Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, July 13, 2021

گاؤں کی باتیں.... آم کے پودوں کو بچوں کی طرح پالا جاتا ہے ‏


 از/حمزہ فضل اصلاحی /صدائے وقت۔
++++++++++++++++++++++++++++++++++
  یہ آم کا باغ گاؤں کے کچے راستے کےقریب ہے ۔ باغ میں بہت سے درخت ہیں ۔ کچھ درخت خالی ہیں، ان پر ایک بھی پھل نہیں ہے۔ کچھ درختوں کی ہر شاخ پر آم ہیں ، یہاں سے گزر نے والا ہر شخص پھلے ہوئے درختوں کو دیکھ کر رکتا ہے۔ ان پر نظر ڈالتا ہے ،  اوپر سے نیچے تک دیکھتا ہے ۔بعض دفعہ زیادہ پھل لگنے پر حیر ت کا اظہا ر کرتا ہے۔ سچ پوچھئے تو پھلوں سے لداہوا آم کا درخت بھلالگتا ہے،اسے دیکھ کر سب سے زیادہ باغبان   خو ش ہوتا ہے ۔باغبان خوشی کیوں نہ منائے ؟ اس نے اتنا انتظار کیا ہے ،زلف کے سر ہونے تک صبر کیاہے ، دن رات ایک کیا ہے،کھا د پانی دیا ہے، بیٹھے بٹھائے مفت کا جھگڑ ا بھی مول لیا ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ آم کے پو دوں کو بیٹوں کی طرح پالا جاتا ہے ۔ اس کے بعد ہی پھل نصیب ہوتا ہے ۔سب سے پہلا مرحلہ  پودا لگانے کا ہوتاہے ۔پودا لگانے کیلئے آم کی بہتر ین قسم کا انتخاب کیا جاتا ہے۔نر سری جانا پڑتاہے ، کبھی کبھی ایک شہر سے دوسرے شہر جانا ہوتا ہے۔ اس میں نر سری والے ہی پر بھر وسہ کیاجاتاہے ۔ کچھ بڑے باغ والے بھی تجر بے کرتے ہیں ، آم کی نئی نئی قسمیں اگاتے ہیں ۔ ان میں سے کچھ کی پورے ملک میں شہر ت ہے ، انہیں سر کا ری اور غیر سرکاری اعزاز بھی مل چکے ہیں۔ ایسے باغبان سے بھی پودے خریدے جاتے ہیں ۔ آم کی قسم کے انتخاب کا یہ مرحلہ کبھی آسانی سے طے ہوجاتا ہے ، کبھی دشواری ہوتی ہے ۔ اس کے بعد پودالگا یا جاتا ہے، سب سے پہلے گڑھا کھودا جاتا ہے، پھر آم کاپودا اس میں رکھ دیاجاتا ہے ،اسے مٹی سے دبایاجاتا ہے، پھر اس میں پانی دیاجاتا ہے، اس طرح پودا کھڑا ہوجاتا ہے ،یہ سب ایک دودن میں ہوجاتا ہے۔ پھرپابندی سے  پانی دینا پڑتا ہے ۔ اس دورا ن کچھ پودے سوکھ جاتے ہیں ،ان میں نئی پتی نکلتی ہی نہیں ، اس کی جگہ دوسرا پودا لگاناہوتا ہے، کبھی کبھی ایک جگہ جگہ دس یا ا س سے زائد مرتبہ پودالگانے کے بعد کامیابی ملتی ہے۔ جو پودے رہ جاتے ہیں ، ان  سے نئی پتی نکلنے کے بعد ہی باغبان مطمئن ہوتا ہے ۔ اس سےتصدیق ہوجاتی ہے کہ پودے کی جڑیں زمین میں پھیلنے لگی ہیں ۔ اب جڑوں کو کیڑے مکوڑوں سے بچانا ہوتا ہے ۔تنا اورپتیوں کو بھینس بکری اور گائے وغیرہ سے بچاناہوتا ہے۔ کچھ علاقوں میں آوارہ جانور بھی ناک میں دم کردیتے ہیں۔ ہر وقت نظررکھنی پڑتی ہے ۔ گڑائی کرنی پڑتی ہے،جھاڑ جھنکاڑ صاف کرنی پڑتی ہے۔ نئے باغ کے پودےکومویشیوں سے بچانا سب سے مشکل کام ہے ۔ اس میں جھگڑے بھی ہوتے ہیں ، مارپیٹ تک کی نوبت آجاتی ہے۔کسی کی بکری باغ میں داخل ہوتی ہے ، پل بھر میں کئی سال کی محنت چٹ کرجاتی ہے ، اس پر باغبان کو غصہ آجاتا ہے ، وہ بکری کو پتھریا کسی اور چیز سے مار دیتا ہے،اس پر جانور کے مالک اور باغبان میں ٹھن جاتی ہے۔ لاٹھی ڈنڈاتک نکل آتا ہے 
۔ بتاتے ہیں کہ پہلے اس طرح کے جھگڑے عام تھے، اب اس میں کمی آئی ہے۔اس کی وجہ یہ ہےکہ پہلےگاؤں والوں کیلئے کھیت ، باغ اور مویشی ہی سب کچھ تھے ، یہی آمدنی کا ذریعہ تھے۔اب آمد نی کے دیگر ذرائع نے اس طرح کے جھگڑوں اور ان کی شدت کو کم کردیا ہے۔ خیرکئی برس آم کے پودے کی اپنے بچوں کی طرح نگرانی کی جاتی ہے، اس طرح پودے سے درخت تک کا سفرمکمل ہوتا ہے ۔ درخت تیار ہونے کے بعددواؤں کاچھڑ کا ؤ کیا جاتا ہے ۔موسم کوئی ہو ،سنچائی اور گوڑائی کاعمل ہمیشہ جاری رہتاہے۔ گرمی، سردی ، بہار اور برسات سب کچھ جھیلنا پڑتاہے۔
سب سے زیادہ محنت پھل لگنے کےبعدکرنی پڑتی ہے ۔ آندھی میں کم سے کم آم گرے ، اس کیلئے پیڑوں کی سنچائی کی جاتی ہے ، مخصوص دواؤں کا چھڑ کاؤ کیاجاتا ہے اور بھی دوسرے طریقے اپنائے جاتے ہیں ۔ چور اچکوں او ر شرارتی بچوں کی آم پر نظر رہتی ہے ۔وہ باغ کے رکھوالے کی غفلت کا انتظارکرتےہیں، موقع ملتے ہی آم پر ہاتھ صاف کردیتےہیں ، اس لئے باغ کا رکھوالاہر وقت مستعد رہتا ہے۔ ۲۴؍گھنٹے پہرہ رہتا ہے ۔ گھر کا ہر شخص باری باری سے باغ میں یا باغ کے آس پاس سے گزرنے والے کی سرگرمیو ں کو دیکھتا رہتا ہے۔ ان جھمیلوں سے بچنے کیلئے بہت سے لوگ درخت پرلگا اپنی باغ کاپھل فروخت کردیتےہیں۔ ان کی اچھی خاصی سالانہ آمدنی ہوجاتی ہے جس سے شادی یا گھر کی تعمیر جیسا بڑا کام ہوجاتا ہے۔باغ کی آمدنی سے بہت سوں کا گھر بھی چلتا ہے۔  پرانے لوگ بتاتےہیں کہ ان کے زمانے میں آم کی چوری زیادہ ہوتی تھی ۔باغ کا رکھوالا رات رات بھر جاگتاتھا ۔  وہ اپنی جان پر کھیل کرآبادی سے دور کھلے آسمان کے نیچے رات گزارتاتھا،اس سناٹے میں گیڈروں کی آواز سنائی دیتی تھی اور بھی خوفناک آوازیں گونجتی تھیں ۔ کسی نئے یا کمزور دل والے کیلئے اس باغ میں ایک پل بھی رہنا مشکل ہوتاتھا ۔ جنگل سے قریب کے باغ میں درندوں کا بھی خطرہ رہتا تھا۔اس کے باوجود ڈھیٹ قسم کے چور اچکے باز نہیں آتے تھے۔ رات کے کسی بھی حصے میں دبے پاؤں باغ میں داخل ہوتے تھےاور جنتا بن پڑتاتھا ، آم سمیٹ کر ساتھ لے جاتے تھے ۔
اگرآپ کسی پھل کی منڈی میں کھڑے ہیں تو اپنے اطراف میں دیکھئے ، آپ کے سامنے جو آم رکھاہے ، اس کیلئے کیاکیا گیاہے؟ اس کا باغ کس طرح تیار کیاگیا ہے ؟ پھل ملنے تک کتنے جتن کئے گئے ہیں ؟ اندازہ لگائیے۔