Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, October 13, 2021

شہر ممبرا میں ہنگام الفت ومحبت...


از/ شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی. / صدائے وقت. 
====================================
فکر امروز اور غم فردا کے دشت میں سفر کا تسلسل کبھی کبھی زندگی کو بے کیف بنادیتا ہے، ایسے ماحول میں جب اسے ثقافتی بزم یا دوستوں کی مجلس میسر ہوجاتی ہے، تو دل کی زمینوں پر کیف واہتزاز کی گھٹائیں چھا جاتی ہیں، تازگی اور فرحت کی بدلیاں اپنے دہانے کھول کر انہیں شاداب کرجاتی ہیں۔
12/اکتوبر 2021بروز منگل کو اسی طرح کا ایک جاں نواز لمحہ، شہر جاں میں داخل ہوا اور بام ودر سے لیکر اس کی فصیلوں تک کو فرحت وسرور کے نور سے روشن کرگیا، چند روز قبل مولانا محمد خالد صاحب اعظمی مدیر پاسبان علم و ادب کا فون آیا انھوں نے مولانا محمد ذاکر ندوی صاحب کی ممبرا تشریف آوری کی خبر دی اور ساتھ میں یہ بھی بتایا کہ ذاکر بھائی کی طرف سے ممبئی میں مقیم  تمام پاسبانیوں کی دعوت ہے، مدیر پاسبان کا حکم اور ذاکر بھائی کی پرکشش شخصیت ان دونوں عناصر نے حاضری کے عزم پر آمادہ کردیا اور وقت پر حاضری کے وعدے کے ساتھ گفتگو ختم ہوگئی۔

اس سے پہلے کہ داستان کا قلمی سفر آگے بڑھے ‌کچھ ذکر ذاکر بھائی کا۔۔۔ مولانا محمد ذاکر صاحب انگریزی وعربی ادب کے شگفتہ نثر نگار، متعدد کتابوں کے مصنف، دیدہ ور عالم، جسم سے روح تک کی فضا میں ارتعاش پیدا کردینے والے بے باک نقاد، اور متنوع خوبیوں کے مالک ممتاز دانشور ہیں، انھوں نے ابتدائی تعلیم وطن اعظم گڈھ میں واقع مشہور بستی سیدھا کے مکتب اور پھر بیت العلوم سرائے میر میں حاصل کی ھے بعد ازاں دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے عالمیت کی ہے اس کے بعد عصری دانشگاہ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی ہے
ذاکر بھائی بہت بااخلاق، ملنسار اور مہمان نواز ومرنجا مرنج طبیعت کے مالک ہیں، اردو عربی اور انگریزی تینوں زبانوں پر انہیں دسترس حاصل ہے، سخنور اگرچہ نہیں ہیں مگر سخن فہم ضرور ہیں، ان کی خوبیوں اور کمالات میں سے سب سے اہم خوبی جو انہیں معاصرین میں انفرادی مقام عطا کرتی ہے وہ تحمل،بردباری ،صبر اور قوت برداشت ہے، وہ مزاج کے خلاف پیش آنے والے رویوں کو اس طرح انگیز کرجاتے ہیں گویا کوئی واقعہ رونما ہی نہیں ہوا ہے، وہ مخالفین کے طنز وتیر، اور اخلاق باختہ نشتروں کو بھی نہایت آسانی سے نظر انداز کردیتے ہیں، یہاں تک کہ فریق مخالف شکست کے احساس میں غرق ہوجاتا ھے۔

اس وقت موصوف سعودی عربیہ میں مع فیملی مقیم ہیں اور اس ملک کے نہایت حساس شعبے اکنامک میں معزز ملازمت سے وابستہ ہیں، قدرت نے مال ودولت سے نوازا ہے مگر اس نعمت پر وہ عام لوگوں کی طرح امتیازی شان کا مظاہرہ نہیں کرتے ہیں، بلکہ وہ فیاض واقع ہوئے ہیں عموماً جب بھی وہ وطن آتے ہیں اپنے احباب کی ایک مجلس قایم کرتے ہیں اور جی بھر کر ضیافت کرتے ہیں، اس قبل بھی غالباً تین سال پہلے وہ تشریف لائے تو اپنے دولت کدے پر ہمیں مدعو کیا تھا اور راقم اپنے دوست مولانا نسیم ندوی کے ساتھ حاضر ہوا تھا اور ایک خوشگوار احساس کے ساتھ واپس ہوا تھا۔

پروگرام کے مطابق بارہ اکتوبر کو گوونڈی سے بعد نماز مغرب چھ افراد پر مشتمل ہمارا قافلہ ممبرا کے لئے روانہ ہوا مولانا نسیم ندوی، مولانا حفظ الرحمن اعظمی، مولانا محمد معاذ قاسمی اور مولانا محمد خورشید صاحب بذریعہ کار اور راقم مولانا اسعد صاحب قاسمی کے ساتھ بائیک سے روانہ ہوا، اور عشاء کے وقت دارالفلاح ممبرا پہونچ گئے اس ادارے کی وسیع وعریض اور عالیشان مسجد میں نماز ادا کی اپنے کرم فرما مولانا محمد امجد صاحب مولانا محمد طلحہ اور مولانا ظفر صاحب سے ملاقات ہوئی، کچھ تاخیر سے مولانا نسیم صاحب بھی پہونچے، مفتی رضوان صاحب امام نورانی مسجد کرلا بھی تشریف لائے تھے، ترجمان صاحب سے جاں نواز ماحول میں ملاقات ہوئی، 

قریب ہی ساحل ہوٹل جو ممبرا شہر کے خوبصورت ہوٹلوں میں ہے یاشاید سب سے اعلی ہے، یہاں کشاں کشاں سارے لوگ آئے، ذاکر بھائی یہیں منتظر تھے، بہت گرمجوشی کے ساتھ سلام و مصافحہ ھوا، انھوں نے ھوٹل کی پوری  بالائی منزل بک کرلی تھی،جو نہایت عالیشان
اور جدید طرز تعمیر کے علاوہ تمام آرائشی وسائل سے آراستہ تھی، شاہراہ کی جانب سے پوری دیوار شیشے کی تھی،
یہیں مولانا ذاکر صاحب کے دیگر ندوی احباب خصوصا مولانا شفیق ندوی صاحب سے ملاقات ہوئی، دورویہ لگی ہوئی کرسیوں کی قطاروں پر سارے حضرات براجمان ہوگئے، 

مرکزی شخصیت ذاکر بھائی کی تھی لیکن دیگر حضرات بھی محو گفتگو تھے، یادوں کے جزیرے تھے، لطائف کی کہکشاں تھی، علم کی خوشبوئیں تھیں،ادب کی رنگینیاں تھیں، طنز کی مسکراہٹیں تھیں اور ظرافت و  مذاق کے قہقہے اور ہمہمے تھے، خاص طور پاسبان اور اہل پاسبان کا ذکر والہانہ انداز میں نظر آیا، غرض علم وادب اور لطائف وظرافت کی پھلجڑیاں اس شان سے چھوٹ رہی تھیں، اور فضاؤں میں تبسم وقہقہوں کی کرنیں اس طرح محسوس ہورہی تھیں جیسے موسم بہار میں ہرے بھرے گلزاروں میں ہفت رنگ تتلیوں کا رقص۔

تھوڑی ہی دیر میں مشروبات اور کھانے کی تمہیدات کے بعد مختلف قسم کی ڈشوں سے طویل وخوبصورت میز آراستہ ہوگئیں، کھانے سے قبل ہی ہم نے ذاکر بھائی کی خدمت میں ماہنامہ الماس کا شمارہ اور اس کا خصوصی نمبر پیش کیا جسے انھوں نے بخوشی قبول کر لیا اس کے علاوہ دیگر اہل محفل کو بھی الماس کے شمارے پیش کیے گئے۔ کھانا بہت عمدہ تھا،سیر ہوکر لوگوں نے کھایا، بلکہ مولانا محمد خالد صاحب جن کی تحریک پر ہماری حاضری ہوئی تھی ان کی خاموشی پر مولانا خورشید صاحب نے احتجاج کیا مگر انھوں نے یہ کہ کر کہ کھانے کے دوران ہم گفتگو کے قایل نہیں ہیں تاکہ لقمے کا نقصان نہ ہو،، مجلس کو قہقہہ زار بنادیا، 
کھانے سے فارغ ہونے کے بعد مولانا محمد طلحہ صاحب استاذ مدرسہ دارالفلاح ممبرا نے بہت خوبصورت لہجے اور شیریں طرز میں ایک شاندار غزل سنائی، انھوں نے اپنی نغمگی اور غزل کی رنگینی سے پوری محفل کو مخمور کرڈالا، داد وتحسین کے شور میں ان کی غزل مکمل ہوئی، تو ہمارے دل نے بھی خطرہ محسوس کیا کہ کہیں ہمارے اوپر بھی آزمائشی تلوار نہ چلا دی جائے لیکن ابھی اس لرزہ خیز خیال میں داخل ہی ہوا تھا کہ ترجمان صاحب اور مولانا ذاکر صاحب کی صدا ئیں بلند ہوگئیں، بالآخر حکم کی تعمیل میں ہم نے بھی ایک غزل سے حاضرین کی سمع خراشی کی، اب یہ تو اہل مجلس ہی بتائیں گے کہ انھوں نے اس دوران کس قدر صبر کا مظاہرہ کیا تھا۔ہاں یہ ضرور ہے کہ اس کے باوجود ہمارے مشفق اور کرم فرما دوست مولانا محمد امجد صاحب نے پانچ سو روپے سے نواز کر جمال کا پردہ ڈال دیا۔
غزل کے دور کے بعد بالترتیب لوگوں نے ہاتھ وغیرہ دھل کر نیچے کی راہ لی اور تقریباً آدھے گھنٹے تک ہوٹل کے صحن میں مختلف موضوعات پر باتیں ہوتی رہیں اب گیارہ بج چکے تھے اس لیے سارے حاضرین اور خصوصاً ذاکر بھائی اور مولانا محمد امجد وغیرہ سے مصافحہ کرکے اجازت لی گئی، ترجمان صاحب نے پان کھلایا اور انھیں کے ساتھ مدرسہ دارالفلاح تک آئے اور پھر آئندہ کی ملاقات کے وعدے کے ساتھ گوونڈی کے لئے روانہ ہوگئے، تقریباً بارہ بجے مستقر پر پہونچے، اور اس رنگین شام کی خوبصورت تصویروں کے ساتھ زندگی پھر صبح وشام کے کاروبار میں مصروف ہوگئی۔۔۔

شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی
مدیر۔ماہنامہ الماس ممبئی
13/اکتوبر 2021