Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, July 11, 2021

مسلمانوں کے مسائل اور سیاسی قیادت



از/ محمد خالد اعظمی / صدائے وقت ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وطن عزیز میں حصول آزادی کے فوری بعد سے ہی مسلمانوں کو حاشیہ پر ڈالنے کی ایک منظم اور مربوط کوشش منصوبہ بند طریقے سے جاری ہے۔ اس کام کے لئے حکومتی عناصر ، سیاسی جماعتیں اور غیر سرکاری تنظیمیں باہم اتحاد اور اشتراک سے اپنے متعین اہداف کے حصول کے لئے سرگرم اور روبہ عمل ہیں،بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ ہندوستان میں سیاست کا مرکزی کردار اور محور ہی مسلمان قوم ہے۔ اس ملک کی مختلف سیاسی جماعتوں کی بازیگری اسلام، مسلمان، کشمیر اور پاکستان تک محدود رہتی ہے اور سیاسی روٹیاں اسی تنور پر تیار کر کے ووٹروں میں تقسیم کی جاتی ہیں۔ آزادی کے فوراً بعد منظم سازش کے تحت بابری مسجد کو عملی طور پر ہندو مندر میں تبدیل کرنا، مسلمانوں کی وطن پرستی کو مشکوک بنا کر پیش کرنا اور پاکستان بنوانے کا طعنہ دینا، منظم فسادات اور یکطرفہ کاروائیوں کے ذریعے پوری قوم کو معاشی طور پر مفلوج کر دینا، ان کے تعلیمی نظام کو کمزور کرنا اور ان کے تعلیمی اداروں کو غیر ضروری قانونی مسائل میں الجھا کر انکی ترقی کی راہ کو مسدود کرنا،طلاق، حلالہ اور دہشت گردی جیسے مسئلوں میں پوری قوم کو الجھا دینا اسی منصوبہ بند سازش کی مختلف کڑیاں ہیں۔ افسوس اس بات کا زیادہ ہے کہ برادران وطن کی ایک بڑی تعداد ان سازشی عناصر کے تخریبی پروپیگنڈہ سے متاثر ہو کر مسلمانوں کو اس ملک کا دشمن اور اس سر زمین پر ایک بوجھ تصور کرنے لگی ہے۔ مسلمانوں کے خلاف ہندو برادران وطن کی ذہن سازی میں ملک کے بیشتر  ذرائع ابلاغ بھی پیش پیش رہتے ہیں نیز  اسے وہ اپنی آمدنی اور ٹی آر پی بڑھانے کا کارگر ذریعہ تصور بھی کرتے ہیں ۔اس ملک کی تعمیر و ترقی اور علمی سرگرمیوں میں مسلمانوں کے کردار، ان کی تاریخی اور قومی وراثت ، جنگ آزادی میں انکی قربانیوں اور صنعت و حرفت میں ان کے تعاون کا تذکرہ قومی ذرائع ابلاغ میں شائد ہی کبھی ہوتا ہو البتہ اگر کبھی کوئی منفی بات انفرادی طور پر بھی مسلمانوںُ کے تعلق سے مل جائے تو اسے چٹخارے دار بنا کر عوام کے سامنے پیش کرنا ہر اخبار اور چینل اپنا قومی فریضہ اور ملکی خدمت تصور کرتا ہے۔ 
ملکی سیاست کے موجودہ پس منظر میں فرقہ وارانہ خطوط پر سماج کا بٹوارہ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مذہبی منافرت کی وجہ سے ہندوستانی مسلمانوں کے دینی و ملی تشخص پر سوالیہ نشان ، انکے لباس اور طرز معاشرت پر غیر ضروری تنقید اور استہزائیہ جملے بازی اب ایک عام سی بات ہوتی جارہی ہے۔برادران وطن کے درمیان مسلمانوں کی تصویر ہندو مخالف اور ملک دشمن کے طور پر پیش کرنے کے لئے کچھ ادارے اور تنظیمیں تندہی کے ساتھ سرگرم عمل ہیں۔ اس حوالے سے مسلمانوں کے عمومی مسائل اور انکے جائز اور پائدار حل کے لئے کوشش کرنے والے مسلم سیاستدان نیز اہل خیر اور اہل علم حضرات سے گفتگو کرنے پر اکثر و بیشتر یہ بات نکل کرآتی ہے کہ مسلمانوں کے جملہ مسائل کا حل اور انکے حقوق کا تحفظ اسی صورت ممکن ہے کہ مسلمان تمام مذہبی، سیاسی اور فرقہ وارانہ اختلافات سے بالاتر ہو کر ایک متحدہ سیاسی قوت حاصل کرکے اہل حکومت اور ارباب اختیار سے اپنے حقوق و اختیارات حاصل کر سکتے ہیں اور اسکے لئے مختلف تدابیر و عملی اقدامات کے  کچھ مظاہر بھی دیکھنے میں آتے ہیں۔لیکن ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال جس میں مذہب کی بنیاد پر قومیت کا تصور رائج کرنے کی تگ و دو جاری ہے اس طرح کے کسی سیاسی اور  پائدار حل کی نفی کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔پچھلے چند سالوں سے یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ مسلمان اپنے آپ کو سیاسی سطح پر جتنا متحد اورمتحرک کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا کچھ سیاسی جماعتیں مسلمانوں کی ہمدرد اورمسلم ووٹوں کی دعویدار بن کر سامنے آتی ہیں ، نتیجے یا ردعمل کے طور پر ہندو ووٹ بھی مسلم دشمنی کی بنیاد پر اور زیادہ متحد ہوتا جا رہا  ہےاور برادران وطن کی فرقہ پرستی اور مسلم دشمنی اتنی ہی فعال ہوتی جارہی ہے۔صورتحال ایں جا رسید کہ اب  سیاسی جماعتیں مسلمانوں کے قومی مسائل اور ان کی جائز ضروریات کا تذکرہ بھی کرتے ہوئے دس مرتبہ سوچتی ہیں کہ کہیں ان پر مسلمانوں کی بے جا حمایت اور منھ بھرائی کا الزام نہ لگ جائے۔ایسی صورتحال بن جانے پر مسلمانوں اور ان کے قائدین کو  قوم کی مثبت صورت گری  اور ملک میں ان کے کردار کو مزید واضح کرنے کے لئے کچھ ایسا لائحہ عمل ترتیب دینا چاہئے جس سے کہ موجودہ صورتحال کو بہتر بنانے میں معاونت مل سکے۔  
دنیا کے بیشترممالک میں بسنے والی مذہبی و نسلی اقلیتوں کا مطالعہ و مشاہدہ کرنے سے ایک بات تواتر کے ساتھ نظر آتی ہے کہ اقلیتی قومیں اور جماعتیں اپنی قومی ترقی ، پیچیدہ مسائل کے حل اور اپنے مخصوص تشخص کی حفاظت کے لئے سیاست کا سہارا لینےکے بجائے ایک پیداواری خدمت اور فلاح عامہ کے لئے کام کرنے والی قوم، نسل یا گروہ کے طور پر اپنے آپ کو متعارف و فعال کرنے کی کوشش اور تگ و دو کرتی ہیں اور خدمت خلق کو اپنا قومی شعار بنا کر عوامُ کے دلوں کو متاثر کرتی ہیں۔ غیر عیسائی ممالک میں عیسائی مشنریز، عیسائی ممالک میں ہندوئوں، مسلمانوں اور سکھوں کی فلاحی تنظیمیں اور ادارے اس کی واضح مثال ہیں ۔ہندوستان میں مسلمانوں کی تصویر دن بہ دن ایک ایسی قوم اور مذہبی اکائی کی ہوتی جارہی ہے جسکو صرف اور صرف اپنے حقوق کے لئے دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانا اور لینا آتا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ جسکے پاس ملک کو دینے کے لئے کچھ بھی  نہیں ہے، اگرچہ اس کے لئے ملک کی سیاسی صورتحال بھی کافی حد تک ذمہ دار ہے۔ملک میں مسلمانوں کی فلاحی تنظیمیں اور ادارے بس برائے نام ہیں اور  اگر یہ کچھ خدمت خلق کا کام کرتے بھی ہیں تو وہ بھی  صرف اپنے ہمُ   مذہب لوگوں کے لئے اور دیگر برادران وطن کو دینے کے لئے جیسے ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے-مسلمانوں کی ایسی ہی تصویر دن بہ دن برادران وطن کے دلوں میں راسخ ہوتی جارہی ہے۔ہم اگر خدمت خلق کے نام پر ایک اسکول یا مدرسہ کھولتے ہیں تو وہ بھی صرف مسلمانوں کے لئے،جبکہ تعلیم کی جتنی ضرورت مسلمانوں کو ہے اتنی ہی غریب ہندوئوں کو بھی ہے۔غربت اور بے بسی کی مار جھیل رہے بے کس افراد ہمارے آس پاس بہت بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں جن کوُدینے کے لئے جیسے ہمارے پاس کچھ بھی نہ ہو۔ہماری زکات اور صدقات کے پیسے صرف نئے مدارس کھولنے یا پرانے مدرسوں میں  نئی عمارتیں تعمیر  کرنے پر خرچ ہو جاتے ہیں۔ایک مدرسے کے بجٹ میں ایک بڑا اور  اچھاخیراتی اسپتال چلایا جا سکتا ہے جس میں بلا تفریق ہر غریب ضرورت مند کا بنیادی علاج ہو سکے، ایک چھوٹی ڈسپنسری بھی غریب کے علاج میں بہت سہولت پیدا کر سکتی ہے۔ جنرک دوائیوں کی سستی دوکان کھولُ کر بھی غریبوںُ کی مدد کی جاسکتی ہے۔اس طرح کے بہت سارے رفاہی کام جگہ جگہ ہو رہے ہیں لیکن ان میں مسلمانوں کی حصہ داری نہ ہونے کے برابر ہے۔مسلمانوں کے بیشتر مدارس اور اسکولوں کا بنیادی ڈھانچہ انکی ضرورت کی تکمیل کے لئے کافی ہے بس ضرورت اس کی فعالیت اور ان کی صلاحیت کے بھر پور استعمال کی ہے۔ان حالات میں ذرائع کا استعمالِ زیادہ ضروری رفاہی کاموں کی طرف کیا جا سکتا ہے۔سرکاری شفا خانوں کی عدم فعالیت اور نجی اسپتالوں کی بہتات کی وجہ سے اس وقت ملک میں غریبوں کے لئے علاج مہنگا اور نا قابل پہنچ ہوتا جارہا ہے، تعلیم کی نجکاری کے باعث اب وہ بھی عوام کے لئے ناقابل حصول ہوتی جارہی ہے ۔ملک میں اب بنیادی ضرورت کی سہولیات جیسے علاج ، تعلیم اور نقل و حمل بھی تجارتی بنیادوں پر فراہم ہونے کی وجہ سے کافی مہنگی ہو گئی ہیں ان حالات میں مسلم قوم کے لئے اپنی قومی صورت گری کا یہ ایک نادر موقع ہو سکتا ہے کہ ایسے رفاہی ادارے اور فلاح عامہ کے کاموں کو ترجیح دیں جو عوام الناس کے فائدے اور انکی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے مددگار ثابت ہوں۔ برادران وطن اس وقت رفاہی کاموں پر بہت توجہ دے رہے ہیں لیکن ہم بحیثیت قومُ اس مذہبی ذمہ داری میں بھی ان سے کافی پیچھے ہیں ادھر کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے۔اس وقت چھوٹے شہروں اور قصبات میں وہ لوگ اناج بینک ، روٹی اور لباس بینک کھول کر بلا تفریق مذہب مسکینوں اور بیکسوں کے لئے روٹی اور کپڑے کا انتظام کر رہے ہیں ۔ مسلمان چھوٹے پیمانے پر ہی صحیح لیکن اس طرح کے فلاحی کاموں کی تر غیب دیں اور اپنی بساط بھر خود کریں۔غریبوں کو علاج کی سہولت مہیا کروانا یا غریب اور نادار کو کھانا کھلانے میں ہندو مسلمان کی تفریق کئے بناہر ممکن مدد پہچانامسلم قوم کی شناخت اور روایت رہی ہے اور اس شناخت کو زندہ کرنا اور اسے تقویت پہچانا اسوقت  کی اہم ترین ضرورت ہے۔ہماری یہی شناخت ہمیں  برادران وطن کی نظروں  میں معتبر  بنا سکتی ہےاور جو منفی پروپیگنڈہ مسلمانوں کے خلاف منظم طریقہ سے چلایا جا رہا ہے اس میں کسی حد تک کمی آسکتی ہے۔ مسلمانوں میں مخیرصاحب مال حضرات کی کمی نہیں ہے اور وہ دوسروں کی ضروریات کے لئے خرچ کرنا بھی جانتے ہیں ،مسلم تنظیموں اور گروپس کو اس نہج پر بھی کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔سیاسی طاقت کا حصول اپنی جگہ اہم اور ضروری ہے لیکن وہ سارے مسائل جو مسلمانوں کی عوامی اور معاشرتی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں اس کے حل کے لئے یہ ضروری ہے کی مسلمان اپنی سماجی شناخت ایک ایسی قوم کی بنائیں جو دوسروں سے لینے کے بجائے دوسروں کو دینے پر یقین رکھتی ہے۔