........  چونکہ جامع مسجد کے بانیان مسلکا شافعی تھے، کوکن میں مسلم باشندگان کی اکثریت شافعی ہے، ممبئی میں بھی بڑی تعداد میں کوکن، کیرالا اور جنوبی ہند کے مسلمانوں کی بڑی تعداد مقیم ہےجو شافعی فقہ کے مطابق عمل کرتے ہیں ، ممبئی میں شافعی مسلمانوں کی کئی دیگر مساجد بھی ہیں،  ان سب کی آسانی کے لئے شافعی فقہ کے مطابق دارالافتاء بھی مفتی اشفاق کی سربراہی میں یہاں  کام کررہا ہے، دیگر کئی مفتیان بھی ان کے معاونت کرتے ہیں ـ ......... رویت ہلال کمیٹی بھی یہاں برسوں سے قائم ہے جس میں شہر کے مقتدر علماء اور مفتیان شامل ہیں، ہر اسلامی مہینے کی ۲۹ تاریخ کو پاپندی سے میٹنگ ہوتی ہے، ممبئی ومہاراشٹر کے مختلف علاقوں میں یہیں کے فیصلے کے مطابق اسلامی ماہ کا آغاز ہوتا ہے ـ خاکسار بھی اس کمیٹی کا ایک رکن ہے ـ 
    
   تو صاحبان بات شروع ہوئی تھی حوض سے، مسجد کا جھیل نما حوض صفائی کے لئے خالی کرالیا گیا، پتہ چلا کہ تیس سال کے بعد حوض مکمل خالی ہوا ہے، ظاہر ہے ایک تو جھیل کے برابر حوض، اوپر سے اس کے اندر جگہ جگہ پانی کے چشمے بھی پھوٹتے ہیں جن سے ہمیشہ بڑی مقدار میں پانی ابلتا رہتا ہے، ایسے میں باربار مکمل حوض خالی کروانا آسان نہیں ہے، بڑی بڑی مشینوں کا انتظام، اتنے پانی کی نکاسی، باربار جمع ہونے والے پانی کو نکالنے کا نظم بہت دشوار ہوتا ہے ـ 
   جب تیس سال بعد حوض خالی ہونے کی اطلاع ملی تو ذہن میں آیا کہ موقع اچھا ہے، آئندہ تیس سال بعد جب خالی ہوگا تو شاید ہم اس جہان فانی سے رخت سفر باندھ چکے ہوں گے، اس لئے ہم نے اپنے چند ساتھیوں فرید شیخ، سلیم موٹروالا اور عمیر شیخ وغیرہ کے ساتھ جامع مسجد پہونچنے کا پروگرام طے کرلیا ـ وقت مقررہ پر جامع مسجد پہونچے، جامع مسجد ٹرسٹ کے صدر شیعب خطیب صاحب نے والہانہ استقبال کیا، اور بذات خود ساتھ چل کر جامع مسجد کی تفصیلی زیارت کروائی ـ پہلے اوپر کی منزل پھر نیچے اور آخر میں حوض ـ 
   حوض کے گردوپیش سیاہ پہاڑی پتھر کی سیڑھیاں ہیں، ایسا معلوم ہوتا ہے یہ مسجد کی تعمیر سے پہلے تالاب کے گھاٹ کے طور پر استعمال ہوتی ہوں گی، عموما تالاب وغیرہ میں اس طرح کے گھاٹ ہوتے ہیں، جن پر لوگ غسل کرتے ہیں، کپڑے وغیرہ بھی دھوتے ہیں ـ آج بھی لوگ اِنھیں سیڑھیوں پر بیٹھ کر وضو کرتے ہیں، کل آٹھ سیڑھیاں ہیں، عموما نیچے کی چار سیڑھیاں پانی میں ڈوبی رہتی ہیں، بارش وغیرہ میں پانی اوپر کی آخری سیڑھی تک آجاتا ہے، کچھ لوگ ایک دو سیڑھیاں نیچے اُتر کر گھٹنوں تک پانی میں وضوکرتے ہیں ـ .......... چونکہ حوض خالی تھا اس لئے ہم لوگ آٹھوں سیڑھیاں اتر گئے، تالاب کی تہہ میں بھی پتھر کی زمین ہے، جو بتدریج گہری ہوتی چلی گئی ہے، اچھی بات یہ ہے کہ تہہ کی زمین اوبڑ کھابڑ ہونے کے بجائے ہموار ہے، ایسا لگتا ہے کہ باقاعدہ زمین کو ہموار بنایا گیا ہے ـ ........ جیسا کہ بتایا گیا کہ حوض کے اندر قدرتی چشمے ہیں جن سے بڑی مقدار میں پانی ابلتا رہتا ہے، جس کی وجہ سے باربار پانی نکالنے کی ضرورت پڑتی ہے، تعجب کی بات یہ ہے کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ چشموں سےمستقل پانی کے اخراج کے باوجود حوض میں جتنی گنجائش ہے اس سے زیادہ پانی جمع ہوکر بہنے لگا ہو، ہمیشہ ایک مخصوص حد پر آکر پانی رک جاتا ہے ـ یہاں تک کہ ممبئی میں اکثر شدید بارشیں ہوتی ہیں، حوض کا ایک حصہ کھلا ہوا ہے براہ راست بارش کا پانی حوض میں آتا ہے اس کے باوجود حوض کا پانی اوپر کی  آخری سیڑھی سے اونچے نہیں آتا، ایک دو دفعہ ایسا ہوا ہے کہ بہت زور دار بارش ہوئی اور پانی سیڑھیوں کےاوپر جو باونڈری بنی ہے وہاں تک پہونچ گیا، بارش کم ہونے کے بعد خود بخود کم ہوکر اپنی حد تک پہونچ گیا، اللہ کی عجیب قدرت ہے ـ ......... 
   جس دن ہم پہونچے اس دن آخری مرتبہ پانی خالی کئے چند روز ہوچکے تھے، حوض میں پانی بھرنے لگا تھا، بتایا گیا کہ کنارے کنارے بتدریج گھٹنوں تک اور درمیان میں ابھی رانوں تک پانی آچکا ہے ـ دراصل مسجد کی پوری عمارت  محکمہ آثار قدیمہ کے تحت رجسٹرڈ ہے، حوض خالی ہونے بعد محکمہ کے آفیسران آئے تھے، انھوں نے حوض کے اندر ستونوں کی بنیاد کا معائنہ کیا، دیواریں بھی دیکھیں اور مکمل رپورٹ تیار کرکے محکمہ کے اعلی ذمہ داروں کو بھیجی ہے، ایک دو روز میں وہاں سے عمارت کے استحکام کا سرٹیفکٹ آجائے گا تب ایک بار پھر آخری مرتبہ پانی خالی کرکے صاف پانی بھرنے کے لئے چھوڑ دیا جائے گا ـ  
  ہم لوگ کنارے سے حوض میں اترے، دائیں طرف نیچے کی آخری سیڑھی پر ایک چشمہ نظر ایا، اس چشمہ کے آس پاس پتھر ہی کا ایک چوکھٹا بنادیا گیا ہے، اس چشمے کا پانی چوکھٹے کے اندر تک ہی محدود رہتا ہے، اگر اس پانی کو خالی کرلیا جائے تب بھی وہ تیزی سے بڑھ کر چوکھٹے کے اوپری کنارے تک آکر رک جاتاہے، ہم لوگوں نے کئی مرتبہ اس کو خالی کرکے مشاہدہ کیا، عام دنوں میں یہ آخری سیڑھی ہمیشہ پانی میں ڈوبی رہتی ہے، اس بار پانی نہ ہونے کی وجہ سے یہ عجیب نظارہ ممکن ہوسکا ـ .......... ہم لوگ دائیں کنارے کی طرف سے حوض میں داخل ہوئے، آگے ہی پانی دکھائی دیا، جو بتدریج گہرا ہوتا چلا گیا، ہم لوگ پائنچے چڑھاکر داخل ہوتے مگر آگے چل کر جب گھٹنوں تک پانی ہوگیا تو پائنچے بھیگ ہی گئے ـ .......... ہم نے دیکھا کہ پتھروں کو جوڑ کر کنارے کی دیواریں بنائی گئی تھیں، درمیان کے ستون بھی پتھروں سے بنے تھے، پتھر جوڑنے کے لئے پتہ نہیں کیا چیز استعمال ہوئی ہے، جو دیکھنے میں سمنٹ جیسی تو نہیں لگتی، تعمیر کے ماہرین شاید حقیقت بتا سکیں ـ خاص بات یہ کہ ڈھائی سو برس مسلسل پانی میں رہنے کے باوجود عمارت روز اول کی طرح مضبوط اور مستحکم ہے،  دیواروں کا رنگ تک نہیں  بدلا ہے ـ یقینا یہ مسجد کے بانیان کے اخلاص کا نتیجہ ہوگا ـ 
   ہم نے دیکھا کہ مسجد کی دیواروں سے، ستونوں کے درمیان سے جگہ چگہ چشمے جاری ہیں، بتایا گیا کہ پانی میں 54 ستون ہیں جن کے اوپر مسجد تعمیر ہوئی ہے،  تقریبا ہر ستون سے ایک دو بعض سے تو کئی کئی چشمے نکل رہے ہیں، اسی طرح چاروں طرف کی دیواروں سے بھی چشمے بہہ رہے ہیں، تالاب کی تہہ میں بھی جابجا ایسے چشمے ہیں ـ ........... ہم جہاں کھڑے تھے اس کے قریبی دیوار پر زمین سے تقریبا چار فٹ اونچائی سے ایک چشمہ بہہ رہا ہے اور اس کے پانی میں اتنا زور تھا کہ تقریبا تین فٹ دور جاکر پانی گررہا تھا ، اسی دیوار پر دو فٹ کے فاصلہ پر ایک اور چشمہ ہے مگر اس کے پانی میں زور نہیں ہے دور گرنے کے بجائے دیوار سے لگ کر ہی اس کا پانی نیچے آتا ہے،...............  پہلے حوض کے اندرونی حصے میں مستقل اندھیرا رہتا تھا، باہر سے کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا، اب موجودہ انتظامیہ نے حوض کی چھت کی طرف قمقمے لگاکر روشنی کا نظم کردیا ہے، اب کنارے سے بھی اندر کی آخری دیوار تک دیکھنا ممکن ہوسکے گا ـ قمقموں کی روشنی میں ہم نے دیکھا کہ جگہ جگہ قدرتی چشمے دیواروں اور ستونوں سے پھوٹ رہے ہیں، کیا بتائیں کسقدر عجیب اور دلفریب نظارہ تھا ـ 
    ہم نے سوچا کہ قدرتی چشمے کا یہ شفاف پانی دوبارہ میسر ہو یا نہ ہو اس سے کچھ فیض اُٹھانا چاہیئے، چنانچہ وضو کرنے کے ارادہ ہوا، پانی ہاتھ میں لیتے ہی اندازہ ہوا پانی بہت صاف ہے، نہ بہت زیادہ گرم ہے نہ ٹھنڈا، .......... مسجد کی زیارت کے دوران بار بار عمارت کی سیڑھیاں چڑھنا اُترنا پڑی تھیں، ایک گھنٹہ سے زائد مسلسل کھڑا رہنا اور چلنا ہھرنا بھی پڑا تھا، مسجد کے قریب چونکہ بازار ہے، شدید بھیڑ بھاڑ کا علاقہ ہے، شام کے وقت خاص طور پر ازدحام مزید بڑھ جاتا ہے، لاک ڈاون میں تازہ تازہ ڈھیل ہوئی تھی اس لئے مضافات کے لوگ بھی زیادہ آتے ہیں، اس لئے آجکل گاڑی کا مسجد کے دروازے تک پہونچنا دشوار ہوتا ہے، ....... گاڑی کافی دور کھڑی کرنی پڑی، وہاں سے پیدل مسجد تک آنا، اب اسقدر چال پھیر کی عادت نہیں رہی اس لئے کچھ تکان جیسی بھی محسوس ہورہی تھی ـ مگر قدرتی چشمے سے جب وضو کیا تو یقین جانئے طبیعت سے سارا اضمحلال جاتا رہا، انتہائی فرحت بخش پانی تھا، وضو کے بعد کئی چلّو پانی پیا، عجیب ذائقہ تھا، کشمیر سری نگر کا چشمہ شاہی یاد آگیا، اُس کا ذائقہ بھی کچھ اسی طرح کا ہے ـ .......... یہاں بطور جملہ معترضہ یہ عرض کرنے کا جی چاہتا ہے کہ ہمارے پہلے وزیر اعظم نہرو جی کے لئے چشمہ شاہی کا پانی لایا جاتا، وہ ہمیشہ یہی پانی پیتے تھے، ایسا مشہور ہے ـ  واللہ اعلم ـ 
   حوض کی زیارت کے بعد باہر آئے، باونڈری کے باہر  کئی بڑے بڑے عارضی ٹینک بنائے گئے ہیں، جن میں حوض کی مچھلیوں کو عارضی طور پر رکھا گیا ہے، ان کے لئے آکسیجن کم نہ ہو اس کے کا نظم بھی کیاگیا ہے، اچھی خاصی بڑی بڑی مچھلیاں ہیں، حوض ہی کے ایک گوشے میں ایک کمرہ ہے اس میں پانی بھر کے وہاں ایک کچھوے کو رکھا گیا ہے، بتایا گیا کہ اس کچھوے کی عمر ایکسو بیس سال کے قریب ہے، اب تک سنا ہی تھا کہ کچھووں کی عمر طویل ہوتی ہے آج دیکھ بھی لیا ـ ........... زیارت سے فراغت کے بعد چیئرمین صاحب نے حوض کے کنارے ہی کرسیاں لگوائیں اور چائے وغیرہ کا نظم ہوا ـ 
  چائے کے دوران جامع مسجد کی انتظامیہ وغیرہ کے تعلق سے گفتگو ہوتی رہی، پتہ چلا کہ مسجد میں ماہانہ اچھے خاصے اخراجات ہوتے ہیں، صرف اسٹاف کی تنخواہ کا بجٹ ماہانہ سولہ لاکھ کے قریب ہے، مسجد کے ٹرسٹ میں گیارہ ٹرسٹی ہوتے ہیں ان میں ایک چیئرمین ہوتا ہے، ٹرسٹیوں کا انتخاب الیکشن کے ذریعئے ہوتا ہے، الیکشن کے لئے چیریٹی کمشنر کی طرف سے باقاعدہ ایک مشاہد بھیجاجاتا ہے، ہر ٹرسٹی چھ سال کے لئے منتخب ہوتا ہے،  تین سال میں پانچ ٹرسٹی سبکدوش ہوتے ہیں، اگلے تین سال میں بقیہ چھ ٹرسٹی ریٹائر ہوتے ہیں، ہر تین سال پر الیکشن ہوتا ہے اور جتنے ٹرسٹی ریٹائر ہوتے ہیں ان کی جگہ نئے منتخب کئے جاتے ہیں، چئرمین کا بھی براہ راست چھ سال کے لئے الیکشن کے ذریعے انتخاب ہوتا ہے ـ ............. ہم نے معلوم کیا کہ ووٹ دینے کا حق کس کو ہے ؟ پتہ چلا کہ 1942ء میں ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق وہ لوگ جو اُس وقت کوکنی جماعت المسلمین کے رکن تھے جو جامع مسجد کا انتظامات دیکھتی تھی اب ان ہی کی اولادیں جو اٹھارہ سال سے اوپر کی ہوجاتی ہیں انھیں ووٹ دینے کا حق حاصل ہوتا ہے ، جو اب ہزاروں کی تعداد میں پہونچ چکے ہیں ـ 

   مضمون کے آخری حصے میں مسجد کے ائمہ اور مفتیان کا ذکر بھی کرنے کا جی چاہتا ہے ـ ہم نے بچپن میں حضرت مولانا غلام محمد خطیب صاحب کو مسجد کے خطیب وامام کے طور پر دیکھا تھا، ان کے پیچھے نمازیں بڑھی ہیں، جمعہ پڑھا ہے، انتہائی سادہ اور بزرگ شخصیت تھی، بس دور ہی سے زیارت ہوئی، ہم بہت چھوٹے تھے اس لئے کبھی روبرو ملاقات کا حوصلہ نہیں ہوا، معلوم ہوا کہ اُنھوں نے اعلیٰ دینی و عصری تعلیم حاصل کی تھی، جامع مسجد کے زیر انتظام مدرسہ محمدیہ سے فارغ التحصیل تھے، عصری تعلیم میں ڈبل ایم اے بھی کیا تھا، 1940 سے وفات 1980ء تک منصب امامت پر قائم رہے ـ اسی دوران 1961ء میں نائب امام کے طور پر حضرت مولانا شوکت نظیر صاحب کا تقرر ہوا،  جو مولانا غلام محمد کی وفات کے بعد آخر وقت 2015ء تک اس منصب پر فائز رہے ـ 
   حضرت مولانا شوکت نظیر صاحب علیہ الرحمہ بڑی عظیم اور بزرگ شخصیت تھی، احقر نے بہت قریب سے دیکھا ہے، دارالعلوم دیوبند سے فارغ تھے، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی سے خصوصی استفادہ فرمایا تھا، الجمیعۃ کے شیخ الاسلام نمبر میں پڑھا تھا کہ مولانا شوکت صاحب نے حضرت شیخ الاسلام کی خدمت میں ایک چھوٹا پودا پانی سے بھری ہوئی شیشی میں رکھ کر تحفتا پیش کیا تھا، حضرت بہت خوش ہوئے تھے، بہت عرصے تک حضرت مدنی کےپاس وہ پودا تروتازہ حالت میں موجود رہا، جس دن حضرت مدنی کی وفات ہوئی اسی دن وہ پودا بھی مرجھاگیا ـ......... ہم نے حضرت مولانا شوکت صاحب کو اس وقت دیکھا تھا جب اُن کی ڈارھی بالکل سیاہ تھی،  محمدیہ ہائی اسکول میں دینیات کی تعلیم بھی دیتے تھے، جامع مسجد جاتے ہوئےہمارے دواخانے کے سامنے سے روز دوپہر میں گذر ہوتا تھا، انتہائی تیز چلتے تھے، بالکل بجلی کی رفتار، ............ جمعہ کو جب خطبہ دینے کے لئے ممبر پر کھڑے ہوتے تو سرخ وسفید نورانی چہرہ، سفید عمامہ، اس کے اوپر سفید رومال، موزے سمیت سفید براق لباس،  معلوم ہوتا تھا جیسے آسمان سے فرشتہ اُتر آیا ہو ـ بالمشافہہ جب ملاقات ہوئی تو پتہ چلا انتہائی شفیق باغ و بہار شخصیت ہیں، اپنے زمانے کے تمام بزرگوں سے بہت تعلق تھا، تمام بزرگ بھی ان کے ساتھ احترام کا معاملہ کرتے تھے، ہم نے بارہا حضرت مولانا قاری صدیق صاحب باندوی کی مجلسوں میں دیکھا ہے کہ جب مولانا شوکت صاحب تشریف لاتے تو حضرت باندوی اُن کا خصوصی اکرام فرماتے، کئی مرتبہ حضرت باندوی خود اُن سے ملاقات کے لئے جامع مسجد تشریف لے گئے ہیں، حضرت ہردوئی کے یہاں بھی ہم نے یہی معاملہ دیکھا ہے، ایک بار مولانا شوکت صاحب کی طبیعت کچھ خراب ہوئی،  حضرت ہردوئی ان دنوں خود بھی بغرض علاج ممبئی میں تشریف رکھتے تھے، حضرت کو جب مولانا کی علالت کا پتہ چلا توایک دن بنفس نفیس مولانا کی عیادت کے لئے فجر بعد جامع مسجد تشریف لے گئے، ہم خدام بھی ہمراہ تھے، مولانا شوکت صاحب کو جب آمد کا پتہ چلا تو بھاگے بھاگے مسجد کے باہر استقبال کے لئے آئے، حضرت نے وہیں پر کھڑے کھڑے مولانا کا ہاتھ پکڑ سات مرتبہ بیماری سے شفا کی دعا اَسئل اللہ العظیم الخ پڑھی، پھر مولانا کے ہمراہ حجرے تک تشریف لائے، حضرت چونکہ پیروں کی تلکیف کی وجہ سے زمین پر بیٹھنے میں دشواری محسوس کرتے تھے اس لئے مولانا نے حضرت کو کرسی پر بیٹھایا اور ہم خدام سمیت مولانا خود بھی زمین پر بیٹھ گئے، ........... اس موقعے حضرت ہردوئی نے ارشاد فرمایا کہ اوپر بیٹھنے یا نیچے بیٹھنے پر کسی کی بزرگی یا فضیلت کا مدار نہیں ہے، قران مجید میں سورہ اخلاص کے فضائل کیا کیا ہیں سب جانتے ہیں، مگر سورہ اخلاص ترتیب میں نیچے ہے، اس سے اوپر سورہ لہب ہے ـ   ( مفہوم)   ........... مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں کی نظر میں بھی حضرت مولانا شوکت صاحب کا خاص مقام تھا، مجھے خوب یاد ہے شاہ بانو تحریک کے موقع پر مسلم پرسنل لاء بورڈ کا ممبئی میں ایک خصوصی اجلاس ہوا تھا، مولانا علی میاں خصوصی طور پر تشریف لائے تھے، اس اہم اجلاس کی صدارت مولانا علی میاں کی تحریک پر مولانا شوکت صاحب کے سپرد کی گئی تھی ـ ........... شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے بھی اپنے سفر نامے میں مولانا شوکت صاحب سے ملاقات کا خصوصی تذکرہ فرمایا ہے  ـ .......... مولانا شوکت صاحب کوعوام الناس میں بھی بے انتہا مقبولیت بلکہ محبوبیت کا مقام حاصل تھا ـ ان سب کے باوجود آپ نے ہمیشہ خود کو پوری زندگی ہر قسم سیاست، گروہ بندی اور گٹ بازی سے الگ رکھا، کئی جماعتوں نے کوشش کی ڈورے ڈالے، بڑے عہدے پیش کئے، مگر مولانا نے ہمیشہ اپنے آپ کو ان جھگڑوں سے بچایا ـ آپ کی وفات کوکن کے اپنے آبائی گاوں میں بوئی، اس چھوٹے سے گاوں میں لاکھوں لوگ جنازے میں شرکت کے لئے پہونچے، یہ آپ کی بے انتہا مقبولیت کی دلیل ہے ـ

    حضرت مولانا شوکت صاحب کی حیات کے دوران  1996 میں ہی نائب امام کے طور پر مولانا زبیر صاحب کا تقرر ہوگیا تھا، یہ کوکن کے مشہور مدردسہ حسینیہ شری وردھن سے فارغ ہیں، 2011 میں مفتی اظہر صاحب کا بھی تقرر ہوا، یہ بھی شری وردھن سے فارغ ہیں، افتا بھی وہیں سے کیا ہے، اس وقت یہ دونوں  نوجوان علماء امامت کی ذمہ داری بخوبی نبھارہے ہیں، دونوں باصلاحیت ہیں، حضرت مولانا شوکت صاحب کی تربیت میں رہے ہیں، اس لئےمزاج بھی سادہ ہے، طبیعت میں صالحیت اور بزرگی ہے، اگرچہ ہم لوگ بزرگ اُنھیں کو سمجھتے ہیں جن کی ڈاڑھیاں سفید ہوں، ہاتھ میں عصا ہو، آگے پیچھے ہٹو بچو کرنے والے مریدین ومتوسلین ہوں، نوجوان بزرگ ہمارے سمجھ میں نہیں آتے، حالانکہ حدیث میں صالح نوجوانوں کی بہت تعریف کی گئی ہے ـ

  ایک نوجوان بزرگ اور ہیں جن کا کچھ تذکرہ اوپر آچکا ہے، مفتی اشفاق قاضی، یہ بھی شری وردھن کے فارغ ہیں، افتا حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب کے زیر نگرانی حیدرآباد میں کیا ہے، امارت شریعہ بہار سے قضا کی تربیت لے چکے ہیں، سعودی میں ریاض یونیورسٹی میں بھی تعلیم حاصل کی ہے ـ .......... جامع مسجد میں دارالافتا کے صدر مفتی ہیں، کتب خانہ کے ذمہ دار ہیں، بہت باصلاحیت ہیں، ان کے مزاج کا اندازہ غالب کے اس مصرع سے ہوسکتا ہے ........ 
     سادگی وپُر کاری بے خودی و ہشیاری 
 
   ایک خاص بات کا تذکرہ رہا جارہا ہے، حضرت مولانا شوکت صاحب ہر جمعہ کو اپنا تیار کیا ہوا خطبہ پڑھا کرتے تھے ـ ( خطبات نظیر کے نام سے آپ کے کچھ خطبات شایع بھی ہوچکے) جمعہ کی نماز، سنن ونوافل سے فراغت کے بعد دس منٹ میں خطبہ کا ترجمہ وتشریح بھی بیان کیا کرتے تھے ـ ..........  ہمارے یہاں عموما خطیب حضرات جمعہ کے خطبہ سے قبل بیان کرتے ہیں، زیادہ تر بیان کا خطبہ سے کوئی علاقہ نہیں ہوتا، بیان بھی طویل ہوتا ہے، وقت کا خیال نہیں رکھا جاتا، زبان بھی کتابی اور بہت گاڑھی اردو پر مشتمل ہوتی ہے، لوگ جمعہ کی نماز پڑھنے آتے ہیں وہ سمجھ میں آئے یا نہ آئے آنکھ بند کئے اونگھتے رہتے ہیں، بار بار گھڑی دیکھتے ہیں یا گھر کے سودا سلف کا حساب کرتے رہتے ہیں ـ ............ مگر حضرت مولانا شوکت صاحب نے نماز سے فراغت کے بعد بیان کا طریقہ اپنایا، تاکہ وہی لوگ ٹہریں جن کے اندر واقعی طلب ہو، بیان بھی بہت مختصر سادہ زبان میں خطبہ کی تشریح پر ہی مشتمل ہوتا تھا، یہ حضرت مولانا کے اخلاص کا نتیجہ تھا کہ تقریبا نوے پچانوے فیصد افراد ٹہرتے تھے، مولانا کے بیان اور دعا کے بعد رخصت ہوتے ـ

   مولانا کے بعد بھی یہ سلسلہ برقرار ہے، دونوں ائمہ میں جو بھی جمعہ پڑھاتا ہے وہ اپنا خطبہ تیار کرتا ہے ، نماز کے بعد مختصر تشریح اور دعا ہوتی ہے، اب بھی بہت بڑا مجمع ٹہر کر بیان اور دعا میں بھی شرکت کرتا ہے ـ یہ بات خاص طور پر اس لئے بھی ذکر کی گئی تاکہ دوسری مساجد میں بھی طول طویل بیانات کے بجائے مختصر سادہ انداز میں ناصحانہ گفتگو اگر ہونے لگے تو یہ زیادہ مفید ہوگا ـ 

    دراصل سارا مسئلہ اختصار کا ہی ہے، اب مختصر اور جامع گفتگو کی عادت ہم لوگوں سے رخصت ہوچکی پے،  اب یہی دیکھئیے ہم نے سوچا تھا جامع مسجد کی زیارت کا جو شرف حاصل ہوا اس کی روداد چند سطروں میں بیان کردیں گے، جب لکھنا شروع کیا توپتہ ہی نہیں چلا کہ کب اور کیسے یہ طویل مضمون تیار ہوگیا، ......... اب کیا کریں، مجبوری ہے، ہم نے تو لکھ دیا اللہ کرے پڑھنے والوں کو بھی پسند آجائے،  ورنہ ......... !

     اب جس کے جی میں آئےوہی پائے روشنی
       ہم نے تو دل جلا کے سرِ عام رکھ دیا
.