Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, July 11, 2021

اترپردیش میں کیا ہورہاہے؟**اترپردیش میں ٹھاکر نے اکھاڑہ لگایاہے*

از۔۔سمیع اللہ خان ۔۔۔صدائے وقت۔۔۔
====================================
 دھواں ہے، بارود ہے، پٹاخوں کی گونج ہے، بندوق ہے اور سہمے سہمے جمہوریت کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں 
 جی ہاں! جمہوریت کا اکھاڑہ، پانڈوں اور یادوؤں نے سوچا تھا کہ جمہوریت کی نفی کا اطلاق تو صرف پنکچر والے عبدل پر ہی ہوتا ہوگا، اسلیے وہ مظفرنگر کے خونی ایپی سوڈ کے لائیو ٹیلی کاسٹ پر اچھل کے تالیاں بجاتے تھے، لیکن راؤنڈ اور رنگ دونوں بدل گئے ہیں 
 رنگ ماسٹر آف دی اترپردیش، اجے سنگھ بشٹھ عرف یوگی آدتیہ ناتھ دہلی کے گجراتی رنگا بلّا کو پچھاڑنے کے لیے یوپی میں ارنے بھینسے کی طرح تانڈو مچائے ہوئے ہے
پانڈے جی گھر سے نکلے تو اسٹیڈیم سے پہلے ہی میچ شروع ہوگیا، دوچار گیندیں گاڑیوں کے شیشے پھوڑ گئیں تو کچھ اسٹمپ تشریف سُجا گئے، پانڈے جی سر پر پیر نہیں بلکہ چار کاندھوں پر لٹکا کے بھگائے گئے
 یادو جی نکلے باراتیوں کےساتھ لیکن پنڈال پہنچنے کی نوبت ہی نہيں آئی پنڈت جی اور پنڈتائن راستے ہی میں گھیر گھار کے دھو دیے، یادو جی وہاں سے جو بھاگے ہیں تو ابھی، لوک تنتر کی ہتھیا کا ماتم پھیلائے دھاڑیں مار رہےہیں 
 حال یہ ہیکہ ۔ اب اگر اترپردیش میں کسی کو بی۔ڈی۔سی چناؤ لڑنا ہے تو سیدھے کان کے پاس پٹاخے پھوٹتے ہیں یادو ہوا تو ترچھا لیٹ جاتاہے اور برہمن ہوا تو دھوتی بھیگ جاتی ہے 
اور اگر کوئی آنے والے ودھان سبھا چناؤ میں ٹھاکر سے ٹکرانے کا امیدوار ہے تو بندوق کی گولی اور یوگی کی بولی کے بالکل بیچ میں اس کا سر ہے 
 جمہوریت کا تخت جو ہے نا اس کو قالین بھیا پہلے ہی مرزاپور کی گدی بتا چکے ہیں بدلہ یہ ہیکہ مرزاپور کی جگہ گدی ہے لکھنؤ کی اور مال ہے ٹھاکر کے پاس، اکھلیش یادو کو ملائم کی لال ترچھی ٹوپی اور سائیکل پہلے ہی کمفرٹ نہیں تھی تو اب بندوقوں کی دھائیں دھائیں بھی ایڈجسٹ کرنا پڑرہی ہے، لیکن لونڈا جو ہے وہ ٹھہرا ولایت ریٹرن تو اس کے سمجھ میں نہیں آرہی کہ پولیس کو کیسے مینیج کریں ! بہن جی پہلے ہی " بھائی " کی راکھی میں سرینڈر کرچکی ہیں اور خان بہادر جو ایک اکیلے شوٹر ہوسکتے تھے ان کو تو پہلے ہی رامپور کی جیل میں ٹھونس دیا ہے، ولایتی لونڈا انہی کو اب تک چھڑا نہیں سکا ہے، 

 اجے سنگھ بشٹھ اسوقت جمہوریت کے بالکل مرکزی چوراہے پر طمنچے لیے اپنے پولیسیا لونڈوں کےساتھ اس کی رکھشا کررہےہیں، جیسے ہی کوئی سپائی، بسپائی یا کانگریسی جمہوریت کے مندر کی طرف بڑھتا ہے، اجے سنگھ جھپٹ کر اٹھتا ہے، قانون کا ہیلمیٹ، کانسٹی ٹیوشن کا پیڈ، اور لاء اینڈ آرڈر کا گلپس پہنتا ہے، ایک قدم پیچھے عدالت کی دہلیز میں اور اگلا سسٹم کی نکیل پر رکھ کے جو دھائیں دھائیں شاٹ مارتا ہے تو سارے جمہوریت وادی، ڈیموکریسی ڈیموکرسی چلاتے ہوئے اپنی " اماں " کے پاس دوڑتے ہیں، لیکن اماں کے ہاتھ میں ترازو تو ہوتاہے، مگر وہ اندھی ہوتی ہے، اسے خبر ہی نہیں کہ کون سے بچے شریر اور کون سے شریف ہیں وہ تو بیچاری جو اس کے آنکھوں کی پٹی تک پہنچ جائے اسی کو اپنی ممتا سے نوازنے لگتی ہے اور وہاں بھی پہنچے ہیں ٹھاکر، یادو اور پانڈے فی الحال ترنگا لپیٹ رہےہیں 
 دوسری طرف نیکسٹ اننگ کی شروعات ہونے جارہی ہے، قالین بچھ رہی ہے، گرچہ قالین بھیا کا کردار کلیئر نہیں ہے، اور نیکسٹ اننگ تو آپ سمجھ ہی رہے ہوں گے ! 

سمیع اللہ خان