Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, September 17, 2021

مولانا محمد ابصار الحق قاسمی ؒ ‏

                     تحریر 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف ، پٹنہ. 
                     صدائے وقت 
+++++++++++++++++++++++++++++
 المعہد الاسلامی رجنیا، ڈومین  پورہ ، مئو، تحفیظ القرآن حقیقت پور، عائشہ گرلس اسکول، اعظمی اسپتال مئو وکالونی غالب پور، دانش کدہ لائبریری (جدید) اور سینکڑوں مساجد کے معمار حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی بڑے مولانا کے شاگرد رشید الحاج حضرت مولانا محمد ابصار الحق قاسمی نے ۶؍ شوال المکرم ۱۴۴۲ھ مطابق ۱۹؍ مئی ۲۰۲۱ء بروز چہار شنبہ لکھنؤ کے ایک اسپتال میں داعیٔ اجل کو لبیک کہا ،نماز جنازہ مقامی امام عیدین مولانا مسیح الرحمن صاحب نے پڑھائی ، تدفین کے وقت آسمان پھوٹ پھوٹ کر رویا اور سخت بارش کے باوجود بھیگتے ہوئے اہل تعلق جنازہ میں شریک ہوئے، تدفین مولانا کے قائم کردہ ادارہ المعھد العالی الاسلامی آزاد نگرکی جامع مسجد کے باہر جانب جنوب عمل میں آئی، پس ماندگان میں اہلیہ کے علاوہ دو بیٹے سلمان اور ابو سلمہ ہیں۔
       مرحوم مولانا ابصار الحق قاسمی 

مولانا محمد ابصار الحق قاسمی بن حاجی اسرار الحق (م ۲۰۰۰ئ) بن احمد اللہ کی ولادت نوا پورہ مئو سابق ضلع اعظم گڈھ میں ۶؍ جون ۱۹۶۹ء کو ہوئی ، ابتدائی تعلیم کا آغاز دار العلوم مئو کی مرزا ہادی پورہ شاخ سے کیا اور یہیں سے عربک پرشین بورڈ الٰہ آباد کے ذریعہ منعقد منشی کے امتحان میں شرکت کرکے کامیابی حاصل کی ، منشی کے بعد انہوں نے حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی ؒ کی زیر سر پرستی انہیں کے قائم کردہ ادارہ مرقات العلوم میں داخل ہو کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ، بڑے مولانا علیہ الرحمۃ نے اس ادارہ کو تخصص فی الحدیث کے طلبہ کے لیے قائم کیا تھا، لیکن پھر یہ روایتی قسم کا مدرسہ ہو گیا اور عربی اول سے دورہ حدیث شریف تک کی تعلیم یہاں ہونے لگی ، مولانا محمد ابصار الحق قاسمی نے یہاں بڑے علماء اور خود حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی ؒ سے کسب فیض کیا ، دار العلوم دیو بندکے فیوض وبرکات کے حصول کے لیے دیو بند چلے گئے اور وہیں سے سند فضیلت حاصل کی۔ 
تدریسی زندگی کا آغاز دار العلوم مئو سے کیا ، لیکن معاشی تنگی اور مدرسہ کی جانب سے ملنے والی تنخواہ ان کی اور ان کے اہل وعیال کی کفالت کے لیے ناکافی تھی، اور دوسرا کوئی ذریعہ معاش نہیں تھا، حالاں کہ مئو کے بہت سارے علماء درس وتدریس کے بعد پاورلوم اور دوسرے تجارتی ذرائع سے اچھی خاصی معاشی یافت کرتے ہیں اور مطمئن رہتے ہیں، بلکہ بعض لوگوں کے بارے میں یقین سے میں یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ وہ تدریسی زندگی خدمت کے جذبہ سے اختیار کرتے ہیں، علم بھی باقی رہتا ہے اور دین کی خدمت بھی ہوتی ہے، شاید اسی وجہ سے وہاں تعلیم ہمارے وقت میںایک بجے دن تک ہوتی تھی، اور بقیہ اوقات معاشی تگ ودو کے لیے بچا لیا جاتا تھا ، چوں کہ میں نے دو رطالب علمی میں سات سال وہاں گذارے اور قریب سے وہاں کے علماء ، صلحاء کو دیکھا اس بنیاد پر میں یہ بات لکھنے میں حق بجانب ہوں۔ 
بات آگے نکل گئی بتانا یہ تھا کہ مولانا سے جو اللہ کو کام لینا تھا اس کی وجہ سے مولانا کی طبیعت ان غیر علمی کاموں کے ذریعہ معاش کے حصول پر آمادہ نہیں ہوئی اور ضروریات زندگی منہہ پھاڑے کھڑی تھی، چنانچہ مولانا نے چند سالوں کے لیے بیرون ملک جا کر روزی کمانے کا فیصلہ کر لیا، کوئی دس سال سعودی عرب میں معاشی مضبوطی کے لیے گذارے، اس محنت وجانفشانی کے نتیجے میں جب تنگی دور ہوئی اور فراخی کا دور شروع ہوا تو آپ نے وطن واپسی کا فیصلہ کیا؛ تاکہ وہ اپنے ہم وطنوں کے کام آسکیں، تعلیمی اور خدمت خلق کے اداروں کے ذریعہ علم کی روشنی پھیلا ئیں اور پریشان حال لوگوں کے کام آئیں، چنانچہ انہوں نے ۲۰۰۱ء میں نواپورہ میں المعہد الاسلامی کے نام سے ایک تعلیمی ادارہ قائم کیا، خاور پور میں مسجد ومکتب کی بنیاد ڈالی، مولانا سعید الرحمن اعظمی ندوی کی تحریک پر ۲۰۰۶ء میں مدرسہ تحفیظ القرآن ، ۲۰۰۸ء میں عائشہ گرلس اسکول ۲۰۰۷ء میں اعظمی اسپتال اور ۲۰۱۷ء میں اعظمی اسپتال کی نئی عمارت بنوائی اور کام شروع کیا۔
 مولانا نے غربت کی زندگی جی تھی اور اسے بر تا تھا، اس لیے ان کی توجہ خود کفیل معاشی نظام کی طرف رہی ، انہوں نے غربا اور ضرورت مندوں کو روزگار کے لیے رقم فراہم کرائی ، تاکہ وہ اپنا کاروبار شروع کر سکیں، انہوں نے بیواؤں اور غریب عورتوں کو سلائی مشین دی تاکہ وہ گھر میں مولانابیٹھ کر اپنی معاشی حالت کو درست کر سکیں، انہوں نے بہت سارے لوگوں میں گمٹی اور رکشہ ٹرالی تقسیم کیا، تاکہ وہ اپنا روزینہ حاصل کر سکیں۔
 مولانا کی نانی ہال بہار تھی، ان کے نانا کا نام محمد زکریا تھا جو جیودھا را نرکٹیا گنج کے رہنے والے تھے، ۱۹۹۷ء میں الحاج ارشاد احمد رنگی کی صاحب زادی سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے اور پوری زندگی کامیاب ازدواجی زندگی گذاری ۔
مولانا مرحوم سے میری صرف ایک ملاقات تھی، جو دس روز کو محیط تھی ، یہ ملاقات لندن میں ہوئی تھی ، ہم دونوں اپنے اپنے کام سے برطانیہ وارد ہوئے تھے، پہلی ملاقات مرکز ختم نبوت میں ہوئی ، پھر ہم لوگوں نے دس روز ساتھ ساتھ گذارا، اس درمیان میں نے انہیں مئو کے عہد رفتہ کی کہانی سنائی، میںنے انہیں بتایاکہ میری شعور وآگہی میں مئو کی تاریخ محفوظ ہے ، انگریزی میںہے، میں نے مولانا قاری ریاست علی بحیرہ آبادی، مولانا عبد اللطیف نعمانی ، مولانا حبیب الرحمن اعظمی عرف بڑے مولانا رحمہم اللہ دور دیکھا ہے ، کامریڈ خیر البشر اور مولوی عبد الباقی ، مولانا عبد اللطیف نعمانی کے صاحب زادہ مولانا حبیب الرحمن نعمانی رحمہم اللہ کی سیاست کا چشم دید گواہ ہوں، میں نے دانشکدہ مرحوم کا ذکر چھیڑا، جہاں کی اکثر کتابیں میرے مطالعہ سے گذرچکی تھیں۔میںنے مئو کی علمی وادبی فضا کا ذکر کیا، فضا بن فیضی کی شاعری اور ادبی بساط پر نو وارد ’’نکھار‘‘ کا تذکرہ کیا اور خود امیر حمزہ اعظمی کی ادارت میں نکلنے والے مجلیٰ اور اس کی شریک ادارت رہنے کا تذکرہ کیا، مولانا مشتاق احمد صاحب کی تقریر دلپذیر ، مولانا صفات اللہ صاحب ؒ کی خوش پوشاکی، مولانا انعام الحق صاحب، اور مولانا بدیع الزماں صاحب کی دور نظامت کے واقعات یادوں کے دریچے سے نکالا، میں نے انہیں یاددلایا کہ شادی کے بعد دلہن کے آنے کے بعدمئو میں ’’ست کورہ‘‘ کی رسم تھی اور میں نے مولانا سعید الرحمن صاحب کی شادی کا’’ست کورہ‘‘ کھایا تھا، یہ ہمارے یہاں بہار میں ’’کھیر کھلائی‘‘ کے طریقہ کی ایک رسم تھی جو ان دنوں رائج تھی، میں نے انہیں اہالیان مئو کے ذریعہ فراہم کرنے والی ’’چٹکی‘‘ (مشت برکت) کی بات بتائی، سینکڑوں کی تعداد میں درجہ حفظ اور عربی دوم تک کے بچوں کی گھریلو کفالت جسے ان دنوں جاگیر کہا جاتا تھا، روشناش کرایا، لیکن اب بہت سی قدریں وہاں کھو چکی ہیں، مولانا نے ان چیزوں کو غور سے سنا ان باتوں کی وجہ سے مولانا سے میری قربت بڑھ گئی اور کہنے لگے کہ آپ تو مئو کی ایک عہد کی تاریخ کو اپنے ذہن ودماغ میں سموئے ہوئے ہیں، ہم نے کئی ایسی مجلسیں مولانا انصار الحق مرحوم کے ساتھ کیں اور ’’لذیذ بود حکایت دراز تر گفتم‘‘ کے مصداق یہ مجلس طویل ہوتی رہی۔ 
میں نے محسوس کیا کہ مولانا مرحوم اپنے کاموں کے سلسلے میں انتہائی مخلص تھے ، اللہ رب العزت نے انہیں دوسروں کو قریب کرنے، اپنی بات رکھنے کا خصوصی سلیقہ عطا فرمایا تھا، جس کو جو کہہ دیتے وہ ان کے کاموں میں معاون ہوجاتا ہے، ان کی ذات میں خاص کشش تھی، انگریزی میں ایسے لوگوں کو ڈائنا مائک پرسن کہتے ہیں، اس سفر میں انہوں نے خصوصی طور پر مجھے مئو آنے اور اپنے کاموں کو قریب سے دیکھنے کی گذارش کی تھی ، لیکن ۲۰۱۸ء کے بعد جو کورونا کی وبا پھیلی اس نے آمد ورفت کو متاثر کیا اور میرا سفر مئو کا نہیں ہو سکا ، حالاں کہ اب وہاں میرے اساتذہ میں سے تو کوئی نہیں ہیں ، لیکن ان لوگوں کی بڑی تعداد ہے جو میرے وقت میں دور طالب علمی سے گذر رہے تھے، او ر آج بڑے منصب پر فائز ہیں، کشش کی اور بھی وجوہات ہیں، لیکن پابندیوں نے ایسا جکڑا کہ مولانا کی زندگی میں پھر مئو کا سفرنہیں ہوسکا، اور انہوں نے آخرت کی راہ لے لی ، اب ملاقات انشاء اللہ قیامت میں ہوگی، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدکی تعمیر اور اس میں حصہ لینے پر جنت میں مکان کی بشارت دی ہے، مولانا نے چھ سو سے زائد مسجد یں مختلف علاقوں میں بنوائیں، اس لیے ان کے جنت مکانی ہونے میں شبہ نہیں رہتا، رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ