Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, July 2, 2021

کیا بھارت کا مسلمان سیاسی خودکشی کررہاہے؟*



 آج ایک سیاسی نوعیت کی نشست کے دوران ہندوستانی مسلمانوں کی موجودہ بدترین سیاسی بےحیثیتی کا مزید احساس ہوا 

از۔۔سمیع اللہ خان۔۔صداؠے ۔۔وقت۔
+++++++++++++++++++++++++++++++++
 ہمارے ملک میں اس وقت ایک نیا سیاسی محاذ تیار ہورہاہے جس کی تیاریاں بنگال، دہلی، اترپردیش،کیرلہ،  تمل ناڈو اور مہاراشٹر میں زوروں پر ہیں 
 یہ نئی سیاسی بساط  بھاجپا کی ڈکٹیٹرشپ کےخلاف ملک کے مختلف طبقات اور صوبوں کی نمائندہ ہوگی، اور ایک نئی اپوزیشن کھڑی کرے گی 
 بھاجپا اور سَنگھ جسطرح اسوقت اکیلے ہی لوٹ مار مچائے ہوئے ہیں، اپنے علاوہ کسی کو بھی کھانے نہیں دے رہے اور اپنے علاوہ ملک کی ہر ہر طاقت کو دبائے ہوئے انہیں جبراً محکوم بنانے کے لیے کوشاں ہیں ایسےمیں کسی نئے سیاسی محاذ کی انگڑائی بھارت جیسے ملک میں فطری ہے 
 بہرحال ملک کے سیاسی گلیارے اسوقت بھاجپا اور آر ایس ایس کے ظالمانہ اور نسل پرستانہ استعمار کی چودھراہٹ سے بےچین ہیں، یہ بڑی حقیقت ہے
 اس بےچینی کے بطن سے جنم لینے والے نئے ملک گیر سیاسی محاذ کا جو اب تک کا خاکہ سامنے آرہاہے اس کے دو پہلو عبرت کے اسباق ہیں: 
 ۱۔ یہ سیاسی محاذ کانگریسیت سے متاثر نہیں ہوگا، یہی وجہ ہیکہ کانگریس کی مرکزی قیادت اس نئے سیاسی محاذ میں دلچسپی نہیں لے رہی، یا یوں کہہ لیجیے کہ سالہاسال بھارت کی گدی پر حکومت کرنے والوں کو اب خاطر میں نہیں لایا جاتاہے 
۲۔ اس سیاسی محاذ میں مسلمانوں کو گنتی میں بھی نہیں لیا جارہاہے 
 
 کیونکہ کانگریس کےساتھ ساتھ مسلمانوں کا بھی سیاسی وزن دفن ہوتا جارہاہے یہ سامنے کی حقیقت ہے، آپ خواہ اسے ابھی تسلیم نا کریں لیکن تسلیم کرنا پڑےگا 
غیرمسلموں نے گزشتہ ساٹھ سالہ کانگریسی عہد کو مسلمانوں کی حکومت کے طورپر دیکھا ہے، ان کا تو کہنا ہےکہ پچھلے ساٹھ سال ملاؤں کی حکومت رہی ہے، اب ہماری باری آئی ہے 
اب حال یہ ہیکہ، کانگریس تو اپنے وجود کو بچانے میں جٹی ہوئی ہے اور مسلمان چوراہے پر کنفیوژ کھڑا ہے 
کیونکہ کانگریس کے وہ درمیانی ہرکارے جو مسلمانوں کو کانگریسی پلّو میں باندھے رہتےتھے وہ ہرکارے اب غائب ہوگئےہیں، اور گزشتہ سالہاسال سے انہی ہرکاروں کی داڑھی ٹوپی سمیت کانگریسی سرکاری اسٹیج پر موجودگی کانگریس کو مسلمانوں کی سرکار شمار کراتی تھی 
بھولے بھالے مسلمان مطمئن ہوتے تھے اور ہندو عوام پیچ و تاب کھاتی تھی 
 اب جب بھاجپا کا عہد آیا ہے تو وہ لوگ جنہوں نے کانگریس کا مسلمانی کرن کیا ہوا تھا اور مسلمانوں کو کانگریسی بنائے رکھاتھا وہ لوگ یا تو غائب ہوگئے ہیں یا سَنگھ کے دامن میں پناہ لے رہےہیں، اور بیچاری مسلم۔عوام حالات اور ظالموں کے رحم و کرم پر ہے

 یہ لوگ ایمان لائے ہوئے تھے کہ بھارت سے کانگریسی سرکار کا خاتمہ ہو نہیں سکتا، اسلیئے انہوں نے گزشتہ ساٹھ سالوں میں کانگریسی اہلِ اقتدار سے قریب رہ کر بھی صرف اپنے نجی کام کروائے، اپنی جیبیں بھریں اور زیادہ سے زیادہ یہ کیا کہ اپنے غلط کاموں کو کانگریسی سسٹم کی مدد سے چھپاتے اور چلاتے رہے 
 لیکن جب سَنگھی عہد آیا، ہے تو وہی سارے کاموں کا ریکارڈ قدیم فائلوں سے باہر آکر رہنماﺅں کے لیے ڈراؤنے خواب کی طرح ہوگیاہے 
ائے کاش کہ ہمارے رہنماﺅں نے کانگریس کے عوامی بھاشن باز سیاستدانوں کےساتھ وی آئی پی سطح پر چکاچوند سیاسی گلیاروں میں اپنی طاقت کی نمائش کے لیے فوٹو سیشن کرانے اور ذاتی مراعات حاصل کرنے کی بجائے، اپنے کچھ لوگوں کو بھارتی سسٹم میں داخل کرنے کی کوشش کی ہوتی، سسٹم کے اندرون میں کچھ رسائی حاصل کرنے کی جدوجہد کی ہوتی تو آج ان کے ہاتھوں کے طوطے نہ اڑتے،  انہیں آج آر ایس ایس تو کبھی امیت شاہ تو کبھی اجیت ڈوبھال کے پاس چکر نہیں لگانے پڑتے، ان کی زبانوں پر تالے نہیں لگتے ۔ 
 کوئی مانے یا نہ مانے لیکن تلخ حقیقت یہی ہیکہ ، بھارت میں گزشتہ ساٹھ سالہ کانگریسی اقتدار کہیں نہ کہیں مسلمانوں کی حکومت کے طورپر بھی معروف رہا، اب یہ اور بات ہےکہ مسلمانوں کے حصے کی ملائی قومی سطح پر تقسیم نہ ہوکر محض چند خاندانوں اور بےبصیرت رہمناؤں میں سمٹ کر رہ جاتی تھی 
اور اب جبکہ مسلمان اچانک علانیہ طورپر مودی کے اقتدار میں ہندوستان کا وِلن اور غدار قرار دیا جارہاہے، پارلیمنٹ، سے لیکر انصاف کے ایوانوں تک میں ناانصافی کا شکار ہے اور سڑکوں پر بھی مسلمان ٹارگٹ کیا جارہاہے، تو نئی نسل اس صورتحال سے مضطرب ہوکر انتہاپسندانہ ردعمل کی طرف گامزن ہے، اور ان کے اس جذبہء ردعمل کا بھی مسلمانوں کے بھیس میں موجود نئے سیاسی سوداگر بھرپور استحصال کررہےہیں، اور بالآخر انہیں ہندوستان جیسے ملک میں ایک ایسے سیاسی راستے کی طرف لے جارہےہیں جسے بھارتیہ جمہوریہ کی روشنی میں سیاسی خودکشی کا راستہ ہی کہا جائےگا 
 مصیبت یہ ہیکہ، سیاسی خودکشی کو بھانپنے والے مسلمانوں کے اندر بیداری اور شعور پیدا کرنے کے بجائے ان کےساتھ ایسا سلوک کرتےہیں کہ وہ نفسیاتی طورپر مزید ضدی ہوجاتےہیں، جبکہ یہ سمجھنا چاہیے کہ قوموں کو ردعمل اور انتہاءپسندی سے شعور اور سمجھداری کی جانب لانے کے لیے کاؤنسلنگ کی ضرورت ہوتی ہے ناکہ غصے سے لتھڑی ہوئی زبان کی۔
 مذکورہ سیاسی شخص نے مجھ سے یہی دو باتیں کہی، کہ، جو نیا سیاسی محاذ تعمیر ہورہاہے اس میں مسلمانوں کی بحیثیت کمیونٹی نمائندگی کچھ نہیں ہے اور نا کوئی مسلمانوں کے ووٹ بینک کو ہی ایجنڈے میں لاتا ہے، کیونکہ بھارت میں اب کوئی بھی ایسی مسلم شخصیت نہیں بچی ہے جس کے ہاتھ میں مسلم ووٹ بینک متحد ہو۔
کیونکہ تمہاری سرکار تو پچھلے کئی دہائیوں پر مشتمل رہی، اب اگر تمہارے لوگ اتنے بڑے دورانیے میں بھی اپنا کوئی سیاسی سیٹ اپ تیار نہیں کرسکے تو اس میں دوسروں کو کوسنے کا کیا مطلب ہے؟ اور اب تمہارے لوگ جو سیاسی راستہ اختیار کررہےہیں اس کے نتیجے میں تم کو کیا ملےگا؟  کچھ سیٹیں مل جائیں گی لیکن کسی بھی صوبے کے اقتدار یا سسٹم میں کوئی حصہ نہیں ملےگا ۔
 سچ کہا ہے، آج سیاسی طورپر مسلمانوں سے زیادہ بےوزن کوئی نہیں ہے، اور یہ جو بڑے بڑے لیڈر ٹائپ کے گھاگ جو آکر یہ کہتےہیں نا کہ سیاست میں مت الجھو، یقین جانیے کہ وہ سب سے زیادہ یقینی طورپر یہ مانتے ہیں کہ بھارت میں پاور، طاقت اور خودمختاری کا اسبابی راستہ پولیٹیکل پاور ہی ہے

 آج ان پرانے لیڈروں کو چاہیے تھا کہ وہ ملک کی اپوزیشن کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتے لیکن وہ جسطرح کانگریسی عہد میں گردن اکڑاتے ہوئے مدہوش تھے ویسے ہی سَنگھی دور میں گھبراہٹ سے بیہوش ہیں، اور قوم،،،،، قوم نہ انہیں کل پیاری تھی نہ آج انہیں قوم اور ملت سے ہمدردی ہے 
یہی بھارتی مسلمانوں کی سیاسی سچائی ہے، 
 کاش کہ مسلمانوں کی سیاسی افراتفری اور بے وزنی کو ختم کرنے کی کوئی شکل پیدا ہوسکے، ملت کی سیاسی طاقت کو منظم کیا جاسکے اور وہ سیاسی خودکشی سے بچ جائیں _

: سمیع اللّٰہ خان
ksamikhann@gmail.com