Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, July 19, 2021

مرکزی ‏حکومت ‏کا۔۔۔۔۔جاسوسی اسکینڈل ـ۔۔۔ سچ کیا ہے؟



۔ایک اسرائیلی کمپنی ہے " پیگاسس "( pegasys). اس نے ایک ایسا سافٹ ویر بنایا ہے جو موبائیل فون کے ذریعے لوگوں کی تمام اطلاعات جمع کرتا ہے ـ ......

    از ـ محمود احمد خاں دریابادی /صدائے وقت
۔===================================
    ہندوستانی سیاست کا ایک بالکل نیا اورخطرناک چہرہ سامنے آیا ہے، اب حکومتیں مخالف پارٹیوں کے لیڈران، صحافی، سماجی کارکنان، سرکاری عہدے دارن، نوکر شاہ وغیرہ کی جاسوسی تو کراتی ہی ہیں، ساتھ میں اپنے ساتھیوں کی، اپنے وزیروں کی، عدالت کے ذمہ  داران کی اور دستوری عہدے دار الیکشن کمشنر، ہندوستانی فوج کے سربراہ  وغیرہ کی بھی جاسوسی ہوتی ہے ـ ........... یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے پہلے مطلق العنان بادشاہ ہوتے تھے جو اپنے علاوہ کسی پر اعتماد نہیں کرتے تھے، کسی پر ذرا بھی شک ہو کہ وہ اقتدار کے لئے خطرہ بن سکتا ہے اسے فورا ٹھکانے لگوادیتے تھے، پھر چاہے وہ سگے بھائی ہوں یاحقیقی باپ!
   آئیے ذرا تفصیل سے سمجھتے ہیں، ایک اسرائیلی کمپنی ہے " پیگاسس " اس نے ایک ایسا سافٹ ویر بنایا ہے جو موبائیل فون کے ذریعے لوگوں کی تمام اطلاعات جمع کرتا ہے ـ ........  میڈیا رپورٹ کے مطابق اس کا طریقہ کار کچھ یوں ہے کہ آپ کے موبائیل پر ایک مس کال آتا ہے اور اسی وقت یہ سافٹ ویر آپ کے موبائیل مائیک، کیمرہ اور مکمل ڈاٹا کو اپنے قبضے میں لے لیتا ہے، اب آپ کا موبائل بند رہے یا چلے آپ کی اور آپ کے آس پاس کی تمام حرکتیں ریکارڈ ہورہی ہیں، آپ کیا بات کررہے ہیں، کس سے کررہے ہیں، کہاں جارہے ہیں، کون آپ سے ملنے آرہا ہے سب تصویروں کے ساتھ ریکارڈ ہورہا ہے ـ 

    پیگاسس کمپنی کا کہنا ہے کہ ہم یہ سافٹ ویر کسی پرائیوٹ پارٹی کو فروخت نہیں کرتے، صرف برسر اقتدار حکومتوں کو ہی فروخت کرتے ہیں، کمپنی کا کہنا ہے کہ اب تک ہم دنیا کی 45 حکومتوں کو یہ سافٹ ویر فروخت کرچکے ہیں، ہندوستان بھی ان میں سے ایک ہے ـ اب تک ہندوستان میں تین سو ایسے افراد کی فہرست سامنے آچکی ہے جن کی جاسوسی ہورہی ہے یا مستبقل میں ہوسکتی ہے ـ 

   اب ذرا دل تھام کرسنئے کہ تین سو میں کون کون جغادری شامل ہیں ، راہل گاندھی اور ان کےچار قریبی ساتھی، سابق الیکشن کمشنر لواسا، ممتا کے بھتیجے ابھیشک بنرجی، پرشانت کشور اور فوج کے ایک سربراہ سمیت مختلف پارٹیوں کے کئی لیڈران،  درجنوں صحافی جن میں انڈیا ٹوڈے، ہندو، انڈین ایکسپریس جیسے بڑے میڈیا ہاوس سے تعلق رکھنے والے صحافی بھی مبینہ طور پر شامل ہیں، تعجب یہ ہے کہ حکومت کی مشہور خاتون وزیر اسمرتی ایرانی کے پرسنل سکریٹری، پتہ یہ بھی چلا ہے کہ وہ خاتون جس نے سابق چیف جسٹس گوگوئی پر جنسی الزامات لگائے تھے اس کے گیارہ فون نمبروں پر یہ سافٹ ویر استعمال ہوا، ..........  اور حد تو یہ ہوگئی کہ آئی ٹی کے نئے نویلے وزیر اشونی ویشنو جنھوں نے پارلیمنٹ میں حکومت کی طرف سے صفائی پیش کی،  خود اُن کا نام نامی اسم گرامی بھی اس فہرست میں شامل ہے ـ ہائے ........ 
   
      ناوک نےتیرےصید نہ چھوڑا زمانے میں 
        تڑپے ہے مرغِ قبلہ نما آشیانے میں

    حکومت کے وزیر باتدبیر نے صفائی دی، سابق وزیر روی شنکر پرشادنے بھی پریس کانفرنس میں حسب عادت اپوزیشن کے خلاف زبردست غیض وغضب کا مظاہرہ کیا، مگر ایک لائین میں ان دونوں نے یہ نہیں بتایا کہ حکومت نے اسرائیلی کمپنی سے وہ سافٹ ویر خریدا ہے یا نہیں؟ ......... بتاتے بھی تو کیسے ؟ بات آگے نہ بڑھ جاتی،...........  پھر یہ بھی تو بتانا پڑتا کہ حکومت نے یہ سافٹ ویر کہاں استعمال کیا؟ کن لوگوں کے فون ٹیپ کئے گئے ؟ کیوں کئے گئے؟ سپریم کورٹ نے جو فرد کی پرائیوسی کو بنیادی حق قرار دیا تھا اس کا کیا بنے گا؟ اگر وزیروں کے فون ٹیپ ہوئے ہیں تو حکومتی زاز داری جس کا حلف وزرا لیتے ہیں اس کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں؟ ......... سب سے بڑی بات یہ کہ بیرون ملک کی ایک کمپنی کے پاس ہمارے ملک کے بڑے بڑے لیڈران، وزرا، فوجی سربراہان کے ملکی راز پہونچ جاتے ہیں تو یہ ملکی سیکورٹی کے لئے کتنا بڑا خطرہ ہوسکتا ہے ؟ غالبا اسی لئے کانگریس کے ترجمان سرجے والا نے اس عمل کو ملک کے خلاف بغاوت والا عمل بتایا ہے ـ 

     ایک مرد یا عورت جس کے موبائل میں یہ سافٹ ویر داخل ہو چکا ہے چوبیس گھنٹے مستقل کیمرے کی زد میں ہے، اس کا کوئی راز پوشیدہ نہیں رہے گا، خواب گاہیں تک محفوظ نہیں ہیں ـ اگر کوئی شخص حکومت کےکسی ذمہ دار عہدے پر ہے خصوصا خاتون،  اس سے زندگی کے کسی کمزور لمحے میں سرزد ہونے والا کوئی گناہ اگر کیمرے میں محفوظ ہوگیا تو اس کو بلیک میل کرکے اُس سے کیا نہیں کرایا جاسکتا، سارے حکومتی راز، آئندہ منصوبے ملک دشمن ہاتھوں میں کتنی آسانی سے پہونچ جائیں گے، ......... ذرا سوچئے یہ سافٹ ویر کتنا خطرناک ہے ـ اگر کسی اور جمہوری ملک میں ایسا ہوا ہوتا تو ....... ؟؟

     یاد کیجئے ستر کی دہائی میں امریکی صدرنکسن کی کرسی اسی طرح کے ایک معاملے میں جاتی رہی تھی، ........... دیکھتے ہیں ہمارے یہاں کیا ہوتا ہے ؟؟

     محمود احمد خاں دریابادی