Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, October 17, 2021

موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس



از /أبو معاذ، قطر / صدائے وقت. 
==================================
دوحہ کے ایک ریستوراں میں چند دوستوں کے ساتھ ناشتہ کررہے تھے، ایک بہت سینئر کلیگ ریستوراں میں داخل ہوئے، دور سے علیک سلیک ہوا، جس ٹیبل پر ہم لوگ ناشتہ کررہے تھے وہ فل تھا، رسما سب نے ان سے کہا آئیے ساتھ میں ناشتہ کرتے ہیں۔ بڑی خوش اسلوبی سے معذرت کرتے وہ دوسرے ٹیبل پر بیٹھ گئے۔ ناشتہ کرتے ہم لوگ گپ شپ میں مشغول تھے، وہ ناشتہ کرکے کب چلے گئے ہم لوگوں کو احساس نہی ہوا۔ ناشتہ کے بعد ہم لوگ کاؤنٹر پر بل ادا کرنے گئے تو کیشیئر نے بتایا کہ فلاں صاحب جو وہاں بیٹھ کر ناشتہ کررہے تھے انھوں نے آپ لوگوں کا بل ادا کردیا۔
قیام الدین صاحب مرحوم کی سخاوت کی یہ ایک بہت چھوٹی سی مثال ہے۔ چند سال پہلے کمپنی سے ان کو کار ملی، جس روز وہ کمپنی کی کار گھر لے کر پہنچے اسی روز اپنی ذاتی کار چھوٹے منصب پر کام کرنے والے اپنے ایک فلیٹ میٹ کو ہدیہ کردیا۔ جس صبح اچانک ان کا انتقال ہوا، آفس میں پہنچا تو ان کے ایک کلیگ زارو قطار روتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے، کچھ دیر بعد سنبھلے تو ان کی خوبیاں بیان کرنے لگے، ان کی سخاوت کا ذکر کرتے کہنے لگے ہم لوگ سینکڑوں مرتبہ ان کے ساتھ کھاۓ پئے ہوں گے کبھی کسی کو بل ادا کرنے نہی دیتے۔ یہاں تک کہ ان کے ساتھ بارہا شاپنگ کے لیے گیا، چیزیں پسند آئیں اٹھا لیا ، ہر بار کوشش کرتا کہ اس بار قیام بھائی کو پیسہ نہی دینے دوں گا لیکن اپنی کوشش میں کبھی کامیاب نہی ہوا۔ آفس میں اپنے ڈراور میں پابندی سے ڈرائی فروٹس وغیرہ رکھتے تھے، آفس پہنچتے ہی اپنے ڈسک پر نکال کر رکھ دیتے، خود کھاتے اور سب کو کھلاتے۔ 

کل ان کے ایک جونیئر کلیگ جناب شاہد خان صاحب کی منزل پر تعزیتی نشست میں شرکت کا موقع ملا، 20/25 لوگوں نے ان کے تعلق سے اپنے خیالات و جذبات کا اظہار کیا۔ کسی نے ان کی ملنساری و خوش مزاجی کی مثالیں سنائیں تو کسی نے ان کی ظرافت و نفاست کی عادتوں کو بیان کیا۔‌ ایک نے ان کے جذبہ تعاون و سخاوت کے واقعات کا ذکر کیا تو دوسرے نے ان کی دینی جذبے و حمیت کے گن گاۓ، تیسرے شخص نے ان کے حسن اخلاق و کردار کی تعریف کی تو چوتھے شخص نے ان کی دین داری و نماز کی پابندیوں کی باتیں بتائیں۔ کسی نے ان کے دینی علم و شاعری سے دلچسپی پر گفتگو کیا تو کچھ نے ان کی ادب نوازی و مہمان نوازی کے گیت گائے۔ کسی نے ان کے شاہانہ و قلندرانہ طور طریقے کی طرف اشارہ کیا تو کسی نے ان کی اعلی ظرفی کی ستائش کی۔  
 
 بعض نے اپنی 35 سالہ خوش گوار دوستی کے واقعات پیش کیے تو ان کے بہت سے کلیگ 23 سال، 6 سال اور چند ماہ  کی رفاقت میں ان کی خوبیوں کے گرویدہ نظر آۓ۔  قریبی دوستوں نے کہا کہ 35 سال میں ہم نے ان کو کبھی غمگین و افسردہ نہی دیکھا تو متعدد لوگوں نے بتایا کہ 23 سال کے عرصہ میں، آفس، گھر، محفل، دعوت مشاعرہ ہر جگہ ان کو ہشاش و بشاش پایا۔ کسی نے ان کی زندگی پر رشک کیا تو کسی نے ان کی وفات کو قابل رشک بتایا۔

5 سال سے اپنی بھی شناسائی تھی، جب ملے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ عمر کے ساتھ علم میں ہم سے بہت بڑے تھے، اعظم گڑھ سے تھے، اس لیے ملتے وقت ہمیشہ ایک حجاب سی کیفیت رہتی۔  فیس بک پر میری تحریر میں کوئی غلطی نظر آتی تو کہتے "جملہ ایسے درست لگتا ہے لیکن کسی ماہر سے کنفرم کرلیں، میری اردو زیادہ اچھی نہی ہے" اصلاح کرنے کا یہ انداز خلوص سے بھر پور لگتا۔ 
مدرسۃ الاصلاح سے فارغ تھے، عمری اور مدنی بھی تھے۔ آبائی وطن موضع بھور مئو، اعظم گڑھ تھا،  عرصہ پہلے علی گڑھ منتقل ہوگئے تھے، بچے وہیں پلے بڑھے اور تعلیم حاصل کیا۔ انتقال کے روز ان کے بڑے بیٹے طارق سے تھوڑی دیر ملاقات سے اندازہ ہوا کہ بچے کی بہترین تربیت ہوئی ہے۔ 

ان کے بہت سے کلیگ جن سے رشتہ داری تھی نہ علاقائی نسبت، کوئی حیدرآباد سے ہے، تو کوئی بہار اور بستی سے، ان سے اس قدر محبت کرتے تھے کہ انتقال کے روز سب غمگین تھے، کسی کی آنکھ سے آنسو چھلک رہے تھے تو کوئی زار و قطار رو رہا تھا۔ صبح ڈیوٹی جانے کے لیے لفٹ سے نکل رہا تھا کہ سامنے ہمارے پڑوسی عطاء اللہ ندوی کھڑے تھے، آنکھیں سرخ، آنسوؤں میں ڈبڈبائی ہوئی، کچھ پوچھتا اس سے پہلے بھرائی ہوئی آواز میں صرف اتنا بول پاۓ کہ قیام الدین بھائی۔۔۔دل کا آپریشن ہونا تھا اس کا علم تھا، فون پر دو روز بات ہوئی تھی، باتوں سے ایک لمحہ کے لیے بھی یہ احساس نہی ہوا تھا کہ کسی بیمار شخص سے بات ہورہی ہے۔ اس دوران جو ان سے ملا، ان کو دیکھا ان سے گفتگو کیا سب بہت مطمئن تھے، کسی کے وہم و گمان میں بھی نہی تھا کہ قیام الدین صاحب اتنی جلدی رخصت ہوجائیں گے اور سب کو سوگوار چھوڑ جائیں گے۔ ہر دل عزیز تھے اس لیے ان کی وفات کی خبر سب پر بجلی بن کر گری۔   

کچھ پریشانیاں لاحق ہوئیں تو چند روز پہلے ایمرجنسی میں داخل ہوئے، معلوم ہوا کہ بلاکیج ہے، آپریشن کرنا ہوگا، ان کے بڑے بیٹے سعودی عرب سے قطر آگئے، ڈاکٹر، دوست احباب سب مطمئن تھے۔ بین الاقوامی سطح کے ہسپتال کی ایمرجنسی میں تھے، ہمہ وقت طبی عملہ کی نگرانی میں تھے، اعلی قسم کی میڈیکل مشینریاں مہیا تھیں۔ لیکن موت تو برحق ہے، وقت ہوگیا تو آنی ہی آنی ہے، کوئی طاقت ایک لمحہ کے لیے موت کو متاخر نہی کرسکتی، خواہ کسی کی نگرانی و پہریداری میں ہوں۔ عقلمندی اسی میں ہے کہ ہم ہر وقت بعد الموت کی زندگی کے لیے تیار رہیں کیوں کہ وہاں یو ٹرن کا موقع نہی ہے۔ 

قیام الدین صاحب کو کسی کو دین کی نصیحت کرتے نہی دیکھا، وضع قطع سے ان کی دینداری کا اندازہ لگانا مشکل تھا لیکن ان کی زندگی میں دین قائم و دائم تھا، وہ دین کی عملی تصویر تھے۔  اللہ تعالیٰ ان کی بشری لغزشوں سے در گزر فرماۓ، ان کو اپنی جوار رحمت میں جگہ دے۔ بچوں و سارے اہل خانہ کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے۔
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس 

یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے