Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, October 14, 2021

شبلی اکیڈمی/ دارالمصنفین اعظم گڑھ و امارت شرعیہ بہار.....

از/ محمد عرفان/ صدائے وقت. 
==================================
السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ
مین نے شبلی اکیڈمی دارلمصنفین کی خبر اس لئے شیئر کی ہے تاکہ ہمیں احساس ہو کہ عین اس وقت جب ہمارے درمیان بہار میں علما نے امارت شرعیہ کے امیر کے انتخاب مین تماشہ لگایا ہوا تھا دارالمصنفین اعظم گڑھ مین قیادت کی تبدیلی کا عمل خاموشی سے بغیر کسی شور شرابے کے انجام پا گیا- ماشااللہ سابق ناظم پروفیسر اشتیاق احمد ظلی صاحب با حیات ہین اور وہ کئی سالوں سے اس بات کے لئے کوشان تھے کہ اس امانت کو کیسے اہل لوگون کے سپرد کردیا جائے - استاد محترم پروفیسر ظلی صاحب کے صاحبزادے ڈاکٹر محسن علی گڑھ سے منیجمنٹ مین ایم بی اے اور پی ایچ ڈی کے بعد مسقط مین ایک معروف یونیورسیٹی مین استاد ہیں مگر ظلی صاحب کے وہم وگمان میں بھی کبھی نہین رہا کہ اپنے صاحبزادے یا اپنے قریبی لوگون کے ذریعے شبلی اکیڈمی پر اپنے اثرورسوخ مین اضافہ کریں - بڑی مشکلوں سے وہ اس ذمہ داری کو سنبھالنے کے لئے آمادہ ہوئے تھے اس جذبے سے کہ وہ اس ادراے کی عظمت رفتہ کی بحالی مین حصہ ڈالیں گے اور اس کی ہمہ جہت زبون حالی بشمول ملازمین کی معاشی بدحالی ، کتابون کی عدم دستیابی حتی کہ مسجد تک کی خستہ حالی دور کرنے کی کوشش کرین گے-اس عزم مصمم کے ساتھ انہون نے اپنے کو یکسو کرلیا اور تمام تر تعلقات اور روابط کو ادارے کے حالات بدلنے کے لئے استعمال اس طور کیا کہ اس کی بعض باتیں شیئر کردوں تو ظلی صاحب سے قریب لوگوں کو بھی حیرت ہوگی اور شاید یقین نہ ہو کہ اس دور مین ایسے اجلے پاک نفوس ہمارے درمیان رہتے ہیں -مین استاد محترم کے لئے بے انتہا احترام بلکہ کسی قدر عقیدت کا جذبہ رکھتا ہون اور زندگی مین جن چند لوگون کے اخلاص اور تقوی سے متاثر ہوا ان مین ان کو نمایان پاتا ہون کہ ان کو بہت قریب سے دیکھنے اور ان کے ساتھ سفر کرنے کا بھی موقع ملا- *مین تقوے کی بات معاملات اور رویے کے حوالے سے کررہا ہوں کہ اللہ سے تعلق کا علم تو انسان اور اللہ کے درمیان ہوتا ہے*
میں اپنے کو ان لوگون مین شمار کرتا ہون جنہوں نے علی گڑھ سے صرف ڈگری نہین لی بلکہ اس عظیم ادارے کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، خاص طور پر اساتذہ کی سوچ اور ان کی اپنی ذات سے محبت کی انتہا دیکھی ہے ، اسی لئے مختار مسعود کے اس جملے کی صداقت کا قائل ہون کہ * علی گڑھ چھوٹا پاکستان اور پاکستان بڑا علی گڑھ ہے*- اس کی تفصیلی وضاحت کبھی اور کردوں گا کہ پاکستان کے لوگون اور ان کے رویے اور علی گڑھ سے قریب سے واقفیت کی وجہ سے میں اس جملے سے اتنا محظوظ ہوا کہ بتا نہین سکتا، مگر پروفیسر ظلی صاحب کو یکسر مختلف انسان پایا کہ طلبا سے اپنے بچوں کی طرح محبت کرتے ہین- طلبا سے محبت اور ان کو اپنے بچوں کی طرح سمجھنے کے لئے میں صرف ایک واقعہ شیئر کرتا ہوں ۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد علی گڑھ میں فساد کے دنون میں جب وہ محمد حبیب ہال میں جو عام شاہراہ پر واقع ہے جہاں وہ ذمہ دار تھے رات گزارتے تھے کہ والدین نے بچوں کو ہمارے حوالے کیا ہے اس لئے مین ان حالات مین ان کو چھوڑ کر اپنے گھر نہین سو سکتا اسی لئے جب انہون نے ذمہ داری سے سبکدوشی اختیار کرنی چاہی تو حبیب ہال کے  طلبا ان کے گھر پر تار بنگلہ میں دھرنے پر بیٹھ گئے کہ وہ استعفی واپس لیں مین نے علی گڑھ کے قیام کے دس سالون مین یہ پہلا انوکھا واقعہ دیکھا ورنہ تو لڑکے پرووسٹ اور وارڈن کے لئے عام طور ہر بہت اچھے جذبات نہیں رکھتے-کبھی مین اپنی معلومات کی روشنی مین ظلی صاحب کی شبلی اکیڈمی کے لئے خدمات بھی تحریر کرون گا( *ورنہ تو ہم مردہ پرست لوگ ہیں مرنے کے بعد ہی انسان کی خوبیون کا تذکرہ کرتے ہین *}جس سے اندازہ ہوگا کہ وہ سرسید کی طرح ملت کے تئیں کس قدر تڑپ رکھتے ہیں اور اپنی اور اپنے اہل خانہ کی پرواہ کئے بغیر مکمل یکسوئی سے جو کچھ کرسکتے ہین کرتے رہے ہیں اور اپنا بیش قیمت وقت رضاکارانہ طور پر لگاتے رہے ہیں حتی کہ اسفار وغیرہ کے اخراجات بھی اپنی جیب سے ادا کرتے رہے ہیں 
ہروفیسر ظلی صاحب جیسے لوگ ہمارے عہد میں رویوں اور معاملات کے حوالے سے روشنی کا مینار ہین جن کی زندگی سے سیکھ کر ہم بہتر ادارہ سازی کرسکتے ہیں ۔
مجھے خوشی ہے ظلی صاحب نے انتھک محنت سے شبلی اکیڈمی کو منظم کیا اور ترقی کی راہ پر ڈال دیا اور ان کے بعد کے لوگون کی ذمہ داری ہے کہ اسے مزید آگے بڑھائیں اور علامہ شبلی کے خوابوں کی تعبیر کی طرف سفر جاری رکھیں 
محمد عرفان- دربھنگہ 
حال مقیم *الشارقہ*