Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, October 5, 2021

مولانا محی الدین ساتن پوری ؒ


از /مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ. 
                         صدائے وقت 
=================================
 امارت شرعیہ ، خانقاہ مجیبیہ ، جمعیت العلماء کے معتقد او رسر گرم کارکن ، نامور خطیب، مشہور مجاہد آزادی، مدرسہ اسلامیہ شاہ پور بگھونی سمستی پور اور بی ام سی (بیک ورڈ مؤمن کمیونیٹی) مکتب نون گولہ حاجی پور کے سابق استاذ، مشہور ملی وسماجی کارکن مولانا محی الدین بن مولوی نصیر الدین حاجی پور، موجودہ ضلع ویشالی کا ۲۰؍ دسمبر ۱۹۶۵ء کو برسرراہ سہ پہر کے تین بجے انتقال ہو گیا، وہ سرکاری دفتر سے تنخواہ لے کر گھر کی طرف جا رہے تھے کہ رکشہ پر ہی دل کا دورہ پڑا، ساتھ میں بی ام سی مکتب مینا پور کے مولوی شریف صاحب تھے، ان کے کاندھے پر روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی ، جنازہ حاجی پور ان کے گھر لایا گیا، اور اسی دن دیر رات شہزاد پور اندر قلعہ کے قبرستان میں تدفین عمل میں آئی ، جنازہ کی نماز اس زمانہ میں چوک مسجد کے امام مولانا مفتی عبد المنان دربھنگوی نے پڑھائی، پس ماندگان میں اہلیہ، تین لڑکے اور دو لڑکی کو چھوڑا۔
 مولانا محی الدین ۲؍ اکتوبر ۱۹۱۲ء کو اپنے آبائی وطن ساتن پور، دلسنگھ سرائے موجودہ ضلع سمستی پور میں پیدا ہوئے،وہ چار بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھے ابتدائی تعلیم اس وقت کے مروجہ طریقہ کار کے مطابق اپنے والد سے گاؤں میں ہی حاصل کی ، تعلیم کے آخری پڑاؤ پر مدرسہ عزیزیہ بہار شریف موجودہ ضلع نالندہ تشریف لے گئے، اور وہیں سے ۱۹۳۲ء میں فاضل کی سند حاصل کی، مدرسہ عزیزیہ اس زمانہ میں پورے بہار میں تعلیم وتربیت کے اعتبار سے ایک خاص مقام رکھتا تھا، دور دراز کے لڑکے وہاں تعلیم حاصل کیا کرتے تھے، مدرسہ عزیزیہ سے پہلے کسی اور ادارے میں انہوں نے ضرور تعلیم حاصل کی ہوگی، لیکن درمیان کی اس کڑی سے ان کے صاحب زادگان بھی ناواقف ہیں او رمضمون نگار کے پاس اس کی تعیین کادوسرا کوئی ذریعہ موجود نہیں، اس لیے ابتدائی تعلیم کے بعد فراغت کا ذکر کرنا ہی مناسب معلوم ہوا، فراغت کے بعد آپ رشتۂ ازدواج سے منسلک ہوئے، ان کی شادی محلہ مقصود پورہ اس ڈی او روڈ حاجی پور میں محمد حنیف کی لڑکی آمنہ خاتون(م۲؍ مئی ۲۰۰۲ء مطابق ۱۸؍ صفر ۱۴۲۳ھ بروز جمعرات) سے ہوگئی، اس طرح مصاہرت کے حوالہ سے وہ حاجی پور سے جڑ گئے، اور ان کی آمد ورفت حاجی پور ہوتے رہنے کی ایک مضبوط بنیاد قائم ہو گئی ۔ 
 تدریسی زندگی کا آغاز مولانا نے مدرسہ اسلامیہ شاہ پور بگھونی سے کیا، یہ سو سال سے زیادہ قدیم با فیض ادارہ ہے ، اب بھی بورڈ کے دوسرے مدرسوں کی بہ نسبت اس کی خدمات مثالی ہیں، مولانا نے چند سال یہاں طلبہ کو مستفید ہونے کا موقع دیا، اس درمیان حاجی پور آنا جانا لگا رہا، مولانا نے محسوس کیا کہ حاجی پور میں تعلیمی کام کی بڑی ضرورت ہے اور اچھے مواقع بھی ہیں، انہوں نے حاجی پور کے مختلف محلات اور قریبی علاقوں کا جائزہ لیا اور محسوس کیا کہ یہاں کوئی تعلیمی ادارہ قائم کرنا چاہیے، چنانچہ مولانا نے نون گولہ مسجد میں ایک ادارہ قائم کیا، نام رکھا مدرسہ اصلاح المسلمین ، مطلب واضح تھا کہ اس ادارہ میں صرف تعلیمی کام نہیں ہوگا، بلکہ اس کے ذریعہ مسلمانوں میں جو مختلف قسم کی برائیاں پائی جاتی ہیں، جن رسومات واوہام نے مسلمانوں کو زیر بار کر رکھا ہے اور جس کے نتیجے میں مسلمانوں کو دیکھ کر اسلام کی صحیح تصویر لوگوں کے سامنے نہیں آتی، اس ادارہ کے ذریعہ اس کی اصلاح کی جائے گی۔اس ادارہ کے ذریعہ گویاانہوں نے تعلیم کے ساتھ مسلم معاشرہ کے اصلاح کا بیڑہ اٹھایا، اولیت مسلم قوم کو دی ، کیوں کہ وہ ایک عالم کی حیثیت سے ان کی اصلاح کے لیے پابند تھے، نام مدرسہ رکھا تاکہ واضح پیغام لوگوں میں جائے کہ یہاں تلاوت کتاب کی تعلیم، تربیت وتزکیہ کے ساتھ ہوگی اور کتاب وحکمت کی اعلیٰ تعلیم کے لیے نونہالوں کو تیار کیاجائے گا، یہ ایک بڑا منصوبہ تھا، بڑی تحریک تھی اور اس منصوبے کو زمین پر اتارنے کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنے گاؤں سے نقل مکانی کرکے حاجی پور میں بود وباش کریں، چنانچہ انہوں نے ساتن پور چھوڑا اور حاجی پور کو وطن ثانی بنالیا جو بعد میں اس خاندان کے لیے وطن اصلی بن گیا۔
 مولانا نے ان محاذوں پر کام کیا اور جم کے کام کیا، ۱۹۴۷ء میں ملک آزاد ہوا، عبد القیوم انصاری مرحوم اس زمانہ میں مسلمانوں کی سیاست کا چہرہ تھے، ریاست کے وزیر تعلیم بنے تو ان علاقوں میں جہاں پس ماندہ لوگ بستے تھے اور آزادی کے بعد بھی اس کے فوائد اس آبادی تک نہیں پہونچے تھے، ان علاقوں میں اسکول کھولنے کا منصوبہ بنایا ، پانچ سو بی ام سی (بیک ورڈ مؤمن کمیونیٹی)مکاتب کھولے گئے ، مولانا محی الدین صاحب مؤمن کانفرنس کی تحریک سے جڑے ہوئے تھے، اس لیے بہت آسانی سے نون گولہ مسجد کا مدرسہ اصلاح المسلمین بی ام سی مکتب بن گیا، مولانا پہلے سے ہی وہاں پڑھا رہے تھے، اس لیے سرکاری استاذ کی حیثیت سے ان کی تقرری ہو گئی اور پوری زندگی اس مکتب میں بحیثیت صدر مدرس خدمات انجام دیتے رہے ۔
 مولانا کی خدمات کئی جہتوں سے وقیع اور قابل قدر تھیں ، لیکن اردو کی تعلیم ان کی زندگی کا نصب العین تھا، وہ تمام کاموں پر پڑھانے کو ترجیح دیتے تھے، وقت پر اسکول حاضر ہوتے تھے اور پھر پوری دلجمعی کے ساتھ اس میں لگ جاتے تھے، ان کے شاگردوں میں جناب انوار الحسن وسطوی جیسے لوگ ہیں، جو تدریسی خدمات سے سبکدوشی کے بعد بھی اردو تحریک سے جڑے ہوئے ہیں اور اردو مسائل پر گہری نگاہ رکھتے ہیں اور اس کے حل کے لیے کوشاں رہتے ہیں، آج مولانا کے اس اسوہ کو اپنانے کی سخت ضرورت ہے، تحریکیں، سمینار، سمپوزیم میں اردو اساتذہ کی شرکت ہو ، لیکن پڑھانے کے عمل کو ناغہ کرکے نہ ہو، پانچ سال تک اگر ہمارے اردو کے اساتذہ مولانا محی الدین مرحوم کے اس اسوۂ حسنہ کو اپنالیں تو اردو کے بچے تیار ہوجائیں گے ، آج المیہ یہ ہے کہ اردو اسکولوں میں بھی اردو کے بچے تیار نہیں ہو رہے ہیں اور اردو اساتذہ کے پانچ شاگرد بھی ایسے نہیں ہوتے جو اردو کے کام کے ہوں، مولانا محی الدین صاحب کو سچی خراج عقیدت یہ ہے کہ پڑھنے پڑھانے کے کام کو دوسرے تمام کاموں پر اساتذہ فوقیت دیں، اردو کا کارواں اس محنت سے بنے ہوگا، سمینار ، سمپوزیم سے بیداری تو آسکتی ہے، اردو کے افراد تیار نہیں ہو سکتے۔
مولانا محی الدین صاحب کے کام کرنے کا جو عہد ہے، اس میں حاجی پور تحریک کا مرکز رہا ہے ، ڈاکٹر شاکر خلیق کے دادا مولوی عبد الحمید اس زمانہ میں یہاں استاذ تھے، انجمن فلاح المسلین کی بنیاد بھی ۱۹۳۵ ء میں رکھی گئی تھی ، اردو لائبریری کا قیام بھی ہواتھا، دوسری طرف جد وجہد آزادی کا مرکز بھی حاجی پور تھا، یہاں گاندھی جی بھی دوبار آئے تھے، مولانا محمد علی جوہر کی والدہ بی اماں بھی آئی تھیں، مولانا محی الدین صاحب کی ذہنی ساخت اور شخصیت کی تشکیل میں ان عوامل کا بھی بڑا دخل تھا۔
 مولانا مرحوم کو اللہ تعالیٰ نے خطابت کا اچھا ملکہ دیا تھا، معاشرہ کی اصلاح اور جد وجہد آزادی میں انہوںنے اپنی اس صلاحیت سے خوب فائدہ اٹھایا ، ایک زمانہ میں حاجی پور اور گرد ونواح میں میلاد شریف کی مجلس میں بھی وہ مدعو ہوتے تھے، وہ اصلاح کی بات کرتے تھے، مسلکی تعصب سے دور بھی تھے اور اختلافی مسائل کو تقریر کا موضوع بنانے سے بھی گریز کرتے تھے، وہ جمعیۃ المؤمنین سے جڑے ضرور تھے، لیکن برادرانہ تعصب کو راہ نہیں دیتے تھے، بد قسمتی سے ان کے گذرنے کے بعد حاجی پور برادرانہ بنیادوں پر تقسیم ہو گیا، جس کی وجہ سے بہت سارے علمی ، تعلیمی کاموں میں بے پناہ رکاوٹ آتی رہی ہے، اور آج بھی آرہی ہے ، کاش یہ بیماری شہر سے ختم ہو پاتی، تو بہت سارے تعمیری ، تعلیمی کاموں کو فروغ دیا جا سکتا تھا، انجمنوں کے قیام ، تنظیموں کے عہدوں کے حصول سے ترقی نہیں ہوتی ، ترقی زمینی محنت سے ہوتی ہے ، جیسا مولانا محی الدین مرحوم کیا کرتے تھے، آج ان کے نقش قدم پر چلنے والا دور دور تک کوئی نظر نہیں آتا۔
مولانا مرحوم کے صاحب زادہ ماسٹر عظیم الدین انصاری مختلف تحریکات سے جڑے ہوئے ہیں، اللہ کرے کہ وہ اپنے لیے کام کے اس طریقہ کو اپنا سکیں جو ان کے والد کا طرۂ امتیاز تھا اور جس کی وجہ سے وہ ہر طبقے میں مقبول تھے، ضرورت کام کو اس طرح کرنے کی ہے کہ خود کام بولنے لگے، ماسٹر عظیم الدین انصاری کے پاس وقت بھی فارغ ہے کیوں کہ وہ اسکول کی تدریسی خدمات سے سبکدوش ہو چکے ہیں، والد کے لیے ان کی جانب سے سچی خراج عقیدت یہی ہے کہ وہ والد کی تحریکی زندگی کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیں۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ مرحوم کی مغفرت فرمائے، اور جنت الفردوس میں انہیں جگہ ملے۔ آمین یا رب العالمین