Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, October 19, 2021

قیام الدین صاحب کے انتقال پر اظہار تعزیت

 

از شاہد خان۔ دوحہ،قطر/ صدائے وقت 
==================================
مرحوم قیام الدین صاحب کی کن کن خوبیوں کا تذکرہ کیا جائے ، وہ خوش گفتار تھے ، خوش لباس تھے ، بذلہ سنج تھے ، حاضر جواب تھے ، شریعت کے نکتہ رس تھے ، ادب شناس تھے ، راسخ العقیدہ مسلمان تھے ، جن عقائد اور اصولوں پر ان کا ایمان تھا اس پر پوری ایمانداری کے ساتھ تاحیات گامزن تھے ، نہ ان میں کبر تھا نہ غرور تھا، نہ کبھی کسی پر اپنی دینداری کا رعب جھاڑتے تھے ، نہ کسی تارک الصلاۃ کو کمتر سمجھتے تھے ...نہ کبھی کسی پرلعن طعن کرتے تھے ، لیکن دینی غیرت وحمیت سے بھرپور تھے ، دنیا کے کسی بھی گوشے میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر تڑپ اٹھتے تھے ، علماء سے محبت کرتے تھے ، دوستوں کے دوست تھے ان کے ساتھ کھل کر ہنسی مزاق کرتے تھے ...چھوٹوں کے ساتھ بھی بے تکلفی اور شفقت کے ساتھ پیش آتے تھے ، کبھی کسی بات پر چٹکی  لیتے تو اس میں زندگی پھوٹتی ہوئی محسوس ہوتی ، ان کے احوال و کردار میں میں کہیں کوئی تصنع نہ تھا ، جو اندر تھا وہی باہر تھا ...وہ اپنی رائے پوری قوت کے ساتھ پیش کرتے تھے لیکن اسے تھوپنے کے قائل نہ تھے ۔
چونتیس سالہ طویل عرصہ گزارنے والے اپنے رفقاء کو بھی کبھی شکایت کا موقع نہ دیا ، نہ کبھی کسی بات پر ملول ہوئے اور نہ کبھی آپسی تعلقات کا گراف نیچے گرا ... یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔
وہ اپنی زندگی اپنے اصولوں کے مطابق گزارتے تھے ...اپنے معمولات اپنی عادت کے مطابق انجام دیتے تھے اور اپنی حیثیت کے مطابق اپنے ساتھیوں پر خرچ بھی کرتے تھے ۔
وہ اپنی زندگی میں کبھی کسی پر بوجھ نہیں بنے .. انھیں غمزدہ ہوتے ہوئے کبھی بام ودر نے نہیں دیکھا ، ظرافت کا پٹارہ وہ ہمیشہ ساتھ رکھتے تھے خود بھی ہنستے تھے اور دوسروں کو بھی ہنساتے تھے اور ہنستے ہنساتے زندگی کے آخری پڑاؤ سے بھی گزر گئے ۔
انھوں نے اپنی زندگی سادگی کے ساتھ بسرکی ، نوکری نے ان کا ساتھ نبھایا اور انھوں نے نوکری کا ساتھ نبھایا اس کے علاوہ کی دنیاداری انھیں نہیں آتی تھی ، اپنی تنخواہ سے اپنی اخراجات کی رقم روک کر باقی اپنی اہلیہ کو بھیج دیا کرتے تھے ، وہی ان کے گھر کی مدبر الامور تھیں اور انھوں نے اپنی اہلیت وقابلیت سے اسے ثابت بھی کیا ، بچوں کی اچھی تعلیم وتربیت کی ، مکان بنوایا اور آمدنی کے کچھ دیگر ذرائع بھی آراستہ کئے ۔
28 ستمبر کو اچانک ان کی طبیعت خراب ہوئی اور انھیں دوحہ قطر کے سب سے بڑے ہاسپٹل “مستشفی حمد “ میں داخل کرایا گیا ، طبی معاینہ کے بعد صحت کی مزید پیچیدگیوں کا علم ہوا ، بہت سارے اعراض کا انھیں خود بھی علم تھا لیکن علاج لاپرواہی کا شکار رہا ، دل کے آس پاس سات جگہ بلاکیج تھا ، آپریشن کے لیے ابھی ڈاکٹروں کا صلاح ومشورہ چل ہی رہا تھا کہ وقت موعود آ پہونچا اور ڈاکٹروں کی نگرانی اور جدید طبی سہولیات کے باوجود انھیں بچایا نہیں جاسکا اور چودہ اکتوبر 2021 جمعرات کی صبح روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی ... ان کے بڑے صاحبزادے طارق اپنے والد کی دیکھ بھال کے لیے پہلے ہی سعودی عرب سے قطر پہونچ چکے تھے ، جمعہ کی رات کو وہ اپنے والد کے جسد خاکی کو لے کر قطر ائرویز کے ذریعہ دہلی پہونچے اور پھر علی گڑھ روانہ ہوگئے ...بروز سنیچر علی گڑھ شوکت منزل والے قبرستان میں بعد نماز مغرب تدفین عمل میں آئی۔
مرحوم قیام الدین صاحب  کے ذکر خیر اور دعائے مغفرت کے لیے خاکسار کے غریب خانے پر 16 اکتوبر 2021 کی شام ایک تعزیتی نشست کا انعقاد ہوا جس میں تقریبا چالیس افراد نے شرکت کی 
جناب رحمت اللہ ندوی صاحب کی صدارت میں پروگرام ہوا ، جناب محمد فاروق ندوی صاحب نے تلاوت کلام پاک سے پروگرام کا آغاز کیا ، تمام شرکاء نے باری باری اپنے خیالات کا اظہار کیا ، پروگرام میں شریک ہر شخص افسردہ و آبدیدہ تھا اور مرحوم قیام الدین صاحب کے ذاتی اوصاف وکمالات کا معترف ومداح تھا۔