Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, October 18, 2021

آؤ مسلم لڑکیوں کی حفاظت کریں .......

 
        تحریر : توصیف القاسمی (مولنواسی) مقصود منزل  پیراگپوری سہارنپور موبائل نمبر 8860931450  
                           صدائے وقت 
+++++++++++++++++++++++++++++++++
       اس مضمون کے لکھنے کا صرف ایک ہی مقصد ہے  وہ یہ کہ امت مسلمہ کے فکرمند نوجوانوں اور علماء کرام کے سامنے  ایک  ترکیب ، ایک طریقۂ عمل آجائے اور وہ بھی اپنے اپنے محدود دائروں محدود محلوں اور علاقوں کے اندر مسلم خواتین بالخصوص اسکول و کالج میں زیرِ تعلیم بچیوں کی دینی اصلاح و تربیت کی فکر لیں ۔ ہمارا یہ دعویٰ بالکل نہیں کہ مذکورہ کام صرف ہم ہی کررہے ہیں اور ہماری یہ ضد بھی نہیں ہے کہ ہمارے بتلائے ہوئے طریقے کے مطابق ہی کام کیا جائے ، جو حضرات بھی امت مسلمہ کی اصلاح و تربیت کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں خواہ وہ کوئی ہو اور کسی بھی مسلک و فرقے سے متعلق ہوں ، کسی بھی نہج اور طریقے کے مطابق کام کررہے ہوں ، وہ سب ہمارے ہی بھائی ہیں اور ہم ان کی کامیابی کے لئے دعا گو ہیں ۔
     قارئین کرام ! پچھلے چند سالوں سے متشدد ہندوؤں اور ان کی تنظیموں نے مسلم لڑکیوں کو بہلانے پھسلانے کا بیڑہ اٹھایا ہؤا ہے ، اس کے ردعمل میں مسلمانوں نے بہت کچھ لکھا تنظیموں نے بیداری مہم چلائیں پمفلٹ چھاپے اخبارات میں مضامین شائع ہوئے ، ”تحفظ بیٹی“ کے عنوان سے بہت سی نظمیں پڑھی گئی اور مختلف آراء و منصوبے پیش کئے گئے ، کچھ بڑے شہروں میں مختلف اصلاحی و حفاظتی تدابیر بھی اختیار کی گئی  جو کہ بہت خوش آئند ہیں اور بیدارئ ملت کی علامات ہیں  ۔ سوشل میڈیا پر تارکینِ مذہب مسلم لڑکیوں کی تباہی کی داستانیں اور ایمان سے محرومی کے واقعات آئے دن آتے رہتے ہیں ۔ اس سب کے باوجود یہ حقیقت آج بھی اپنی جگہ اٹل ہے کہ کسی بھی مسلم لڑکی نے شعور و آگہی کی بنیاد پر ”ترک اسلام“ نہیں کیا یعنی انہوں نے اسلام کو اسلئے ترک نہیں کیا کہ اسلام بے جان رسوم ، بودے عقائد ، بوجھل عبادتوں کی بھرمار ، دیومالائی داستانوں و روایات کا ”مجموعہ“ ہے ۔  اس قسم کے واقعات زیادہ تر مندرجہ ذیل چند وجوہات سے پیش آتے ہیں ۔ 
 1۔  غربت کی وجہ سے ۔
 2۔ مذہبی گرفت کے کمزور ہونے کی وجہ سے ۔
 3۔ عشق و محبت کی وجہ سے ۔
  4۔  مہنگی شادیوں کے سبب نکاح کے حد درجہ مؤخر ہونے کی وجہ سے ۔
  5۔ گھریلو ماحول کے آوارہ ہونے کی وجہ سے ۔
  6۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کے مطابق ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تعلیم یافتہ مسلم بچیوں کو ان کے ہم پلہ تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کا نہ ملنا ، یہ سچ ہے کہ مسلم لڑکیوں میں تعلیمی گراف بنسبت لڑکوں کے بڑھا ہے ۔ 
  7۔ قوم پر اخوت اسلامی کے تحت کفالت یتامیٰ و مساکین کی جو ذمہداری عائد ہوتی ہے اس سے غفلت ۔ 
   یہ تمام وجوہات مکمل طور پر عارضی اور سطحی ہیں ، اسلام کو یا بحیثیت قوم مسلمانوں کو ان ”تارکینِ مذہب“ سے کچھ بھی نقصان نہیں ، یہ مکمل طور پر ان نوجوان بچوں اور بچیوں کا ذاتی نقصان ہے جو مذہبی حدود پھلانگ کر جارہے ہیں دنیوی بھی اور اخروی بھی ، حتیٰ کہ یہ ’پھلانگ‘ مسلمانوں کے ”عددی توازن“ کو بھی نہیں بگاڑ پائے گی ، کیونکہ دیگر مذاہب سے اسلام میں آنے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے ۔ اس قسم کے واقعات علماء و دانشوران قوم کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ضرور ہیں ۔ ہماری غفلت و لاپرواہی اور غیر ضروری مسائل میں الجھنے کا نتیجہ یہ ہے کہ آج کے سائینٹیفک دور میں ہم نے ماڈرن تعلیم یافتہ مسلم بچیوں کی کوئی دینی فکر نہیں کی ، مسلم بچیوں کے پاس جو دین ہے یا دین کے نام پر وہ جو کچھ جانتی ہیں ، وہ مکمل طور پر جھوٹے قصے کہانی ، بزرگوں کے کراماتی واقعات اور درگاہوں و مزارات کے اردگرد گھومنے والی من گھڑت بکواس سے زیادہ کچھ نہیں ، جو ہندو روایات سے ملتا جلتا ہے حتیٰ کہ عدت و طلاق کے مسائل بھی انتہائی غلط طریقے سے عورتوں میں رائج ہیں ، مثلاً یہ کہ جس خاتون کا شوہر انتقال کرجائے اسکو آسمان سے بھی پردہ کرنا چاہیے کیونکہ آسمان” مرد “ ہے ۔  ایسا ”دین “ اسکول و کالج کی ان مسلم بچیوں کو ہرگز مطمئن نہیں کر سکتا جو ہر چیز کو اسباب و علل ، علمی نقطہ نظر ، منطقی استدلالات و نتائج کے ذریعے سمجھنا چاہتی ہیں ۔ مزید یہ کہ اسکول و کالج میں مذہب بیزار ذہن باقاعدہ طور پر بنایا جاتا ہے  اور یہ جملہ تو ہر نوجوان کی زبان پر ہے کہ زندگی مزے کا نام ہے Life is fun  اور یہ کہ زندگی مستی کے لئے ہے Life is for enjoyment 
   اس سلسلے میں حلقہ سندر نگری شاہدرہ دہلی کے  علماءکرام و ائمہ حضرات اور  ذمہ داران  تبلیغی جماعت کے احباب نے 29 / اگست 2021  کو ایک میٹنگ بلائی  اوراس مسئلے پر غور و خوض ہوا ۔ مختلف حضرات نے موجودہ صورتحال  کچھ اس طرح بتلائی کہ ”امت“  عورت مرد اور بچوں کے مجموعہ کا نام ہے ، مگر دین و مذہب کو جاننے پہنچانے کے جتنے بھی ذرائع ہیں خواہ وہ مدارس اسلامیہ کی شکل میں ہوں یا مساجد  و تبلیغی جماعت  یا دینی جلسوں کی شکل میں ہوں — وہ بس مرد حضرات کے لئے ہیں ۔  عورتوں اور لڑکیوں کے لئے نہیں ، اسکول و کالج کی نوجوان بچیوں کے لئے تو بالکل نہیں ۔ 9/ 10/  سال کی عمر تک ہماری بچیاں مسجد جاتی ہیں یا محلوں کے مکتب میں جاتی ہیں ، اس کے بعد عورتوں کا بالخصوص نوجوان لڑکیوں کا مذہبی اداروں سے اور مذہبی شخصیات سے اصلاح و تربیت کے پروگراموں سے  یکسر تعلق ختم ہو جاتا ہے  نہ وہ مساجد جا پاتی ہیں  کہ جمعہ وغیرہ کے بیانات سنیں ،  لڑکیوں کے مدارس بہت کم ہیں ویسے بھی اسکول و کالج میں زیرِ تعلیم لڑکیاں اپنی مصروفیات کی وجہ سے ”مدارس اسلامیہ“ سے فائدہ نہیں اٹھا پاتی ، دین سے یہ دوری اس وقت مزید خطرناک ہوجاتی ہے جب  اسکول وکالج کا ماحول آوارہ خیالی کا ہو ، ٹیوشن سینٹرز کا اور برا حال ہو ،  مسلم و غیر مسلم  مردوں سے آزادانہ اختلاط معمول کی بات ہو ، ہمارے نوجوان بچے بچیاں  ٹی وی کلچر کی زیادہ پیروی کرتے ہوں  ، رہی سہی کسر موبائل فون نے پوری کردی ہو ، جہاں بہت آسانی سے انسان کے  سفلی جذبات کی تسکین کا سامان موجود ہے ، گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ کا نہ ہونا نوجوانی پر داغ سمجھا جاتا ہو ۔ مذکورہ تفصیلی صورت حال کے بعد سوال یہ ہے کہ کیا طریقہ اختیار کیا جائے  ؟ اور اب کیا ہوسکتا ہے ؟  اس سلسلے میں مختلف آرائیں آئی ۔ 
    1۔  جب تک بچیوں کی شادی نہ ہو جائے  تب تک ان کو  دینی تعلیم سے کسی نہ کسی طرح منسلک رکھا جائے خواہ گھروں میں ”منتخب احادیث“ و ”بہشتی زیور“  وغیرہ کی آدھے گھنٹے کی تعلیم ہی کیوں نہ ہو ؟  
    2۔ جمعہ کے بیانات بذریعہ ’تار و مائیک‘ محلے کے کئی ایک گھرانوں تک پہنچائے جائیں اور آس پاس کی عورتوں بالخصوص جوان بچیوں کو ان گھروں میں بلایا جائے ۔
    3۔  ہفتے میں یا پندرہ دن میں مساجد کے اندر صرف عورتوں کے پروگرام ترتیب دیے جائیں اور ان سے سوال بھی لئے جائیں ، کھلے ذہن کے ساتھ دین ومذہب کے بارے میں ان کے خدشات دور کئے جائیں ۔ 
    4۔  ہر محلے کی لڑکیوں کا ایک گروپ تشکیل دے کر باقاعدہ اس کو اسلامی خطوط پر ٹرینڈ کیا جائے کہ وہ آزاد خیال لڑکیوں پر نگاہ رکھے اور ان کو پابند شریعت بنانے  کی کوشش کرے اور اگر کسی کا کوئی  Love affair چل رہا ہے تو اس کو محبت سے سمجھانے کی کوشش کریں ۔  
  5۔  گرلز سٹوڈنٹ کو ٹریننگ کے ذریعے داعیانہ کردار میں ڈھالا جائے تاکہ اگر کوئی ان کو مذہب کے خلاف ورغلائے بھی تو وہ ناصرف  اپنا دفاع کرے بلکہ آگے بڑھ کر اسلام کی حقانیت کو ثابت کرے  اور شکاری ہی کو اسلام کی دعوت دے ڈالے ۔ مگر یہ تمام امور اکیڈمک سطح پر کئے جانے والے ہیں اور  طویل مدتی پروگرام کے حامل ہیں ، مگر فوراً کیا کیا جائے ؟ فوری حل کے لیے مندرجہ ذیل فیصلہ لیا گیا کہ سندر نگری حلقہ کی 3 بڑی مسجدیں ہیں ، تینوں مسجدوں میں  یکے بعد دیگرے خواتین کے   پروگرام منعقد کیے جائیں اور ان کی تشہیر اچھے سے ہر مسجد میں کی جائے ، اعلان میں اصل موضوع کو مختصراً بتا دیا جائے تاکہ اصل مسئلہ کے بارے میں لوگوں کے اندر سوچ پیدا ہو ۔ چنانچہ پہلا پروگرام 18/ ستمبر 2021 کو نورانی مسجد او بلاک میں ہوا خواتین کافی تعداد میں شریک ہوئیں ، مولانا کلیم صدیقی صاحب تشریف لائے ( بدقسمتی سے تین دن بعد مولانا کو یوپی A.T.S والوں نے میرٹھ سے گرفتار کرلیا )
  دوسرا پروگرام 25/ ستمبر 2021 کو مسجد نبوی این بلال سندر نگری میں ہؤا ، جس میں نوجوان عالم دین مولانا آصف محمود تشریف لائے ۔ 
   تیسرا پروگرام 3/ اکتوبر 2021 کو ایف 2 جامع مسجد سندر نگری میں ہؤا جس میں مفسر قرآن مولانا انیس قاسمی صاحب بلگرامی  تشریف لائے ، تینوں ہی پروگراموں میں کافی بڑی تعداد میں عورتیں آئیں ، اسکول و کالج میں زیرِ تعلیم ان بچیوں کے نام اور ان کے والدین کے موبائل نمبر لئے گئے جو دینی حمیت و غیرت رکھتی ہوں اور تقریر کرنے کا حوصلہ و شوق رکھتی ہوں ، تبلیغی جماعت کے ہفتے واری پروگراموں میں جڑنے اور پردہ کرنے کا مشورہ بھی دیا گیا ، ان پروگراموں کے نتیجے میں دینی بیداری کی لہریں صاف محسوس کی گئی ، عورتوں کی طرف سے ”مزید “ کی خواہش کی گئی ان کے شوہروں اور والدین نے کافی سراہا ۔ 
   اس شاندار علاقائی ملی بیداری کے لیے قابل مبارکباد ہیں  مفتی معین الدین صاحب مہتمم مدرسہ رمضانیہ سندر نگری دہلی ، مولانا محمد گلفام صاحب امام مدنی مسجد ایل بلاک سندر نگری دہلی ، مولانا عبدالوہاب صاحب مہتمم  جامعہ نفیسه للبنات او بلاک سندر نگری ، علاقائی تبلیغی جماعت کے ذمہ داران  اور وہاں کی مساجد کے ائمہ کرام و أہل کمیٹی ، ان تمام حضرات کے آپسی تعاون و ہمدردی ، باہمی مشورے سے یہ حرکت ہوئی اور پھر اس میں اللہ کی طرف سے برکت ہوتی چلی گئی ، الگ الگ مساجد میں خواتین کے تین بڑے اجلاس کے بعد اب ہر مسجد کے ائمہ کرام و ذمہ داران اور تبلیغی جماعت کے احباب کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اپنی اپنی مساجد میں خواتین بالخصوص اسکول و کالج میں زیرِ تعلیم بچیوں  کے اجلاس کا انتظام کریں ، اسلامی احکام و آداب کی رعایت کرتے ہوئے ۔
   امت مسلمہ کے تمام بہی خواہوں کو سوچنا چاہیے کہ مساجد سے صرف مرد فائدہ اٹھائیں اور عورتیں محروم رہ جائیں ؟ ایسا نہیں ہونا چاہیے ۔ یہ سچ ہے کہ مساجد کے صحیح اور بھرپور استعمال سے بہت بڑا انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے شرط یہ ہے کہ ائمہ کرام ، ذمہ داران و تبلیغی جماعت کے احباب میں آپس تعاون و ہمدردی کا رشتہ ہو ناکہ ایک دوسرے کو دبانے کا ۔ 
   اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”لا تمنعوا إماء الله مساجد الله“ یعنی اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں سے مت روکو ۔