Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, July 2, 2021

*داعیان اسلام کی گرفتاری *

                         تحریر
*مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ*
                          صدائے وقت
+±++++++++++++++(++++++++++++++++++
 اتر پردیش میں ۲۰۲۲ء اسمبلی انتخاب ہونا ہے ، یوگی حکومت کی کارکردگی سے وہاں کے ہندو مسلمان مطمئن نہیں ہیں، ایسے میں وہاں بی جے پی کو کوئی ایسا مُدّاچاہیے، جس سے غیر مسلموں کو متحد کیا جا سکے، ظاہر ہے یہ کام مسلمانوں کی گرفتاری اور ہندو توا کو لاحق فرضی خطرات کا ہَوّا کھڑا کیے بغیر ممکن نہیں ہے، چنانچہ یوگی حکومت نے اس کام کا آغاز کر دیا ہے اور گودی میڈیا کو میڈیا ٹرائل پر لگا دیا ہے، جو دور کی کوڑی لا کر اس کے تار آئی اس آئی اور پاکستان سے جوڑنے میں لگا ہوا ہے۔ 
جناب عمر گوتم پہلے غیر مسلم تھے اور ہندو توا کے پکے علم بر دار ، ان کا نام دھن راج سنگھ گوتم تھا، ایک بار وہ سخت بیمار ہوئے، مسلمانوں نے انسانی بنیادوں پر ان کا ہر طرح تعاون کیا، اس حسن سلوک سے ان کے دل کی دنیا بدل گئی ، اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا، پھر انہیں آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ روایت پہونچی کہ جو اپنے لیے پسند کرو، وہی دوسروں کے لیے پسند کرو، انہوں نے اپنے لیے اسلام پسند کیا تھا، چنانچہ وہ لوگوں تک اسلام کے آفاقی پیغام کو پہونچانے لگے،جن نیک بختوں کی قیمت میں اسلام لانا تھا وہ اسلام میں داخل ہو گئے، اتنی سادہ سی بات تھی، جس کا افسانہ بنا دیا گیا، ان کا اسلامی دعوۃ سنٹر نہ کسی پر جبر کرتا تھا اورنہ اکراہ ، نہ عمر گوتم صاحب کے پاس دولت تھی کہ وہ دولت کے بل پر لوگوں کو مذہب تبدیل کراتے، لیکن اتر پردیش اے ٹی ایس نے ایک ہزار ہندوؤں کے مذہب تبدیل کرانے کے الزام میں لکھنؤ سے جناب عمر گوتم اور مولانا مفتی جہانگیر عالم قاسمی کو گرفتار کر لیا ہے، اور ان کے اوپر لکھنؤ تھانہ میں دھوکہ دہی ، مجرمانہ سازش، مذہبی جذبات بھڑکانے، قومی اتحاد کو متاثر کرنے اور یوپی تبدیلی مذہب قانون ۲۰۲۰ء کے تحت اف آئی آر درج کیا ہے۔ حالانکہ یہ دونوں دستور کی دفعہ ۲۵؍ میں دیے گئے آزادی کے مطابق قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے مذہبی تشہیر کا کام کرتے تھے، اس کے قبل ایک فیصلے میں سپریم کوٹ نے کہا تھا کہ مذہبی تشہیر سے کسی کو روکا نہیں جا سکتا ، مختلف مذاہب کے پرچار کے لیے درجنوں چینل کام کر رہے ہیں اور حکومت وعدالت اس پر پابندی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔
فی الوقت ان دونوں داعیان اسلام کو پولیس نے ایک ہفتہ کے لیے اپنی تحویل میں لے لیا ہے ، یہ تحویل اس لیے بڑی سخت ہوتی ہے کہ پولیس پوچھ تاچھ کے نام پرجو تشدد کرتی ہے، وہ انسانی صحت کو برباد کرکے رکھ دیتی ہے، ذہنی اذیت اور نفسیاتی حربے انسان کو پریشان کرکے رکھ دیتے ہیں، اللہ رب العزت ان دونوں کو ان پریشانیوں کا سامنا کرنے کی ہمت ، طاقت اور حوصلہ بخشے، رہ گئی قانونی کارروائی تو قانون کا جواب تو قانون سے ہی دیا جا سکتا ہے، خبریں آ رہی ہیں کہ بعض ملی تنظیموں نے قانونی لڑائی لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ واللہ الموفق وھو المعین۔