Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, July 2, 2021

زبردستی مذہب کو بدلوانا ممکن ہے نہ دبانا _*



از۔۔ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی۔۔صدائے وقت۔
====================================
        ایک عشرہ قبل اچانک شور اٹھا کہ دو ایسے ' آتنکیوں' کو دھر دبوچا گیا ہے جو گونگے بہرے ، بھولے بھالے ، لڑکوں اور لڑکیوں کا مذہب بدلواکر انہیں مسلمان بنایا کرتے تھے _ اترپردیش پولیس نے ڈاکٹر عمر گوتم اور مفتی جہاں گیر قاسمی کو گرفتار کرکے ان پر الزام لگایا کہ انھوں نے تبدیلئ مذہب کا بہت بڑا جال بچھا رکھا تھا ، جس میں بڑی عیّاری سے معصوموں کو پھنسایا کرتے تھے _ مختلف دفعات کے تحت ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی _ چوں کہ ریاست میں کچھ عرصہ کے بعد اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں ، اس لیے ریاستی حکم رانوں کو  فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کا ایک زرّیں موقع ہاتھ آگیا _  انھوں نے اسے ایک بہت بڑے ریکٹ کی شکل دے دی اور پولیس کو حکم دیا کہ وہ گینگسٹر اور دوسری سخت دفعات لگاکر ان کے خلاف کارروائی کرے _
  
          ملک کے دستور (دفعہ 25) میں عقیدہ اور مذہب کی آزادی دی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ کوئی بھی شہری اپنی آزاد مرضی سے کوئی بھی مذہب قبول کرسکتا ہے اور اپنا سابقہ مذہب تبدیل کرسکتا ہے _ اس بنا پر اس الزام میں کچھ دَم نہ تھا ، چنانچہ گرفتار شدگان پر دوسرے بہت سے الزامات بھی عائد کردیے گئے ، مثلاً یہ کہ وہ لوگوں کا مذہب بدلوانے میں زور زبردستی سے کام لیا کرتے تھے ، یا انہیں مالی لالچ دیا کرتے تھے ، یا لڑکیوں کی شادی کروادیا کرتے تھے _ یہ بھی کہا گیا کہ انھوں نے مختلف ممالک کا دورہ کرکے 'دھرم پریورتن' کے لیے بہت فنڈز جمع کیے ہیں _ دس روز ہونے کو ہیں ، ملزموں کو پولیس کسٹڈی میں رکھ کر ان پر قبولِ جرم کا دباؤ بنانے کے لیے مزید ریمانڈ حاصل کرلیا گیا ہے ، ان کے گھروں سے دستاویزات برآمد ہونے کی بات کہی جا رہی ہے _ مختلف جگہوں پر چھاپے مارے جارہے ہیں _ ان مردوں اور عورتوں سے پوچھ گچھ کی جارہی ہے جنھوں نے گزشتہ کچھ عرصے میں اسلام قبول کیا تھا اور قبولِ اسلام سے قبل یا بعد میں عمر گوتم صاحب سے ملاقات کرکے ان سے دستاویزات بنوانے میں مدد حاصل کی تھی _ ہیلپ لائن نمبر اور ای میل آئی ڈی جاری کی گئی ہے ، تاکہ ان پر وہ لوگ رابطہ کرسکیں جنھیں زبردستی تبدیلئ مذہب کا شکار بنایا گیا ، مگر دل چسپ بات یہ ہے کہ ایک بھی مرد ، عورت ، نوجوان یا دوشیزہ سامنے نہیں آئی ہے جس نے یہ کہا ہو کہ اس پر مذہب بدلنے کے لیے زبردستی کی گئی ، یا کسی چیز کا لالچ دیا گیا ، بلکہ سوشل میڈیا پر بہت سے ایسے نوجوانوں اور دوشیزاؤں کے ویڈیوز وائرل ہورہے ہیں ، جن میں انھوں نے صاف الفاظ میں گواہی دی ہے کہ اسلام قبول کرنے کا فیصلہ ان کا اپنا ہے _  وہ اپنے رابطہ میں آنے والے بعض مسلمانوں کے کردار اور اخلاق سے متاثر ہوئے ، یا انھوں نے اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرنے کے بعد سوچ سمجھ کر اسلام قبول کیا  ہے _ بعد میں انھیں تبدیلئ مذہب کے سلسلے کے کاغذات بنوانے کی ضرورت محسوس ہوئی تو انھوں نے عمر گوتم صاحب سے رابطہ کیا تھا ، جنھوں نے اس معاملے میں ان کی مدد کی تھی _

         بعض واقعات بہ ظاہر ناپسندیدہ یا تکلیف دہ ہوتے ہیں ، لیکن مشیّتِ الٰہی سے ان میں بہت کچھ خیر پوشیدہ ہوتا ہے _ یہ اللہ تعالیٰ کی سنّت ہے ، جو زمانۂ قدیم سے جاری ہے _  اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : " ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو ، مگر اللہ نے اُسی میں بہت کچھ بَھلائی رکھ دی ہو ۔"
( النساء :19) ڈاکٹر عمر گوتم اور ان کے رفیق کی گرفتاری ان تمام لوگوں کے لیے تکلیف دہ ہے جو انہیں بے قصور اور ان پر لگائے جانے والے الزامات کو بے بنیاد سمجھتے ہیں  _ لیکن اس میں خیر کا پہلو یہ ہے کہ تبدیلئ مذہب کا موضوع اس وقت پورے ملک میں چھا گیا ہے ، اس پر مباحثہ و مذاکرہ جاری ہے ، ٹی وی ڈبیٹس ہو رہے ہیں ، اربابِ دانش اس پر اظہارِ خیال کررہے ہیں اور جو نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اپنے مذہب سے مطمئن نہیں ہیں ، یا اسلامی تعلیمات سے متاثر ہیں انہیں معلوم ہوگیا ہے کہ کیسے اسلام قبول کیا جاسکتا ہے _

      حیرت ہے کہ بہ جبر تبدیلئ مذہب کا الزام وہ لوگ لگاتے ہیں جن کی قدیم تاریخ ان کے جور و ستم سے بھری ہوئی ہے ، جنھوں نے اپنے عہدِ عروج میں  مذہبی اقلیتوں پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے ہیں اور زور زبردستی لاکھوں انسانوں کا مذہب بدلوایا ہے اور جو اس پر تیار نہیں ہوئے انہیں زندہ رہنے کے حق سے محروم کیا ہے _ اور یہ الزام ان لوگوں پر لگایا جارہا ہے جن کا مذہب عقیدہ و مذہب کی آزادی کا زبردست حامی ہے اور زور زبردستی مذہب بدلوانے سے سختی سے منع کرتا ہے _

          قرآن مجید میں ہے : " دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے ۔ صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے ۔ ( البقرۃ :256) اللہ نے اپنے پیغمبر کو زبردستی مذہب قبول کروانے سے سختی سے منع کیا ہے : " اگر تیرے ربّ کی مشیّت یہ ہوتی ( کہ زمین میں سب مومن و فرماں بردار ہی ہوں) تو سارے اہلِ زمین ایمان لے آئے ہوتے ۔ پھر کیا تُو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن ہو جائیں؟"(یونس :99) جو لوگ دل سے ایمان نہ لائیں ، اسلام کی نظر میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ، بلکہ وہ انہیں سخت مبغوض قرار دیتا ہے _ انہیں 'منافقین' کہا گیا ہے اور انہیں جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہونے کی وعید سنائی گئی ہے _ ان بنیادی تعلیمات کے ہوتے ہوئے اسلام کو ماننے والے دیگر مذاہب والوں کو کیوں کر زور زبردستی اپنے مذہب میں شامل کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں؟

      اسلام دعوت و تبلیغ کا مذہب ہے _ ہر مسلمان مشنری جذبہ رکھتا ہے _ اس کا مذہب اس پر لازم کرتا ہے اور وہ اپنی ذمے داری سمجھتا ہے کہ وہ جس حق کا حامل ہے اسے دوسرے تمام انسانوں تک پہنچادے _ اگر وہ یہ کام کردے تو اس کا فرض ادا ہوگیا ، اب چاہے دوسرے اس کی بات مانیں یا نہ مانیں ، وہ باطل عقائد اور اوہام و خرافات سے کنارہ کش ہوں یا نہ ہوں ، حق کو قبول کریں یا نہ کریں ، یہ ان کا مسئلہ ہے ، انہیں اس کی آزادی حاصل ہے _ جو مسلمان دعوت و تبلیغ کا یہ کام انجام دے رہے ہیں وہ انتہائی قابلِ مبارک باد ہیں _ اس راہ میں اگر وہ آزمائشوں سے دوچار ہوں گے تو بارگاہِ الٰہی میں اس کا بھرپور بدلہ پائیں گے _ جو مسلمان یہ کام نہیں کررہے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ سے اس کی توفیق طلب کرنی چاہیے _
 
      ایک بات یہ بھی توجہ طلب ہے کہ اسلامی تعلیمات اپنے اندر بے انتہا کشش رکھتی ہیں _ مثلاً اس کی مساوات کی تعلیم ان لوگوں کو بے حد متاثر کرتی ہے جن میں ذات پات کی بنیاد پر انسانوں کے درمیان تقسیم روا رکھی گئی ہے اور کچھ انسانی طبقات کے ساتھ صدیوں تک جانوروں جیسا سلوک کیا گیا اور اب بھی اس رویّے میں تبدیلی نہیں آئی ہے _ اسلام نے خواتین کو ماں ، بہن ، بیوی ، بیٹی ، ہر حیثیت میں بلند مقام دیا ہے _ اس کی یہ تعلیمات ان عورتوں اور لڑکیوں کو بہت زیادہ بھلی معلوم ہوتی ہیں جن کے مذہب میں عورتوں کو حقیر سمجھا گیا ہے اور مردوں سے کم تر حیثیت دی گئی ہے _ اس لیے اگر کچھ لوگ ، خواہ وہ مرد ہوں یا خواتین ، اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہوکر اس کی طرف لپکتے ہیں اور اپنی آزاد مرضی سے اسے قبول کرتے ہیں تو انہیں اس کا حق حاصل ہے _  انہیں اس حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا _

         آخری بات یہ کہ کسی بھی مذہب کو اور خاص طور پر اسلام کو زور زبردستی دبانا ممکن نہیں _ یہ بات ان لوگوں کو اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے جو طاقت و قوت ، جاہ و اقتدار یا مال و دولت کے نشے میں چور ہیں _ اِس واقعہ نے ظاہر کردیا ہے کہ جن نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں نے اسلام قبول کیا ہے ان میں استقامت پائی جاتی ہے _ وہ کسی دھونس اور دھمکی سے ڈرنے والے نہیں ہیں _ ان کے اندر دعوتی اور مشنری اسپرٹ پائی جاتی ہے _ ان کی وجہ سے اس ملک میں اسلام کا مستقبل روشن ہے _ جتنا اسے دبانے کی کوشش کی جائے گا ، اتنا ہی وہ ابھرے گا ، ان شاء اللہ _