Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, October 18, 2021

گاؤں کی باتیں.....

گاؤں کی باتیں
دور تک پانی میں پھیلے ہوئے دھان کے کھیت

از/ حمزہ فضل اصلاحی/ صدائے وقت 
==================================
صبح کا وقت ہے ،موسم خوشگوار ہے،ہوائیں چل رہی ہیں،نم اور تازہ ہوا کے درمیان دھیرے دھیر ےسورج چڑھ رہا ہے۔ ابھی اس کی سرخی ختم نہیں ہوئی ہے ۔ سامنے پانی میں دور دور تک دھان کا کھیت ہے، ہرا بھرا ہے ۔ دھان پھوٹ چکا ہے ،اس کی خوشبوہوا میں گھلی ہوئی ہے۔ دھان کی پتیوں پر شبنم کے قطرے نظر آرہے ہیں، لڑھنکے کے قریب ہیں۔ سامنے سفیدہ کے پتلے پتلے درخت ایک ساتھ جھوم رہے ہیں۔ آسمان پر قوس قزح ہےجوکھیتوں کا زیور بن گئی ہے،ان کاحسن دوبالا کررہی ہے ۔ ایسے دلفریب مناظر کم کم دکھائی دیتے ہیں۔ اس دور میں ایسا بھی ہوتا ہےکہ قوس قزح اپنے رنگوں کے ساتھ آتی ہے ، خاموشی سے چلی جاتی ہے ، کسی کو پتہ ہی نہیں چلتا ہے۔پتہ چلتا ہے تو لوگ اسے موبائل کے کیمرے میں قید کرلیتے ہیں ۔
   گاؤں میں اب تک دھان کی فصل لہلہا رہی ہے، ان کھیتوں  میں بارش کا  پانی جمع ہے جو انہیں زندگی دے رہا ہے ، اب دھیرے دھیرے ان کی شادابی ختم ہورہی ہے ، سوکھنےلگے ہیں،ان میں  بالیاں آگئی ہیں ، بالیوں میں دانے بھی آگئے ہیں،حالانکہ وہ کھیت اب تک ہرے بھرے ہیں جن کی بوائی بعد میں کی گئی تھی، ان پر رنگ چڑھا ہوا ہے، سیاہی مائل ہے، اکتوبر کے آخر یانومبر کے آخری عشرہ تک ان کےپکنے کی امید ہیں۔ ان میں بھی پانی ہے،ندی اور تالاب کے قریب کے کھیتوں میں مچھلیاں بھی ہیں ۔کچھ دھان تیار ہیں ، پوری طرح پک چکے ہیں، ان کی کٹائی شروع ہوگئی ہے۔ کہیں کہیں صرف جڑسے الگ کر کے سوکھنے کیلئے کھیتوں میں چھوڑ دیئے گئے ہیں، ایک دو دن میں انہیں سمیٹ لیا جائے گا ۔ اسی طرح اب گاؤں والے پگڈنڈیوں،سڑکوں اور گلیوں میں دھان کابوجھ لئے ہوئے دکھائی دینے لگے ہیں۔ کچھ لوگ ٹھیلہ پربھی لا دکردھان گھر لا رہے ہیں ۔
  اب بوائی ،کٹائی اوردھان گھر تک سمیٹ کر لانے میں کچھ ہوتا ہی نہیں، سب کچھ خاموشی سے ہوجاتا ہے ۔ بیس سال پہلے تک بوائی سے لے کر کٹائی تک شور ہنگامہ ہوتا تھا ۔ اتفاق سے پوروانچل میں دسہرہ اور دیوالی کے درمیان ہی دھان کی کٹائی ہوتی ہے۔ پہلےکٹائی پر تیوہار کا اثر نظر آتا تھا ۔دھان کاٹتے وقت بھی لوگ خو ش رہتے تھے۔ گیت گاتے تھے ، ہنستے بولتے تھے ۔ عورتیں اور لڑکیاں بھی پیش پیش رہتی تھیں۔ان میں سے کچھ اس زمانے کے اعتبار سے نئی ساڑی اور نئے جوڑے میں بھی ہوتی تھیں ۔ دھان تیار ہونے کے بعد پورا خاندان ایک ساتھ مل کر دھان کی کٹائی کرتا تھا۔ محلے اور بستی والے بھی مل کر ایک دوسرے کا دھان کاٹتے تھے ۔ کھیت ہی میں کھانا پینا سب ہوجاتا تھا۔ کٹائی کے بعد دھان کے ڈنٹھل کو سمیٹا جاتاتھا ، اکٹھا کیاجاتا تھا ۔اس کا ’بوجھ‘( گٹھر) بنایا جاتاتھا،پھر اسے کھلیان لا یا جاتاتھا، وہاں دھان کا ڈھیر لگ جاتاتھا۔کھیت خالی ہونے کے بعد ڈنٹھل سے دھان الگ کیاجاتا تھا،یہ کام بھی مل جل کرکیا جاتاتھا ۔ اینٹ پر لکڑی کا’ تختہ‘ رکھ دیا جاتا تھا ، یہ اس زمانے کے دروازے (پلہ) سے بھی بنا یا جاتاتھا ۔ پھر دونوں ہاتھوں سے ڈنٹھل کےنیچے کا حصہ پکڑا جاتاتھااور اس کے اوپر کے حصے کو طاقت کے ساتھ تختہ پرگرایا جاتاتھا۔ یہ عمل کئی بار کیا جاتاتھا ، اس طرح ڈنٹھل سےدھان الگ ہوجاتا تھا ۔کام ختم کرنے کے بعد ڈنٹھل کے ڈھیر پر سب ایک ساتھ مل کر کھانا کھاتے تھے، پانی پیتے تھے ۔ اس کے بعدبوری میں اناج بھر کر گھر لاتے تھے۔ کچھ علاقوں میں آج بھی یہ طریقہ رائج ہے ۔دھان کو چاول بنانے کیلئے اس زمانے کی مشینوں کا سہارا لیا جاتا تھا۔اب ہرعلاقے میں رائس ملیں ہیں ۔ 
 دھان الگ ہونے کے بعد ڈنٹھل کا استعمال ہوتا ہے۔ اسے پوروانچل کی بول چال میں’ پورا‘ کہاجاتا ہے،حالانکہ لکھنے پڑھنے کی زبان میں اسے ’پوال‘ اور’ پرالی‘ کہا جاتا ہے ، جب سے مشینیں گیہوں کابھوسا اڑا دیتی ہیں ، ’پورا‘مویشیوں کو کھلا یاجاتا ہے۔ اس کی اہمیت بڑھ گئی ہے ۔ا س کی بھی خریدو فروخت ہونے لگی ہے۔ پہلے اس کا سب سے زیاد ہ استعمال سردی کا بستر بنانے میں کیا جاتا تھا۔گلابی جاڑے میں دھان کٹ جاتے تھے ، سردی شباب پر آنے سے ذرا پہلے ہر گھر کے ’دالان‘ اور’ بیٹھک‘ میں پورا بچھایا جاتاتھا۔پوس کی سردراتیں اسی بستر پر کٹتی تھیں،جب تک لوگ جاگتے تھے،الاؤ کے گرد بیٹھے رہتے تھے ،رات ہوجاتی تھی تو اسی بستر میں دبک جاتے تھے،اوپر رضائی اور کمبل ہوتا تھا، نیچے پوراہوتا تھا۔
 دھان کی بوائی کا بھی الگ قصہ ہے۔ اس عمل کو ’روپائی‘ کہاجاتا ہے۔ روپائی کرنے والی مزدور عورتوں کی فوج کھیت میں اترتی تھی۔   ایک ساتھ گیت گاتی تھیں ۔ ان کی آواز آس پاس سنائی دیتی تھی۔ اس دن تیوہار جیسا لگتاتھا ۔روپائی والے دن کسی چیز کی پروا نہیں کی جاتی تھی ۔ تیز بارش اور آندھی طوفان کے درمیان بھی روپائی ہوتی تھی، زیادہ بارش میں گیت رک جاتی تھی۔ روپائی کے دوران ہلکی ہلکی بارش اور بھیگی بھیگی ہوا  چلتی تو یہ گیت کیلئے سب  سے مناسب موسم مانا جاتا تھا۔ بتاتے ہیں کہ پانی میں کھڑی ہوکر اور بعض دفعہ بارش میں بھیگ کر روپائی کرنے والی عورتوں کو گڑ کا شربت ملتا تھا ، چنا ملتا تھا۔مزدوری میں غلہ ملتا تھا۔اب دھان کی روپائی کی مزدوری میں پیسہ ملنے لگا ہے۔مزدور آتے ہیں، جلدی جلدی کام نمٹاتے ہیں ، گھر کی راہ لیتے ہیں۔ ان کے پاس گیت گانے کا وقت ہی نہیں ہوتا ہے ۔کوئی فرمائش بھی نہیں کرتا ہے۔ کوئی اس کی کمی محسوس نہیں کرتا ہے۔ پرانے لوگ ہی ’گیت ویت‘ کا قصہ لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔
  بر سات جاتا ہے ، اپنے ساتھ دھان کے کھیت بھی لے جاتا ہے۔ اس طرح گاؤں کا حسن چھن جاتا ہے ۔