Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, October 24, 2021

دھان گرے سہاگے کا،گیہوں گرے ابھاگےکا... گاؤں کی باتیں

از/ حمزہ فضل اصلاحی /صدائے وقت 
.                      حمزہ فضل اصلاحی 
==================================
اکتوبر کی صبح ہے،مطلع ابر آلود ہے، ہوا سرد ہے،اتنی کہ دانت نہیں بج رہے ہیں مگربرسات کی رخصتی اور سردی کی آمد کا احساس ہورہا ہے۔ سامنے دھان کے کھیت ہیں مگر یہ گزشتہ کالم والے کھیت نہیں ہیں۔ بہت کچھ بدل گیا ہے۔ کل تک لہلہانے والے دھان ایک دوسرےپر گر گئے ہیں۔کچھ کھیتوں میں دھان کی پکی ہوئی بالیاں بارش کے پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ کچھ کے صرف ڈنٹھل ڈوبے ہوئے ہیں مگر ان کی بالیاں محفوظ ہیں۔ ایسے ہی دھان کے کھیت کے قریب کالم نگار کی ایک کسان سے ملاقا ت ہوئی۔ ان کے کندھے پر پھاوڑا ہے۔ وہ کھیت سے گھر کی طرف جارہے ہیں، ان کا راستہ روک کر پوچھا :’’کہا ں گئے تھے صبح صبح؟ ‘‘ بتایاکہ دھان کے کھیت میں قریب کے پوکھرے کا اور آس پاس کا پانی جمع ہو گیا ہے،نکلنے کاکوئی راستہ نہیں ہے، پانی’ کٹانے‘ گیاتھا۔
جب دھان یا کسی بھی کھیت میں زیادہ پانی رک جاتا ہے، جگہ جگہ اس کی ’مینڈ‘ کاٹ کر پانی نکالا جاتا ہے، اس عمل کو پوروانچل میں ’ کٹانا ‘ کہتے ہیں۔ ان کے الفاظ میں :’’ دھنوا میں پانی لگ گوا ہے، کٹا وے گئے رہیں، پوکھریا کا پنیا آوا ہےنا، مچھری بہت آئن ہیں، بہت ڈڑوا ہیں، بڑ کیو مچھریا آئن ہیں اک آدھ.. جال لگا دا، اکے گھنٹہ میں بھر جائی۔ دھنوا تیار ہے، بالی لگ گئی ہے، پنیا نہ کٹوتے تو دھنوا، بلیا سدھن گر جاتے۔‘‘(دھان میں پانی لگ گیا ہے، کٹانےگیا تھا، پوکھری کا پانی آگیا ہے نا، مچھلی بہت آئی ہیں، مچھلی کے بچے بہت ہیں، بڑی مچھلی بھی آئی ہیں ایک آدھ.. جال لگا دو، ایک گھنٹہ میں بھر جائے گا،دھان تیار ہے، بالی لگ گئی ہے، پانی نہیں کٹاتاتو دھان بالیوں کے ساتھ گر جاتے )
 وہ تھوڑی دیر رکے، دور تک پھیلے ہوئےدھان کے کھیت کی طرف دیکھا۔ پھر خود کو کوسا، اپنی غلطی پر افسوس کیااور یہ بتایا کہ جن کھیتوں میں پانی لگتے ہیں، وہاں نومبر کے پہلے عشرے میں تیار ہونے والے دھان کی بوائی کرنی چاہئے۔ وہ گویا ہوئے :’’ گلتی بھئی ... تنکو انداجا رہتے کہ اتنی بارس ہووئی تو بعد میں تیارہووالا دھان بو دیہے ہوتیں ، آرام سے تیار ہوتے، کونو جھنجھٹ نہ رہتے، اتنی مگج ماری سے بچ جاتیں...‘‘(غلطی ہوئی، ذرا بھی اندازہ ہوتا کہ اتنی بارش ہوگی تو بعد میں تیار ہونے والا دھان بودیتے، آرام سے تیار ہوتا، کوئی جھنجھٹ نہیں ہوتا، اتنی مغز ماری سے بچ جاتے)۔ بات کرتے کرتے کسان نے پھاوڑا نیچے رکھا اور بتایا کہ جتنی دور دھان کے پودے گر گئے ہیں، اسے مشین نہیں کاٹے گی، ہاتھ ہی سےکاٹنا پڑے گا۔یہ سب بتاکر وہ پھاوڑا لئے آگے بڑھ گئے، کالم نگار بھی۔
 آگے دونوں طرف کھیت ہیں۔ ان کے درمیان ایک کچا راستہ ہے۔ بارش کی وجہ سے جگہ جگہ گڑھوں میں پانی بھرا ہے،وہاں سے گزرنے والی گاڑیوں نے ان کی شکل او ر بگاڑ دی ہے۔ پھسلنے کے خوف سے کالم نگار سنبھل سنبھل کر آگے بڑھ رہا ہے۔ راستے کے دونوں طرف دھان کے ساتھ ساتھ ارہر کے بھی کھیت ہیں،حالانکہ کچھ کھیتوں میں پانی لگنے سے ارہر کےپودے گل گئے ہیں، سوکھ گئے ہیں۔ان کی الگ کہانی ہے،اس پر پھر کبھی .. ایک جگہ بڑی سی پلیا کے سامنے دھان کا کھیت دیکھ کررک گیا۔ پو رے کھیت میں  دھان کے پودے سوگئے ہیں، بالیاں اورڈنٹھل پوری طرح پانی میں ڈوب گئے ہیں، پودے ’مانجھے ‘کی طرح الجھے ہوئے ہیں۔ کالم نگار کچے راستے پر کھڑے ہوکر اس منظر کو کیمرے میں قید کرنےلگا، وہاں چار پانچ بھینسیں آگئیں ، انہیں سنبھالنے کیلئے ایک معمر ان کے پیچھے ڈنڈا لئے چل رہے ہیں، لنگی اور بنیان پہنے ہوئے ہیں، ہاتھ میں چھتری ہے۔ کالم نگار بھی ان کے ساتھ چلنے لگا۔ مذکورہ دھان کے کھیت کی طرف اشارہ کرکے ان سے پوچھ لیا: ’’اس دھان کا کیا بنے گا ؟کچھ بچے گا،یابر باد ہوجائے گا،سب ڈوب گیا ہے، بہت نقصان ہوگیا ہے۔‘‘ ا ن کا جواب تھا :’’ابھی کچا ہے،پوری طرح پکا نہیں ہے، ایک دو دن میں پانی کم ہوجائے گا۔ ہاں کاٹنے والے کو دقت ہوگی۔ بار بار اندر باہر جانا ہوگا، ایک لہنا ( ایک مٹھی میں آنے والا دھان کا ڈنٹھل یا اس سے کچھ ز یادہ) کا ٹنا ہوگا، پھر باہر لے کر جانا ہوگا، سوکھی جگہ کر رکھنا ہوگا۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی کاٹے اور کوئی باہر لے جاکر رکھے، اس طرح کچھ نہ کچھ دھان مل جائے گا۔پورا( پوال) بالکل نہیں بچےگا۔ پکا ہوتا تو کچھ بھی نہیں ملتا، پانی میں رہنے سے بالی ہی میں دھان ’انکھیا‘ جاتا یعنی اس میں’انکھوا‘ نکل آتا، پورا (پوال)بھی سڑ جاتا۔‘‘
 پرانے وقت کو یاد کرتےہوئے ان کا کہنا تھا :’’ پہلے سنچائی کچی یا پکی نالی سے ہوتی تھی، پائپ سے نہیں ہوتی تھی، جگہ جگہ پلیا لگی ہوتی تھی، بر سات کا پانی اس سے آسانی سے نکل جاتا تھا،ندی میں یا تالاب میں چلا جاتاتھا، کھیتوں میں گھر بھی نہیں بنے تھے، آبادی کم تھی، دھان اس طرح برباد نہیں ہوتے تھے۔’دھان گرے سہاگے(خوش قسمت) کا گیہوں گرے ابھاگے (بدقسمت )کا ‘ اس وقت کہا جاتاتھا جب سوکھے کھیت میں دھان گرتاتھا، اس کامطلب یہ ہوتا تھاکہ بالیوں میں زیادہ دانہ لگ گیا ہے، پودا اس کا بوجھ سنبھال نہیں پایاہے۔ ‘‘ 
  مہینوں کی تقسیم کے اعتبار سے بر سات گزر گیا ہے مگر اب بھی وقفے وقفے سے بارش آتی ہے،اس کی بوندیں دھان کی فصلوں پر مسلسل گرتی ہیں، نتیجتاً ہواؤں کے ساتھ جھومنے والے دھان کےپودےجھک جاتے ہیں، گرجاتے ہیں، ڈوب جاتے ہیں۔ 
 جن کسانوں کی فصل تباہ ہوگئی ہے، وہ افسوس کررہے ہیں اور خود کو سمجھانے کیلئے کہہ رہے ہیں:
 ’’ کھیتی کسانی جو ا ہے۔‘‘