Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, August 10, 2021

اتر پردیش کی نئی آبادی پالیسی ‏۔۔۔۔۔

                           تحریر
مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑ کھنڈ۔
                          صدائے وقت۔
+++++++++++++++++++++++++++++++++++
 عالمی یوم آبادی کے موقع سے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے 2030-2021کے لیے نئی آبادی پالیسی کا اعلان کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ سماج میں غربت کا تعلق آبادی کے اضافہ سے ہے اور بڑھتی ہوئی آبادی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ اس نئی پالیسی میں دو سے زیادہ بچہ پیدا کرنے والے کو سرکاری نوکری ، سرکاری منصوبوں ، بلدیاتی انتخاب لڑنے اور ملازمت میں ترقی سے محروم کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ یہ قانون یوپی سرکار ایسے وقت لائی ہے، جب فیملی ہیلتھ سروے 5کے اعداد وشمار کے مطابق آبادی بڑھنے کی رفتار  ہندوستان میں گھٹی ہے۔
یوگی آدتیہ ناتھ اعلان کرتے وقت یہ بھول گیے کہ اگر ان کے والدین نے "دو یا تین بچے ہوتے ہیں گھر میں اچھے" پر عمل کر لیا ہوتا تو آج اس دنیا میں نہ یوگی جی ہوتے اور نہ ہی دہلی کی گدی پر قابض لوگ نظر آتے، ملک کو گاندھی جی بھی نہیں ملتے۔ اس لیے یہ پالیسی ہی غلط ہے، چین نے پہلے ایک ہی بچہ کا قانون بنا رکھا تھا، لیکن افرادی قوت کم ہوئی تو دو بچے پیدا کرنے کی اجازت دی اور ابھی حال میں اس نے تین بچے تک کا قانون پاس کر دیا ہے اب وہاں کے شہری ہی اس سے انکار کرتے ہیں اور حکومت مخمصے میں پھنسی ہوئی ہے ۔

 اصل میں آبادی پر کنٹرول کا خیال پوری دنیا میں  خوف کی اس نفسیات کی وجہ سے  ہے کہ زیادہ بچے ہوں گے تو کھائیں گے کیا، لوگ غریب سے غریب ہوتے جائیں گے ، اور ترقیاتی کاموں پر اثر پڑے گا ، یہ خوف اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنے رزق کا تعلق وسائل سے جوڑتے ہیں، اور خالق پرہمیں یقین نہیں ہے ، حالاں کہ اللہ رب العزت جب کسی بچے بچی کو دنیا مین بھیجتا ہے تو اسے ایک پیٹ ہی نہیں دو ہاتھ کام کرنے کے لیے اور  دماغ سوچنے کے لیے دے کر بھیجتا ہے ، تاکہ وہ اپنا رزق حاصل کر سکے، جہاں تک وسائل کا تعلق ہے تو اللہ رب العزت امکانات میں اس قدر توسع کرتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے، پہلے ایک ہی فصل ہوا کرتی تھی ، اور پیداوار کی مقدار بھی کم ہوتی تھی، لیکن اب ہم کئی کئی فصلیں اگاتے ہیں اور پیداوار کی شرح بھی پہلے سے تین گنا زیادہ ہے، آبادی بڑھی تو رزق کا انتظام اللہ نے کر دیا ، پہلے ایک منزلہ مکان کاہی تصور تھا وہ بھی پھوس کا اور خستہ حال، لیکن آؓبادی بڑھی تو اللہ نے  کثیر منزلہ عمارت کا خیال  لوگوں کےذہن میں ڈالا اور اب سو سو منزل کی عمارتیں بن  رہی ہیں  ، آؓبادی کے بڑھنےسے ترقی رکی نہیں ، بلکہ ترقیاتی کاموں میں اضافہ ہوا، پہلے مکانات خشک زمین پر ہی بنائے جاتے تھے ، اب سمندر پر بھی مکانات بن رہے ہیں، اور پہاڑ کے سینے کو چیر کر بھی رہائش کی جگہ بنائی جا رہی ہے ۔
 ان چند مثالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ترقیاتی کاموں میں رکاوٹ اور غربت کا کوئی تعلق  بڑھتی ہوئی آبادی سے نہیں ہے، بلکہ اگر ہم نے آبادی پر کنٹرول کا منصوبہ نافذ کیا تو افرادی قوت کے کم ہونے کی وجہ سے ترقیاتی کاموں پر اثر پڑے گا، اس مشینی دور میں بھی بٹن دبا نے اور مشینوں کو کنٹرول کرنے کے لیے انسانوں کی ضرورت پڑتی ہے، بچے پیدا نہ ہوں گے تو افراد کہاں سے آئیں گے۔

 اسی لیے اسلام نے اس بات پر زور دیا کہ رزق کا مالک اللہ ہے اور تم تنگی معاش کے ڈر سے بچوں کا قتل نہ کرو، ہم تمہیں بھی کھلاتے ہیں ، انہیں بھی کھلائیں گے، یہ وہ عقیدہ ہے جو انسان کو معاشی تنگی کے خوف کی نفسیات سے نکالتا ہے، کاش یہ بات یوگی آدتیہ ناتھ کی سمجھ میں آجاتی۔