Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, September 13, 2021

گاؤں کی باتیں::: مکئی ، ریت میں بھناہوا دانہ اور لذیذ روٹی ‏

 
از /حمزہ فضل اصلاحی/ صدائے وقت. 
==============================
 صبح کا وقت ہے ، بار ش کچھ دیر پہلے تھمی ہے،اب بھی آسمان پر گھنے بادل  چھائے ہوئے ہیں۔ بادلوں کی فوج نے سورج کے جھانکنے تاکنے کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی ہے ۔پوری طرح سے اندھیر ا ہےاور نہ ہی مکمل اجالا ..ہوا کے جھونکے بھی چل رہے ہیں۔ ان کے درمیان چاروں طرف پھیلے مکئی کے کھیت بھلے لگ رہے ہیں ، مکئی کے پودے ہوا کے اشارے پر جھوم رہے ہیں، ایسالگ رہاہے کہ ہر ے کپڑے میں کوئی دھیرے دھیرے رقص کر رہا ہے۔کچھ فاصلے پر سڑک ہے جس نے کھیتوں کو الگ کر دیا ہے ، کچھ لوگ سڑک پر چہل قدمی کر رہے ہیں ۔ وہ بھی سڑک کے دونوں طرف کے کھیتوں کا جائزہ لے رہے ہیں، ایک کھیت کی طرف دیکھ کر ایک  دوسرے سےکہہ بھی رہے ہیں :’’سمجھا لگ بھگ تیا رے ہے ، چار چھ دن میں کھا ی لائق ہو جائی ۔‘‘( سمجھئے تقریبا ً تیار ہے ، چار پانچ دن میں کھانے کے لائق ہو جائے گی ) ایک کھیت کے مکئی کے کمزور پودوں کو دیکھ کر یہ بھی تبصرہ کررہے ہیں :’’ لگا تھے جو نہریا( مکئی) میں کائدے سے کھا د پانی نہ دیہئے رہن ، جبر نہ بھئی ہے۔ ‘‘ ( لگتاہے کہ مکئی میں قاعدے سے کھا د پانی نہیں دی گئی ہے ، زبر دست نہیں ہے)
                     حمزہ فضل اصلاحی. 
  اب گاؤں میں مکئی کی کھیتی بہت کم ہوگئی ہے ، پھر بھی ایسے مناظر عام ہیں۔ کھڑنجا، کچے راستے، مینڈ،پگڈنڈیوں اور کھیتوں کے درمیان کی پکی سڑک پر چلتے چلتے ایسے تبصرے کئے جاتے ہیں ، اس طرح کے جملے بھی سنائی دیتے رہتے ہیں ۔
  پرانے لوگ بتاتے ہیں کہ تب اور اب بھی بہت فرق ہے ۔ پہلے مکئی کی کھیتی زیادہ ہوتی تھی بلکہ اہتمام سے ہوتی تھی ،آبادی سے قریب کے کھیتوں میں مکئی ہی ہوتی  تھی۔ ان کی نگرانی کیلئے مچان بنائے جاتے تھے ۔ پرندوں کو بھگانے کیلئے ٹین بجائے جا تے تھے ،مخصوص آوازیں نکالی جاتی تھیں۔ اردو افسانہ نگاروں کا پیارادلا را بے چارا ’بجوکا‘اس وقت بھی مکئی کی فصلوں کی نگرانی کرتاتھا۔
 اس زمانے میں مکئی گاؤں دیہات کے دسترخوان کا لازمی حصہ تھی ۔مکئی کا دانہ نکالا جاتا تھا، اسے سکھا یا جاتا تھا پھر اسے  چکی میں پیس کر آٹا بنایاجاتا  تھا۔ کوئلے کی آگ پر اس کی سوندھی سوندھی موٹی روٹی بنتی تھی جو گوشت کے سالن کے ساتھ استعمال ہوتی تھی ۔مکئی کی روٹی سالن میں ترکی جاتی تھی، اتناکہ روٹی کے ٹکڑے میں سالن اچھی طرح جذب ہوجاتا تھا ، پھر اس کا ذائقہ منفرد ہو جاتا تھا، اس کی لذت بے مثال ہو جاتی تھی۔یہ غذائیت سے بھی بھرپور ہوتی تھی۔
  اسی طرح چند سال پہلے تک مکئی کا ’مرہ‘ بھی گھر گھر بنایا جاتا تھا۔پردیس  میں رہنے والے اپنوں اور رشتہ داروں کو بھی بھیجاجاتا ہے۔ مرہ سوکھی مکئی  سےتیار ہوتا تھا۔پکی مکئی کھیت سےلانے کے بعداسے بالی سے الگ کیا جاتا تھا۔اس عمل کو ’ بال چھیلنا ‘کہا جاتا تھا۔ گھر کے کسی حصے میں دن یا رات کسی بھی وقت پورے گھر والے جمع ہوتے تھے ، ان میں چھوٹے بڑے سب ہوتے تھے ،  ایک بڑی سی بانس کی ٹوکری ہوتی تھی ، اس کے گرد سب بیٹھ جاتے تھے، سب کے ہاتھوں میں مکئی کی بالی ہوتی تھی ، پھر اس سے دانہ الگ کیا جاتا تھا ،بڑی بوڑھیاں جلدی جلدی یہ کام کرتی تھی۔ کھکھڑی (خالی بالی) کی مدد بھی لیتی تھیں۔ ’بال چھیلتے چھیلتے‘ ان کے ہاتھوں میں  چھالے تک  پڑ جاتے تھے ۔بچے دانہ الگ کرنے سے زیادہ کھیلتے تھے ، بالی کا ایک دانہ نکالتے تھے اور ایک چھوڑتے تھے ، پھر کہتے تھے :’’ دیکھا چوہا کا دات بن گوا ہے۔‘‘ ( دیکھو چوہا کا دانت بن گیا ہے)
  بڑے پوری لگن سے بال چھیلتے تھے اور بچے اپنی عمر کے حساب سے کچھ نہ کچھ کرتے رہتے تھے ۔ اس طرح ہنستے کھیلتے شور ہنگاموں کے درمیان ضرورت کے مطابق بالی سے مکئی کادانہ الگ ہوجاتا  تھا ۔بانس کی ٹوکری میں دانہ ہوتا تھا۔ اس کے آس پاس ایک طرف کھکھڑی کا ڈھیر لگ جاتا تھا ۔
 دانہ الگ ہونے کے بعد اسے سوپ میں رکھ کر ’پچھورا‘ یعنی صاف کیا جاتا تھا ، پھر تھوڑا بہت دھوپ دکھا کر ’بھرسائیں ‘( ریت میں دانہ بھوننے کی جگہ ) جاتا تھا ۔ وہاں گرم گرم ریت میں بھنا جاتا تھا ۔ اتنے جتن کے بعد مرہ تیار ہوتا تھا۔ بڑے بوڑھے دوپہر میں، رات کو سونے سے پہلے ، ریڈیو سنتے ہوئے ، اخبار یا کہانیوں کے رسائل وغیرہ کا مطالعہ کرتے وقت مرہ چباتے رہتے تھے ۔سو کر مرہ چبانا بھی عام تھا، چارپائی کے سرہانے تکیہ کے قریب ٹوکری میں مرہ رکھا رہتا تھا اور اس پر لیٹنے والا منہ چلا تا رہتا تھا ۔ بچے مرہ جیب میں لے کر گھومتے رہتے تھےاور کھیل کے دوران مٹھی سے نکال کر اپنے دوستوں کو بھی دیتے تھے ۔        
 بہت سے گاؤں شہر میں بدل گئے ہیں ، وہاں کی قابل کاشت زمینوں  پر عمارتیں ہی عمارتیں ہوگئی ہیں ۔ اس طرح کل تک جہاں مکئی کےلہلاتے کھیت تھے ، آج وہاں دور دور تک عمارتوں کا جنگل اگ آیا ہے ۔ وہاں جھاڑ جھنکاڑ تک کےاگنے کی جگہ نہیں بچی ہے۔ آج بھی دیہی علاقوں کے قریب کے بازاروں میں کھڑےکھڑے بڑے بوڑھے ماضی میں کھو جاتے ہیں، ان کے ذہن کے اسکرین پر کچھ اورآجا تا ہے ۔ وہ طویل خاموشی اورتھوڑی دیر دھیان گیان کے بعد کہتے ہیں:’’دکانیں تو دور، یہاں دور دور تک آبادی نہیں تھی ، چاروں طرف کھیت تھے، ان زمینوں پر مکئی کی کھیت ہوتی تھی ،یہاں صرف کھیتی کسانی کی باتیں ہوتی تھیں ،کام سےخالی ہونے کے بعد لوگ ادھر ادھر کی باتیں کرتے تھے ، برہا گاتے تھے ، گیت سناتے تھے ، قصے کہا نیاں سناتے تھے ، اب تو سب بد ل گیا ہے ،یہاں کاروبار ہورہا ہے ، بازار لگ رہے ہیں.. ۔‘‘ پھر وہ بہت دیر تک بڑبڑاتے رہتے ہیں ، سننے والے ان کا در د سنتے ہیں اور کچھ لوگ ’ پکا وا تھن‘ ( پکا رہے ہیں)کہہ کرآگے بڑھ جاتے ہیں ،ان کا لہجہ ماتمی ہوتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی اپنی محبوبہ کےمکان کے کھنڈر پرکھڑا ہےاور وہاں زارو قطار رورہا ہے، آنسو بہار ہا ہے۔