Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, September 17, 2021

آئیندہ تین دہائیوں میں 21.6 کروڑ لوگ ہونگے نقل مکانی کو مجبور ‏. ‏. ‏. ‏ایک ‏ رپورٹ ‏. ‏

 

اگلے دس سالوں میں ہی شروع ہوسکتا ہے ملکوں میں اندرونی نقل مکانی  کا سلسلہ 
              رپورٹ: نشانت سکسینہ 
             ترجمہ: محمد علی نعیم 
                      صدائے وقت. 
========) =========) ===) =====
ورلڈ بینک کے ذریعے آج جاری کردہ گراؤنڈ ویل رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عالمی سطح پر کلائمیٹ چینج لوگوں کی نقل مکانی کا ایک بڑا سبب بنتا جارہا ہے. صورتحال کے سنگینی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ سال 2050 تک دنیا کے مختلف علاقوں میں رہائش پذیر21 کروڑ ساٹھ لاکھ لوگوں کو کلائمیٹ چینج اپنے اپنے ملکوں سے ہجرت پر مجبور کرسکتا ہے حالانکہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے اندرونی نقل مکانی کا سلسلہ 2030 میں ہی شروع ہوسکتا ہے جس کے 2050 تک جاری رہنے اور مزید شدید ہونے کا‌اندازہ ہے. رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر عالمی سطح پر آلودگی پھیلانے والی چیزوں کے اخراج کو کم کرنے کے لئےفوری اور منظم اقدامات کئے جائیں نیز آلودگی سے پاک اور پائیدار ترقی کو فروغ دیا جائے تو موسمیاتی تبدیلی کی بناء پر ہونے والی یہ نقل مکانی تقریبا 80 فیصد تک کم کی جاسکتی ہے 
‌کلائمیٹ چینج اندرونی نقل مکانی کے ایک بنیادی سبب کے طور پر ابھرا ہے کیونکہ سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں لوگوں کی روزی روٹی اور جانی نقصان کی شکل میں اسکا اثر اور بھی واضح طور نظر آنے لگا ہے. اسی کے سبب سال 2050 تک نیم صحرائے افریقہ میں 8.6 کروڑ لوگوں کی اندرونی نقل مکانی کا قوی اندیشہ ہے اسکے علاوہ مشرقی ایشیا اور پیسفک میں 4.9 کروڑ ، جنوبی ایشیا میں 4 کروڑ ، شمالی افریقہ میں 1.9 کروڑ ، لاطینی امریکہ میں 1.7 کروڑ اور مشرقی یورپ اور وسطی ایشیا میں 50 لاکھ افراد کے ذریعے اندرونی طور پر نقل مکانی کا اندیشہ ہے  
‌ورلڈ بینک میں شعبہ سسٹینیبل ڈویلپمنٹ کے نائب صدر یرگن ووگل نے کہا کہ ”گراؤنڈ ویل رپورٹ انسانوں کے کلائمیٹ چینج کی بھینٹ چڑھنے کے سلسلے میں خطرے کی گھنٹی ہے خاص طور پر ان غریب ممالک کے لئے جنکا موسمیات کو خراب کرنے میں سب سے کم حصہ داری ہے، یہ رپورٹ واضح طور پر دنیا کے تمام ممالک کے لئے ان اہم مسائل کے ازالے کا راستہ بھی بتاتی ہے جن کی وجہ سے کلائمیٹ چینج بے گھر ہونے یا نقل مکانی کا باعث بن رہا ہے، یہ تمام مسائل بنیادی طور پر آپس میں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ملکوں کے ساتھ ہمارا تعاون زیادہ پائیدار ، محفوظ اور بھروسے کے قابل مستقبل کی تعمیر کے ساتھ ساتھ کلائمیٹ چینج اور ترقی کے مسائل پر ایک ساتھ کام کرنے پر مرکوز ہے.
‌اس نئی رپورٹ میں دنیا کے تین خطوں مشرقی ایشیا اور پیسیفک، شمالی افریقہ اور مشرقی یورپ نیز وسطی ایشیا کے لیے تجزیہ اور پیشن گوئیاں ہیں، رپورٹ میں ورلڈ بینک کے ذریعے 2018 میں جاری کی گئی سابقہ گراؤنڈ ویل رپورٹ میں اپنائے گئے جدید اور نمایاں ماڈلنگ کے رویے کو آگے بڑھایا گیا ہے 
‌منظرنامے پر مبنی نقطہ نظر کو اختیار کرتے ہوئے یہ رپورٹ مستقبل کے ان ممکنہ نتائج کی تلاش کرتی ہے جنکے ذریعے فیصلہ سازوں کو منصوبہ بندی میں معاونت مل سکے ،یہ رویہ ہمارے لئے کلائمیٹ چینج کی بنیاد پر اندرونی نقل مکانی کے بڑے علاقوں کی نشاندہی کرنے میں معاون ہوگا جیسے وہ علاقے جہاں آبی قلت ، زرعی پیداوار میں کمی اور سمندری سطح میں اضافے کی بنا پر لوگوں کی نقل مکانی کا امکان ہے، اس کے علاوہ ان شہری اور دیہی علاقوں کی بھی نشاندہی ہوگی جو روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے لیے بہتر پوزیشن میں ہیں۔ 
‌یہ رپورٹ پالیسی تجاویز کی ایک سریز بھی پیش کرتی ہے جن کی مدد سے ان عوامل کو سست کرنے میں مدد مل سکتی ہیں جو کلائمیٹ چینج کی بنیاد پر نقل مکانی کا باعث بنتے ہیں۔ ساتھ ہی ہمیں متوقع نقل مکانی کے اثرات کے لیے تیار بھی کرتی ہیں 
‌تجاویز درج ذیل ہیں 
‌(الف) عالمی اخراج کو کم کرنے اور درجہ حرارت کو پیرس معاہدے کے تحت متعین مقدار تک محدود رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرنا۔ 
‌(ب) انٹرنل کلائمیٹ مائیگریشن کو بہترین، سبز ، لچکدار اور جامع ترقی میں منتقل کرنا۔
‌(ت) نقل مکانی کے ہر مرحلے کے لیے تیاری کریں تاکہ کلائمیٹ چینج کی بنیاد پر اندرونی نقل مکانی کے مثبت ترقیاتی نتائج مرتب ہو 
‌(ث) اچھی طرح سے ٹارگٹڈ پالیسیوں میں استعمال کے لئے انٹرنل کلائمیٹ مائیگریشن کے اسباب کی بہتر تفہیم پیدا کرنے میں سرمایہ کاری کریں 
‌پاور شفٹ افریقہ کے مینجر محمد ایڈو نے کہا کہ کلائمیٹ چینج ہمارے وقت کا سب سے بڑا اخلاقی سوال ہے، دنیا کے امیر ترین ممالک کی شکل میں سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے والے ملکوں کی حرکتوں کی وجہ سے دنیا کے جنوبی حصے کے لوگ بہت تکلیف میں ہیں، عالمی سطح پر اس سے زیادہ واضح اور صاف کوئی دوسرا مسئلہ نظر نہیں آرہا ہے یہ کلائمیٹ بحران کی سب سے سنگین شکل ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمیں ان مسائل کو نظر انداز کرنے کی بجائے ان کا مناسب حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
‌کلائمیٹ چینجز کی بنیاد پر لوگوں کی نقل مکانی کو ان امیر ممالک کے لئے سیکورٹی کے مسئلے کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے جنہوں نے اس بحران کو مزید بڑھانے میں مدد کی ہے لیکن یہ ان لوگوں کے لیے ایک سنگین بحران ہے جو بے گھر ہونے پر مجبور ہوں گے ، جس کی وجہ سےلوگوں کو اپنی زندگیوں ،گھروں اور روزگار سے ہاتھ دھونا پڑے گا، یہی وجہ ہے کہ کلائمیٹ مائیگریشن کے بارے میں ہمارا ردعمل لوگوں پر مرکوز ہونا چاہیے اور ان لوگوں کا خیال رکھنا چاہیے جو اس بحران سے بچنے کے لیے خوش قسمت ہیں ، بجائے اس کے کہ انھیں سیکیورٹی کا مسئلہ سمجھیں اور اسی کے مطابق برتاؤ کریں ۔
‌ٹرانس نیشنل انسٹی ٹیوٹ میں شمالی افریقہ کے پروگرام کوآرڈینیٹر حمزہ ہموچن نے کہا کہ انسانی بنیادوں پر پیدا شدہ کلائمیٹ چینج امریکہ سمیت گلوبل ساؤتھ کے مختلف حصوں میں پہلے ہی ایک حقیقت بن کر سامنے آیا ہے، اس سے خطے میں زندگی کی سماجی ، معاشی اور ماحولیاتی بنیادوں کو نقصان پہنچ رہا ہے، گزشتہ کچھ سالوں کے دوران ہم نے محنت کش لوگوں کے روزگار پر اس کے سنگین اثرات دیکھے ہیں، اس کے علاوہ زمینوں کی ویرانی، طویل خشک سالی ، بار بار ہیٹ ویوز اور زرخیز زمین سمندری پانی کا دخل جیسے اثرات بھی نظر آرہے ہیں ، حال ہی میں الجیریا اور تیونس کے جنگلات میں لگنے والی تباہ کن آگ کلائمیٹ چینج کے خطرناک اثرات کی ایک اور مثال ہے، کلائمیٹ بحران کی بنیادی ذمہ داری گلوبل نارتھ کےصنعتی ممالک پر عائد ہوتی ہے۔ اس بحران کا مساویانہ اور منصفانہ راستے سے حل نکالا جانا چاہئے ، اس دوران علاقوں اور ملکوں کے درمیان مختلف ذمہ داریوں اور خطرات کا بھی خیال رکھا جانا چاہیے، کلائمیٹ اور ماحولیات سے متعلق تقاضوں کی ادائیگی سمیت بھرپائی کے ایجنڈے کے ساتھ ساتھ ہمیں اس مسئلے کو سیکورٹی اور فوجی مسائل سے علیحدہ رکھنا چاہئے کیونکہ یہ دونوں مہلک کارروائیاں پسماندہ غریب لوگوں کی قیمت پر کی جائیں گی، لہذا کسی جگہ جانے ، وہاں رہنے اور وہاں سے لوٹنے کے حق کو اس ایجنڈے کے مرکز میں رکھنے کی ضرورت ہے۔  
‌350.او آر جی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مے بووے نے کہا کہ کلائمیٹ چینج کی وجہ سے نقل مکانی ہماری زندگی کا سب سے بڑا انسانی حقوق سے متعلقہ چیلنج بننے والا ہے اور اسے نومبر میں اقوام متحدہ کے کلائمیٹ سمٹ  کے ایجنڈے میں شامل نہ کیا جانا قابل قبول نہیں ہے، دنیا آتش فشاں ہے لہذا یہ ضروری ہے کہ ہم جیواشم ایندھن کا استعمال بند کردیں تاکہ ہم کلائمیٹ چینج کے اثرات اور آلودگی پھیلانے والے عناصر کے اخراج کو کم کرنے میں کامیاب ہوسکیں، اس کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ ہم کلائمیٹ چینج کی وجہ سے اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور لوگوں کے لئے فوری اقدامات کرتے ہوئے ایک نظام تیار کریں جو تاکہ لوگوں کو محفوظ راستے مل سکیں،ایسا اس لئے ہے کہ نقل مکانی کو کلائمیٹ بحران کے مناسب حل کے ایک حصے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے
کلائمیٹ اینڈ مائیگریشن کوآلیشن کے ایلیکس رینڈل نے کہا کہ اس رپورٹ نے یہ بات بالکل واضح کر دی ہے کہ کلائمیٹ چینج میں نقل مکانی کی نوعیت اور پیٹرن کو تبدیل کرنے کی طاقت ہے۔اس سے متعلق پریشانی اب دور نہیں رہ گئی ہے۔ ابھی یہ کروڑوں لوگوں کے لیے ایک زندہ حقیقت بن چکا ہے، ہمیں کلائمیٹ چینج کی وجہ سے دوسرے مقامات پر نقل مکانی کرنے والے لوگوں کے حقوق ، فلاح و بہبود اور معاش کے تحفظ کے لیے منصوبہ بندی کرنا ہی ہوگی ،بہت سے لوگوں کے لئے نقل مکانی تیزی سے ہورہے کلائمیٹ چینج کے لیے بہترین حکمت عملی بن رہی ہے۔
انہوں نے کہا ، "یہ ہمیشہ سے رہا ہے کہ جن کمیونٹیوں کی تاریخ استحصال ، انتہائی غربت ، تنازعات اور امتیازی سلوک سے بھری ہوئی ہے ، انہیں کو موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہونے کا سب سے زیادہ خطرہ ہے، ان پیچیدہ باہمی تعلقات کے مدنظر بہترین حل وہ ہی ہے جسمیں ہمیشہ کی طرح نقل مکانی کی وجوہات سے قطع نظر کرتے ہوئے تمام بے گھر اور پناہ گزینوں کے حقوق اور فلاح و بہبود پر توجہ مرکوز ہو
کلائمیٹ کی ہنگامی صورتحال خطے کی کمزور کمیونٹیوں کو درپیش سب سے بڑا سیکورٹی خطرہ ہے، کوویڈ 19 وبائی بیماری نے متعدد لوگوں کو اپنے گھروں کو چھوڑنے یا کورونا کے خطرے کا خود سامنے کرنے میں سے کسی ایک متبادل کو منتخب کرنے پر مجبور کیا ہے
  
خطرات کے باوجود ، زیادہ سے زیادہ لوگ ہر روز اپنی سرحدیں پار کرنے کا انتخاب کر رہے ہیں کیونکہ ان کے پاس کوئی اور آپشن نہیں ہے، یہ وقت کی ضرورت ہے کہ فوری طور پر ایک عالمی سیاسی قرارداد پیش کی جائے جس کے ذریعے کلائمیٹ چینج کی وجہ سے پیدا شدہ نقل مکانی سے نمٹا جا سکے ، اسمیں حقوق پر مبنی ایکشن پلان کا رویہ ہو جو کلائمیٹ چینج اور کورونا جیسی آفات کے بدترین اثرات کا سامنا کرنے والے لوگوں کی فلاح و بہبود پر مرکوز ہو ، اس سلسلے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا ہے