Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, September 30, 2021

پان مفرح قلب؛لیکن۔۔۔۔۔۔

 پان مفرح قلب؛لیکن۔۔۔۔۔۔ 


پروفیسر ڈاکٹر سید فضل اللہ قادری

نائب قومی صدرآل نڈیایونانی طبی کانگریس،نئی دہلی

موبائل:9835426836

                                       صدائے وقت

قدیم ہندوستان میںپان ’’سانچی‘‘کے نام سے جانے جاتے تھے،بعد میںبنگلہ،دیسی،دیساوری جیسے ناموں کارواج بھی عام ہوگیا،اسے عربی میںفان اور فارسی میں’’تنبول‘‘کہتے ہیں۔یہ ایک بیل دار بوٹی کے چوڑے بیضاوی شکل کے نوک دارپتے ہیں،جن کی بالائی سطح چمک دار ہوتی ہے،پان کی ہندوستان میںبہت ساری قسمیں ہیں اور ہر ایک کی طبیعت بھی جدا جداہے؛لیکن کامیاب اور عمدہ قسم سانچی پان ہی ہے۔پان کا استعمال ہمارے ملک میں عام ہے،غریب امیر سبھی بکثرت استعمال کرتے ہیں،ہندوستان کی سابقہ تہذیب میں پاندان وپان کی بڑی اہمیت تھی،ہماری ثقافت و تمدّن کی بین نشا نی تھی،ہر گھر میں مہمانوں کی ضیافت پہلے پان،سونف،لونگ، الائچی سے کی جاتی تھی۔کوئی دعوت وتقریب مکمل سمجھی ہی نہیں جاسکتی تھی،جب تک کہ کھانے کے بعد مہمانوںمیں یہ چیزیں تقسیم نہ ہوں۔پان،عطراورحقہ مغلیہ درباروںاورنوابوں کی مجالس کا لازمی حصہ سمجھا جاتا تھا۔ہندوستان کی خانقاہوں میں بھی یہ رائج رہا۔مغلیہ حکومت کے دور میںپان کی سرخی کو حسن کی زینت سمجھا جاتا تھا۔خودمغلیہ شہنشاہوں کے عظیم الشان درباروں میں پان ، عطر و حقہ تقسیم کیا جاتا تھا اور اس نوازش سے مہمانوں کا استقبال کیا جاتا تھا،چناںچہ اس روایت کو انگریزوں نے بھی قائم رکھا۔آزادی کے بعد اس روایتی استقبال ،عزت افزائی کے طریقہ نے اس قدر وسعت اختیار کرلی کہ ہر گھر پاندان، اُگال دان ، عطردان وحقہ سے آراستہ رہا اور پاندان و اُگال دان لڑکیوں کی شادی میںجہیز کا جزو خاص بن گیا اور ابھی تک فہرست جہیز کا جز بنا ہواہے۔نیزہر شوہر پر لازم قرارپایا کہ وہ بیوی کے دوسرے اخراجات کے ساتھ ساتھ پان سپاری کے لیے بھی کچھ رقم دیا کرے، گو کہ اب سب کچھ داستان ماضی ہو چکا ہے اور یہ تہذیبِ پاندان اندرون خانہ سے باہر آ چکی ہے اور بازاروں، گلیوں میںپان دان بشکل دُکان رواج پزیر ہو گئی۔ اس کی سابقہ اہمیت تقریباً قصہ پارینہ ہو چکی ہیں۔جی ہان!! شادیات میں نوشاہ و سمدھی کی خدمت میں چاندی کے ورق میں ملفوف پان کی گلوریاں سابقہ روایات کے پیش نظر خال خال مشاہدہ میں آتی ہیں۔ 

ہندوستان کے مختلف صو بوں میں پان بنانے میں طرح طرح کی جدتیں رائج ہوگئی ہیں،جتنی مختلف قسمیں پان کی ہیں، اس سے کہیں زیادہ طریقے پان بنانے کے ہیں۔بنگال میںخاص طور پر پان میں اس کثرت سے مسالے ڈالے جاتے ہیں کہ پان کا ذائقہ ہی کچھ اور ہو جاتاہے۔لکھنؤ و بنارس کی گلوریاں اپنا جواب نہیں رکھتیں، جہاں کے پان بہت مشہور ہیں،عمدہ پانوں کی کی منتخب قسمیں ہیں ۔پان کو بہت نزاکت اور سلیقے سے بنا یا جاتاہے۔پان کی تعریف میں عمدہ عمدہ اشعار پڑھے جاتے ہیں: 

رشتے میں تلخیاں ہوں افکار میں ہو دوری

ہرنقص کو مٹاتی ہے پان کی گلوری(اثر فاطمی)

 ان سے جب کوئی پان لیتا ہے

دل سے استاد مان لیتا ہے۔(اثر فاطمی)

 جبّھی  تو پان کھاکر مسکرایا

تبھی  دل کھل گیا گل کی کلی کا(عبد الوہاب )

بہت سے خون خرابے مچیں گے خانہ خراب

یہی ہے رنگ اگر تیرے پان کھانے کا(عبد الرحمان) 

پان کھا کر جو اُگال آپ نے تھوکا ہے صاحب

جوہری محو ہوے لعل یمن یاد آ یا(اغا اکبرآبادی)  

لگاوٹ کی ادا سے ان کا کہنا پان حاضر ہے

قیامت ہے ستم ہے دل فدا ہے جان حاضر ہے (اکبر الہٰ آ بادی)

یہ اشعارپان کی لطافت وشوق کو دوبالاکردیتے ہیں؛بلکہ مرزا سودا کی’’امرئون جان ادا‘‘کی گلوریوں کی یاد تازہ کر دیتی ہیں۔کہا جاتا ہے کہ لکھنؤ و بنارس میںپان اس قدر نزاکت و نفاست سے بنایا جاتا ہے کہ اگر بیڑا زمیں پر گر جائے تو ٹکڑے، ٹکرے ہو جائے۔یہ بہت بڑی خوبی تصور کی جاتی ہے، بعض افرادپان بنانے میں بڑے مشاق ہوتے ہیں، اس کے لوازم اس تناسب سے ڈالتے ہیں کہ اس کا مزہ دو بالا ہو جاتا ہے،لطف و سرور پیدا کرتا ہے۔پیلے رنگ کے پان بہت زیادہ نفیس اور با مزہ ہوتے ہیں اور ایسے پانوں میں بہتر سمجھے جاتے ہیں،جوبالکل سبز یا سیاہی مائل ہوتے ہیں۔ہندوستان میں ایک اور قسم کے پان مستعمل ہوتے ہیں،جن کو’’لونگی‘‘پان کہتے ہیں،ان میں ایک عجیب قسم کا ذائقہ اور ایک خاص بو ہوتی ہے،جس کوبعض لوگ پسند نہیں کرتے؛ لیکن ایک طبقہ بہت شوق سے کھاتا ہے،پان کے عام اجزا چونا، کتھا اور چھالیاں ہیں،چناںچہ ان ہی اجزاء کو ایک ظریف شاعر نے دو مصرعوںمیںکس خوبی سے ادا کیا ہے:

چھالیا غم نے مجھے ورنہ میں ایسا کہ تھا

جائو چوں نہ کرو پان سو گالی دے دو

اس شعر میں چھالیا،کتھا، چونا،پان اور سو گالی کے اصطلاحات پان کے اجزاء ترکیبی کو ظاہر کرتے ہیں۔اس پان کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ آشنائی ہو تی ہے کہ ہندوستا نی طریقہ علاج میں ایک وید نے پان کی جوصفات بتائی ہیں،ان میں منہ کی بعض بیماریون کو دفع کرنے کے لیے بطور نسخہ ایجاد کیا تھا۔شروع شروع میں تو اس نے نسخہ کو راز میں رکھا اور عام کرنے میں کافی وقت لیا اور خود ہی اچھی قیمت میں پان کے ذریعہ علاج کیا کرتا تھا،جب لوگوں نے محسوس کیاکہ پان مین ایک خاص لذت ہے اور اس کی وجہ سے ہونٹوں پر جو لالی پیدا ہو جاتی ہے، اس سے حسن  میںبھی دوچند اضافہ ہو جاتا ہے تو لوگوں نے اس کو مختلف طریقوں سے استعمال کرنا شروع کردیا،یہاں تک کہ حسن میں اضافہ کے لیے بھی استعمال شروع کردیا گیا، بعدمیں نسخہ کی ترکیب بہت عام ہوگئی اور ہرشخص خود ہی بنا کر استعمال کرنے لگا۔وید کے نسخہ کی رُو سے پان کے مسالے میںچونا داخل نہیں تھا۔کہتے ہیں کہ شہنشاہ اورنگ زیب کی بیٹی شہزادی ز یب النساء نے اس چونہ کا اضافہ کیا،واقعہ کچھ اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ کسی حکیم نے شہزادی کو کسی علاج کے سلسلہ میںچونا کھانے کی ہدایت کی، شہزادی نے پان میں چونا شامل کرکے استعمال کر نا شروع کیا ،اب جب اس نے بالوں کو سنوارنے کے لیے آئینہ دیکھا تو اپنے ہونٹوں کی لالی میں ایک خاص دلکشی نظر آئی،جس سے اس کے حسن میں چار چاند لگ گئے، اس واقعہ کے بعد سے پان میں عام طور پر چونا کا استعمال شروع کردیا گیا۔اسی طرح تمباکو کا بھی اضافہ ہوا،اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ چوںکہ تمبا کو درد دانت اور دیگر امراض میں بھی استعمال کیا جاتا ہے، مثلاًً د ماغ کی رطوبتوں کو پاک کرتا ہے،مسکن درد ہونے کی وجہ سے دانتوں کے درد کو سکون پہنچا نے میں نمایاں کارکردگی مشاہدہ میں آتی ہے؛اس لیے تمباکو بھی پان میں استعمال کیا جانے لگا، چوںکہ تمباکو کے استعمال سے پان کا رنگ اور بھی شوخ ہوجاتا ہے؛ اس لیے سنگھار کے شوق میں اس زہر کو بھی گوارا کر لیاگیا،اعتدال شرط اولین ہے۔

پان مفرح قلب اور مسخن ہونے کی وجہ سے طبیعت کو فرحت پہنچا تاہے،عرق پان دل کی  بندرگوں کے لیے،نظام ہضم،و تشحم جگر، خون کی غلطت ، معدہ، دماغ و قوت حافطہ و فہم کو قوی کرتا ہے۔سانچی پان ایک عدد،برگ پودینہ چالیس عدد،ادرک دو انچ کا ایک ٹکڑا،دارچینی کا ایک ٹکڑا،شب میں ایک گلاس پانی میں بھگو دین اور صبح مین جوش دے کر چھان لیں، متواتر چالیس روز استعمال کریں، ان شاء اللہ دل کی بند رگیں کھل جاتی ہیں۔ اس کے پتوں کو چبانا ،درد دانت اور منہ کی بدبو رفع ہوتی ہے،مدر لعاب دہن ہونے کے سبب خشکی دور کرتا ہے۔ پان کو مضر کیوں کہا جاتا ہے؟ مضر کہنے کی وجہ یہ ہے کہ د وائوں کو اللہ تعالیٰ نے مرض کی حالت میں استعمال کرنے کے لیے پیدا کیا ہے، تندرستی کی حالت میں اس کا استعمال بسا اوقات بجائے فائدہ کے نقصان پہنچاتا ہے اور دوائََ صرف ایک پان کی پتی ہی استعمال کرنا ہے،کثرت باعث مضرت ہے۔یہ توآ ٓپ کو معلوم ہے کہ دانتوں کے ذریعہ غذا چبا کر باریک کی جاتی ہے اور منہ کے غدد سے پیدا ہونے والی رطوبت( لعاب دہن) اس کو نرم بناتی ہے اور ہضم کرنے میں بڑی حدتک معاون ہوتی ہے۔اگر دانت کمزور ہوں،یا ٹوٹ جائیں،یا لعاب دہن پیدا کرنے والے غدد ناقص ہو جائیں،یا ان کی افزائش کم ہوجائے تو اس کا لازمی نتیجہ یہی ہوگا کہ ہاضمہ خراب ہو جائے گا اور نظام جسمانی میں فتور لاحق ہوگا۔پان،کتھا اور چھالیا ان غدد میں نچوڑ کی کیفیت تو پیدا کرتے ہیں،چونا اور تمباکو ایک قسم کی تحریک پیدا کرتے ہیں،جس کی وجہ سے لعاب دہن زیادہ پیدا ہونے لگتاہے،چنانچہ آپ نے دیکھا ہوگاکہ ہر پان کھانے والا کثرت سے پیک تھوکنے پر مجبور رہتا ہے اور اس طرح ایک کار آمد شئے بیکار ہوجاتی ہے، پان کے مستقل استعمال سے یہ غدد کمزور ہوجاتے ہیں،چناںچہ کھانا کھاتے وقت،یا دوسرے اوقات میں جب کہ پان منہ میں نہ ہو تو لعاب دہن کم بنتا ہے،جس کی وجہ سے اس کافعل اچھی طرح انجام نہیں پاتا، دیکھا گیا ہے کہ قبض کی شکایت عام طور سے زیادہ پان کھانے والوں میں پائی جاتی ہے اور یہ لوگ دوائیں استعمال کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، جس سے آنتیں غیر طبعی تحریک Abnormal mobility اور دبائو Preddureکی وجہ سے کمزور ہوجاتی ہیں اور اپنا کام صحیح طور پر انجام نہیں دیتیں۔ پان کے اجزاء میں چونا اور تمباکو سب سے زیادہ مضر ہیں،بوجہ کثرت استعمال۔چو نے میں خشکی اور خراش پیدا کرنے کے علاوہ نفوذ کرنے کی بڑی زبر دست قوت موجود ہے،چناںچہ بکثرت استعمال کی صورت میں مسوڑھوں اور دانتوں کے درمیاں جم جاتا ہے اور مسوڑھوں کا بالائی حصہ نیچے کی طرف دبتا چلا جاتا ہے،جب آپ غذا کھاتے ہیں،یا مسواک کرتے ہیں تو رگڑ پیدا ہوتی ہے، جس سے دانتوں کی جڑیں کمزور ہو جاتی ہیں،دانت ہلنے لگتے ہیں اور قبل از وقت گر جاتے ہیں۔دانتوں کی کمزوری، یا ان کے ٹوٹ جانے سے نظام انہضام میں جو خرابیاں پیدا ہوتی ہیں، وہ محتاج بیاں نہیں؛لیکن دانت سے رستے ہوئے خون کو روکتا بھی ہے۔آہک آب رسیدہ(بجھا ہوا چونا) مبرد ومسکن ہے،پان میں استعمال ہونے والا چونا آہک آب رسیدہ ہی ہوتا ہے۔

کتھ بھی جزوخاص ہے، یہ مقوی دندان اور استرخائے لہات Elougation uvula اور استرخائُ اللثہSpougy gum کی بہترخصوصیت کا حامل ہے؛لیکن مضرت یہ ہے کہ ضعف باہ اور مولد سنگ گردہ ہے۔ تمباکو دراصل ایک زہر ہے،جس کو زیادہ مقدار میںاستعمال کرنے سے رشتہ حیات کے منقطع ہونے کا امکان اور مختصر مقدار میں متواتر استعمال حیات مستعار کو کم کرتا ہے۔ڈاکٹرفسک نے بہت سے زردہ خوردن(تمباکونوشی) کا معائنہ کیا تھا، ان کے تجربات سے یہ ثابت ہوا کہ انسان کے حلق،دانت اور گلے کے تمام جوارح کو تمباکو متاثر کرتا ہے اور اس کا استعمال مضر ہے اور یہ سرطان پیدا کرنے کا بھی موجب ہوسکتاہے۔ڈاکٹر ہارکر نے بھی تمباکو کھانے والوں کے خون کا تجزیہ کیا تھا اور نتیجہ یہ اخذ ہوا کہ خون کے دبائو کا مرض زیادہ تر تمباکو کھانے والوں میں پایا جاتا ہے۔ڈاکٹر مذکور نے بتایا کہ تمباکو کا زہر تدریجاًً اعصاب کو مائوف کرتا ہے اور آخر کار تمام نظام جسمانی پرحاوی ہوجاتا ہے،اس کا پہلا حملہ جگر پر ہوتا ہے،خون کا دوران تیز،دل کی حرکت کمزور اور اعصاب کی قوتِ مدافعت مضمحل ہوجاتی ہے اور طرح طرح کے امراض لاحق ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ تمباکو کے مضر صحت ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔محققین کی متفقہ رائے ہے کہ تمباکو میں پایا جانے والا زہر نیکوٹین اس قدر زہریلا اور مہلک ہوتا ہے کہ اگر اس کا کیمیاوی تجزیہ کیا جا ئے اور اس نیکوٹین کا ایک قطرہ کبوتر کے چونچ پر لگا دیا جائے تو وہ فوراًً ہلاک ہو جائے گا، جو افراد روزوشب اس زہر کو امرِت سمجھ کر کھاتے ہیں، ان کو یاد ہو گا کہ جب پہلے پہل انہوں نے مختصر تمباکو کھایا تھا تو ان کی کیا حالت ہو گئی تھی؟ ہچکیان آنے لگی تھیں،قلب کی رفتار طبعی سوا ہو گئی تھی،سر چکرانے لگا تھا، سارے جسم میں ایک طرح کی سنسنی و کمزوری پیدا ہوگئی تھی،یہ پہلے پہل استعمال کے بعد کی کیفیت ہے، اور عادی ہو گے تو یہ کیفیت تو نہیں ہوتی اب اندرونی تباہ کاریوں کا دور شروع ہوتا ہے،جس کا احساس بعد میں ہوتا ہے،ان تمام نقائص کے باوجود کون کہہ سکتا ہے کہ تمباکو اس قابل ہے کہ روزوشب کھایا جائے؛لیکن کسی نے سچ کہا ہے:’’الحقُ مرُّ‘‘[سچ کڑوا ہوتا ہے]۔ایک افیونی دنیا کی ساری نعمتیں چھوڑ سکتا ہے؛ لیکن افیون جیسی تلخ شئے کو نہیں چھوڑ سکتا،شرابی ہر چیز کو ٹھوکر مارسکتا ہے؛ لیکن شراب ترک نہیں کر سکتا،یہی حال تمباکو خوروں کا ہے،طرفہ تماشہ یہ کہ تمباکو طرح طرح کے مخصوص طریقوں اور مرکبات کی صورت میں استعمال کیا جاتا ہے۔

اس طرح چھالیا اور کتھا بھی جسم انسانی میں مضر اثرات پیدا کرتے ہیں، جن کی وجہ سے بالآخر معدہ کی کمزوری اور قبض کی شکایت اور دیگر امراض پیدا ہوجاتے ہیں؛لیکن اس میں دوائی صفت بھی موجود ہے،قابض ہونے کے سبب چھالیہ کو اسہال،ِلثہّ وامیہscurvy،تحریک دندانTeeth Mobility، ضعف رحم، سیلان الرحم اور جریان میں استعمال کرتے ہیں۔چھالیا کے خواص کے علاوہ قلاعThrushاور امراض فساد خون مثلاً آشکاور زخموں کو خشک کرنے کے لیے استعمال کراتے ہیں۔

 غرض پان کے کثرتِ استعمال سے دانتوں کو سخت نقصان پہنچتا ہے۔دل کے امراض، اختلاج قلب کی شکایت لاحق ہوجاتی ہے۔دماغ و اعصاب کمزور ہوتے جاتے ہیں۔پھیپھڑے بھی متاثر ہوجاتے ہیں۔دق و سل((pthysisجیسے امراض پیدا ہونے کے امکانات زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔یہاں تک تو صرف پان کے نا مناسب استعمال کے نقائص کا تذکرہ کیا گیا ہے۔اس کے باوجود پان ہنرکی پوٹری اور جامع الکمالات ہے؛کیوںنکہ دنیا کی کوئی شئے ایسی نہیں کہ جس میں ضرر کے ساتھ نفع کا پہلو نہ ہو،مہلک ترین زہر بھی اصول ِدوا سازی کو مد نظررکھ کر استعمال کیا جاتا ہے تو فائدہ پہنچتا ہے،اسی طرح پان کے استعمال میں اعتدال کی راہ اپنائی جائے تو کوئی ہرج نہیںہے،کبھی کبھی بعد طعام کھانے میں کوئی مضائقہ نہیںہے۔تحقیق اس بات کی جانب نشاندہی کرتی ہے کہ خود پان کے اندر زہریلے اثرات کو زائل کرنے والا مادہ پایا جاتاہے،جو کاربالک ترشہ سے پانچ گنا زیادہ موثر ہوتا ہے،یہ عرق ان جراثیم کو مارتا ہے، جو کھانے کے ساتھ معدے میں چلا جاتا ہے،پان کی اس خصوصیت کی بنا پر اس کو بعض امراض میں بطور دوا ستعمال کیا جاتا ہے، مثلاًاگر غدد بڑھ جائیں تو پان کو گرم کرکے باندھنے سے ورم زائل ہو جاتا ہے۔اگر عورت کی چھاتی سے دودھ زیادہ بہنے لگے تو پان کو کسی قدرگرم کرکے باندھنے سے دودھ کا بہنا موقوف ہوجاتا ہے، کھانسی میں لوگ سینے پر گھی مل کر پان سے سینکتے ہیں تو فائدہ ہوتا ہے۔ڈاکٹر گپسن اس طریقہ علاج کو پسند کرتے ہیں،اگر زخم پر پان کی پٹی باندھی جائے تو زخم بہت جلد اچھاہوجاتا ہے، چناںچہ زمانہ قدیم میںجرّاح ہمیشہ پان کے پتوں سے پٹی  باندھا کرتے تھے،دل کی بند رگون کو کھولتا ہے۔سانچی پان ایک عدد،برگ پودینہ چالیس عدد،ادرک دو انچ کا ٹکڑا ،دارچینی کا ایک ٹکڑا، ان تمام اشیاء کو ایک گلاس پانی میں رات کو بھیگو کر رکھیں ،صبح اُبال،چھان کر پی لیں، دل کی رگیں کھل جائیںگی،متواترچالیس روز تک استعمال کریں۔سانچی پان ایک عدد نہار منہ چباکر پی جائین،شوگر کنٹرول میں رہے گا۔ برگ پان کا عرق کشید کر کے استعمال کرنے سے نظام ہضم و جگر کے امرض بالخصوص فیٹی ایسڈ، خون کی غلظت میں آرام ملتا ہے۔اینٹی کینسر،اینٹی ڈپریشن، کلسٹرول ہے۔ایک عدد سانچی پان کو چبانے سے دانت کے امراض خصوصی طور پر درد مسوڑھے، پیائریہ کے لیے مفید ہے۔ایک عدد سادہ پان کی پتی دوا ہے اور دیگر شکلیں دوا نہیں مُزّید ذائقہ اور عادتاًً استعمال کے زُمرے میں شمار ہوتا ہے۔سڈ،حیاتین بی، ون بی ٹو،پوٹاشیم، کیلشیم،آیو ڈین ،شکر،نشاستہ،ٹے نین، کے علاوہ ایک فراری روغن تقریباًً۴ فیصد کی مقدار مین موجود ہے۔یہ اس کے اجزاء کیمیائی ہیں۔ 

چونا جو پان میں استعمال کیا جاتا ہے،اس میں کوئی شک نہیں کہ فائدہ بخش ہے؛لیکن یہان بھی اعتدال شرط ہے۔جدید تحقیقات سے ثابت ہو چکا ہے کہ صحت کو برقرار رکھنے کے لیے چونا ایک ایسی ضرورت ہے کہ اس کی کمی سے انسان سینکڑوں امراض کا شکار ہوجاتا ہے۔غرض ہندوستان مین پان کھا نے کی رسم مصلحت سے خالی نہیں اوریہی وجہ ہے کہ اس کے معتدل استعمال کی ترغیب دی گئی ہے۔ اس کلیہ سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ ُاس دور میں علم الابدان سے بھی معالج واقف تھے۔انسانی جسم کے لیے کیلشیم کی اہمیت و افادیت سے واقفیت تھی۔مختصر یہ کہ اگر پان کثرت سے کھائے جائیں، مثلابعض اصحاب چوبیس گھنٹے پان چبایا کرتے ہیں، یہاں تک کہ کہ سونے کی حالت میں بھی وہ پان کے ساتھ ہی رات گزارتے ہیں،منہ میں پان رکھ کر ہی سو جاتے ہیں،اسی کو کثرت استعمال کہیںگے اور شاذ ونادر کھا لیا جائے تو کوئی ہرج نہیں ہے؛بلکہ فرحت بخش ہے۔پودینہ کی چٹنی میں پان کا اضافہ کر دیا جائے تو جگر کے امراض میں مفید ہے۔پان کا قہوہ،برم ڈنڈی Yellow Thesil ایک گرام، ایک عدد پان ، سونف،الائچی خورددو عدد، دار چینی ایک گرام ، گرین ٹی سب کو اُبال لیں،یہ قہوہ بخار،نزلہ، زکام، میں مفید ہے۔

ادبی پہلو پر بھی ایک نظر ڈالتے چلین، پان عام طور پر افزائش حسن کے لئے  خواتیں استعمال کرتی ہیں، چناںچہ حسن افزائی کی بناپر صنفِ لطیف کے متعلقات میں اس کو خا ص مرتبہ حاصل ہے، اسی سبب شاعروں اور انشاء پر دازوں نے بھی اس بات میں نزاکت خیالی اور لطافت بیان کے نہایت پاکیزہ نمونے پیش کئے ہیں ۔ ان حضرات نے جنس لطیف کو ذہن میں رکھ کر خوب خوب تخیلات کی شعری دنیا بسائی ہے ۔

 دے کر پتہ برا منہ کو لال کیجئے

آپ ہی کرتے ہیں یہ کمال کیجئے

دست نازک بڑھائے صاحب

پان حاضر ہے کھائے صاحب

ہم نہ اُٹھتے ہیں نہ وہ دیتے ہیں

ہاتھ میں پان ہے کیا مشکل ہے

 یار میرے تو پان کھایا کر

لب کی سرخی مجھے دکھا یا کر   

چائے پی لوں گا آ پ ہی سے مگر

دستِ نازک سے پان لینا ہے 

خان بہادر میر ناصر علی مرحوم کے قلم سے ایک فقرہ نکل جاتا ہے’’یہ پان ان کے لیے ہے‘‘۔

مہدی افادی نے اس فقرہ کی داد جس ادائے خاص سے دی ہے، وہ بھی سن لیجئے:’’بے اختیار جی بھر ٓایا، اگلے پچھلے قصے پیش نظر ہو گئے،پوچھئے تو بتا نہیں سکتا؛ لیکن کچھ تو ہے، جو دل پر چوٹ لگی، رکھ رکھائو، اتنا تو ہو، ایک چھوٹا فقرہ اور عطرِزندگی‘‘۔

مرزا فرحت اللہ بیگ نے بہادر شاہ اور پھول والوں کی سیر میں پان کی دوکان کی سیر کی جو لفظی تصویر کھینچی ہے، اس سے پان فروشی کا ایک سماجی پس منظر ہماری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے:’’پنواڑی کی دکان پر پہنچے، بی پنواڑ ن ہیں کہ بالوں میں تیل ڈالے کنگھی کئے، آنکھوں میں سرمہ لگائے ،دانتوں میں مسی ملے، بڑے ٹھاٹ سے بیٹھی پان بنا رہی ہیں،دیسی پان لال لال صافیوں میں لپٹے سامنے دھرے ہیں، پان بن رہے ہیں، مذاق ہو رہا ہے،یار لوگوں کے لیے پان خود کھائے، دوسروں کو کھلائے، پیک تھوکی اور آگے  بڑھے‘‘۔

ہمارے شعراء نے بھی بڑی نازک خیال اورپاکیزہ بیانی کے ساتھ پان کوشعری جامہ پہنا یا ہے۔ریختی کی شاعری میں تو اس کی مخصوس حیثیت حاصل ہے؛ لیکن غزل میں بھی پان کو دلکش اسالیب مین نظم کیا گیا ہے، مثال کے طور پر چند اشعار سن لیں:

زلف و رخسار تو ہیں آفت ِجان پر میرے 

خون کا اس لبِ خنداں نے اُٹھایا بیڑا

 سر خرو مجھ کو کیا اس نے جو ہم چشموں میں

  کہ میرے ہاتھ سے کل مجھ کو دلایا بیڑا

ایک اور شعر میں حسنِ تخیل ملاحظہ ہو:

کیا میری تقدیر پتے کے برابر بھی نہیں

 پان تو لے لب کے بوسے اور میں دیکھاکروں

  فارسی شاعری بھی اس سے متاثر ہوے بغیر نہ ر ہ سکی، مثال کے طور پر ایک شعر ملاحظہ ہو:

 بروں ہم سر سبز  درونم  ہمہ  پر خون

حال دلِ من برگ تنبول است پر افسوں

یا پھر یہ’’برگ سبز است تحفۂ درویش‘‘پان کی بڑی دل آویز پہیلیاں بھی ہیں، جو کہ بڑی بوڑھیاں اور بچوں میں یکساں مقبول ہیں۔  

زاغ و قاز تدرو طوطی

دوش دیدم بہ مجلس احباب

 در گر تم دور قفس کردم

گشت این چار مرغ یک سر خاب

الغرض پان اوراس کے متعلقات کے جہاں بہت سارے فائدے ہیں،وہیں اس کے نقصانات بھی واضح ہیں؛اس لیے پان اوراس کے متعلقات کے استعمال میں احتیاط واعتدال کو راہ دیں اوربقدر ضرورت ہی استعمال میں لائیں۔()()()