Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, November 28, 2021

ایس ڈی پی آئی کی قومی نمائندگان کونسل میں 12قرار داد یں منظور

ملک میں بڑھتے تشدداور جمہوریت کی توہین کو متحد ہوکر روکا جائے۔ا یس ڈی پی آئی 
نئی دہلی۔ صدائے وقت (پریس ریلیز)۔
==================================
 سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (SDPI) کی قومی نمائندگان کونسل 22اور 23نومبر کو چنئی تمل ناڈو میں منعقد ہوئی۔ کونسل میں مختلف ریاستوں کے نمائندے موجود تھے جس میں پارٹی سرگرمیوں کا جائزہ لیا گیا اور عالمی و ہندوستانی سماجی و سیاسی حالات، مسائل اور مداخلت وغیرہ پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ کونسل نے 2021-24کی مدت کیلئے پارٹی کی قومی ورکنگ کمیٹی کے نئے عہدیداران اور اراکین کا انتخاب کیا اور مندرجہ ذیل 12قراردادیں منظور کی ہیں۔ 1)۔ بڑھتے تشدد اور جمہوریت کی توہین کو متحد ہوکر روکا جائے۔ہندوستان میں جمہوریت کو موجودہ حکومت سے خطرات کا سامنا ہے کیونکہ اختلاف رائے کی آوازوں کو دبایا جاتا ہے اور حکومت کی عوام دشمن اور آئین مخالف پالیسیوں کی مخالفت کرنے والوں کو سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے۔ پارلیمنٹ کے اجلاس برائے نام ہورہے ہیں کیونکہ بلوں کو بحث کے بغیر اور احتجاج کے درمیان منظور کیا جاتا ہے۔ جو لوگ قبائیلیوں، آدی واسیوں اور غریب دیہی لوگوں کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرتے ہیں ان پر 'اربن نکسل 'اور اختلاف کرنے والوں کو 'دیش دروہی'کا لیبل لگا کر انہیں جیلوں میں ڈالنے کیلئے یو اے پی اے، این ایس اے، پی اایم ایل اے، پی ایس اے وغیرہ سخت قوانین کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ملک میں سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ ایس ڈی پی آئی کی یہ قومی نمائندہ کونسل ہر ہندوستانی شہری سے ملک میں بڑھتے ہوئے تشددکے خلاف متحد ہونے کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہ کونسل تمام اپوزیشن پارٹیوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ متحد ہوکر جمہوریت کو بدنام کرنے و الی بی جے پی حکومت کے کسی بھی اقدام کی مخالفت کریں اور انہیں اقتدار سے دور رکھیں۔ یہ کونسل مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پر حملوں کو روکنے کیلئے "مسلمانوں پر مظالم کی روک تھام ایکٹ "اور "فرقہ وارانہ تشدد ایکٹ "بنانے کا مطالبہ کرتی ہے۔ 2)۔ کسانوں کے مطالبات کو پورا کیا جائے۔ کسان ایک سال سے دہلی اور ہریانہ کی سرحد پرکالے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ ا س تحریک میں تقریبا 700کسان شہید ہوئے ہیں۔ بی جے پی کے وزراء، اراکین پارلیمان، اراکین اسمبلی اور بی جے پی کی دیگر حامی مشہورشخصیات نے احتجاج کرنے والے کسانوں کو 'دہشت گرد'،'خالصتانی 'اور 'فساد پھیلانے والے 'کہہ کر ان کی توہین کی ہے۔ ایم ایس پی پر خاموش ہیں جو کسانوں کا ایک اور اہم مطالبہ ہے۔ ایس ڈی پی آئی کی قومی نمائندہ کونسل کا مطالبہ ہے کہ مرکزی حکومت ایم ایس پی سسٹم کو نافذ کرے اور زرعی قوانین کو فوری طور پر واپس لے، احتجاج میں ہلاک ہونے والے کسانوں کے سوگوار خاندانوں کو مرکزی حکومت مناسب معاوضہ دے۔ نیز حکومت احتجاج کے دوران کسانوں پر درج تمام مقدمات واپس لے۔ 3)۔ ریاستی حکومتیں مرکزی حکومت کی وفاقیت کو کمزور کرنے کی کوششوں کی مزاحمت کریں۔ ہندوستان ایک وفاقی ملک ہے جہاں آئین میں ریاستوں کو بہت سے اختیارات اور مراعات دی گئی ہیں اور اختیارات کو یونین اور ریاستی حکومتوں کے درمیان تقسیم کیے گئے ہیں۔ تاہم، بی جے پی مرکزی حکومت ریاستوں کے مراعات میں مداخلت اور روک لگارہی ہے۔ مرکزی بی جے پی حکومت نے ریاستوں کے ساتھ مشاورت کے بغیر نئی قومی تعلیمی پالیسی، لیبر قوانین وغیرہ کو نافذ کر دیا ہے۔ مرکزی بی جے پی حکومت کی طرف سے ریاستوں کو جی ایس ٹی کے حصہ کی واپسی انکار ہمارے ملک کی وفاقیت کو نظر انداز کرنے کی ایک اور مثال ہے۔ آرٹیکل 370جو کشمیر کی خصوصی حیثیت کی ضمانت دیتا ہے، اس کو بی جے پی حکومت نے بغیر کسی بحث ومبا حثے کے اچانک منسوخ کردیا ہے۔۔ چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ مرکزی بی جے پی حکومت نے بارڈر سیکورٹی فورس (بی ایس ایف) کے دائرہ اختیار میں اضافہ کرتے ہوئے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا ہے تاکہ اس کے افسران کو کئی سرحدی ریاستوں کے اندر سرحدوں سے 50کلومیٹر تک گرفتاری، تلاشی اور ضبطی کے اختیارات دیئے جائیں۔ بی ایس ایف کو خصوصی اختیارت دیے گئے ہیں جس میں سی آر پی سی، پاسپورٹ ایکٹ اور پاسپورٹ (انٹری ٹو انڈیا) ایکٹ کے تحت کارروائی کرنا بھی شامل ہے۔ اگر یہ صورتحال ہے تو پھر ریاست میں کون سے اختیارات باقی رہ گئے ہیں؟۔ مرکزی حکومت کی فراخ دلی سے ریاستی حکومت صرف 'مینٹیننس کمپنی 'بن کر رہ جائے گی۔ ایس ڈی پی آئی کی قومی نمائندہ کونسل مرکزی بی جے پی حکومت کو متنبہ کرتی ہے کہ اسے وفاقیت کو کمزور کرنے کے کھیل سے دور رہنا چاہئے اور ریاست کے حقوق اور مراعات کا تحفظ کرنا چاہئے۔ آرٹیکل 370کو بحال کیاجائے، یہ کونسل تمام غیر بی جے پی ریاستی حکومتوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ متحد ہوکر ہندوستان کی مرکزی حکومت کے کسی بھی ایسے اقدام کے خلاف مزاحمت کریں جب وہ ریاستوں کے مراعات اور حقوق میں مداخلت کرتی ہے۔ 4)۔ معاشی تباہی مرکز ی بی جے پی حکومت کی غلط اور اڑیل پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہندوستانی معیشت مسلسل زوال کا شکار ہے۔ یہ بے مثال مالی بحران مرکزی بی جے پی کی غلط اور متکبرانہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ غیر متوقع اور بے سوچے سمجھے "نوٹ بندی "نے عوام کو ناقابل برداشت نقصانات اور گہری مصیبت میں دھکیل دیا ہے۔۔ بھو ک کی عالمی فہرست میں ہندوستان 101ویں نمبر پر ہے۔ ایس ڈی پی آئی کی قومی نمائندہ کونسل کا مطالبہ ہے کہ مرکزی بی جے پی حکومت ملک کی معیشت کو بحال کرنے کیلئے عملی اقدامات پر عمل کرے۔ نوجوانوں کو روزگا ر فراہم کرے اور چھوٹے پیمانے کی چھوٹی کاٹیج صنعتوں کو سبسڈی اور مراعات فراہم کرے۔ ملک میں کم از کم ٹیکس کا نظام متعارف کرانا چاہئے تاکہ تباہ شدہ ٹریڈ اور کامرس کو بحال کیا جاسکے۔ 5)۔ بھارتی خارجہ پالیسیوں کی ناکامی تباہ کن ہے۔ مودی کے اقتدار میں آنے سے پہلے ہندوستان نے ایسی تباہ کن خارجہ پالیسیاں کھبی نہیں دیکھی تھیں کہ تقریبا تمام پڑوسی ممالک کے ہمارے ملک کے ساتھ تلخ تعلقات ہیں۔ مودی سرکار کے گھمنڈ ار جہالت نے سرحدوں کے اطراف دشمن پید ا کردیے ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ کے حق میں مودی کی انتخابی مہم نہ صرف ناکام تھی بلکہ ایک احمقانہ اور نقصاندہ کھیل ثابت ہوئی۔ امریکہ کے تعلقات مودی حکومت کے ساتھ اتنا آسان اور دوستانہ نہیں ہے۔ چینی فوج کی پسپائی کیلئے اس کا ڈرپوک انداز افسوسناک ہے۔ مرکزی بی جے پی حکومت نے خود کو چین کے چیلنجوں کامقابلہ کرنے اورکھوئی ہوئی سرحدوں کو بحال کرنے میں ناکام ثابت کیا ہے، جو کہ ناگوار بات ہے۔ بی جے پی ہندوستانی سرزمین اور سرحدوں کے نام پر صرف اقتدار حاصل کرنے کی سیاست کرہی ہے لیکن ہندوستانی سرزمین اور سرحدوں کی حفاظت نہیں کررہی ہے۔ ایس ڈی پی آئی کی قومی نمائندہ کونسل مرکزی حکومت پر زور دیتی ہے کہ وہ ایسی خارجہ پالیسیوں اور نقطہ نظر کو اپنائے جس سے پڑوسی ممالک کے ساتھ خوشگوار تعلقات استوارہوں۔ ملک کو غیر وابستہ پالیسیوں کی راہ پر گامزن ہونا ہوگا۔ حکومت کو حوصلے اور عزم کے ساتھ ہندوستانی سرحد کی حفاظت کا عہد کرنا ہوگا۔ 6)۔ نئی قومی تعلیمی پالیسی۔ نوجوان ذہنوں کو آلودہ کرنے کا راستہ۔ "منووادی راشٹر"بنانے کے راستے پر بی جے پی تعلیمی نظام کے ذریعے نوجوانوں اور بچو ں کے ذہنوں کو آلودہ کرنے کی طرف گامزن ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی کا مقصد تعلیم کی نجکاری کرنا اور "چھتور ورنا "کی بنیاد پر پیشہ پر کمیونٹیز بناناہے۔ ایس ڈی پی آئی کی قومی نمائندہ کونسل کا مطالبہ ہے کہ نئی قومی تعلیمی پالیسی کوردکیا جائے اور حکومت ایک ایسا تعلیمی نظام اپنائے جو ایک متحرک اور خوشگوار ملک کی تعمیر کے قابل ہو۔ 
7)۔بے لگام بدعنوانی۔ رافیل سودے پر اب بھی بڑا گھپلہ ہونے کا شبہ ہے۔ جس میں مودی کی قیادت والی بی جے پی حکومت نے 40,000کروڑ روپئے سے زیادہ کا گھپلہ کیا ہے۔ بی جے پی حکومت " قومی سلامتی "کی آڑ میں عوام کو سودے کی معلومات دینے سے انکار کرہی ہے۔ اس کے باوجود عوام کے ذہنوں میں چھائے ہوئے سوالات ابھی تک جواب طلب ہیں۔ لڑاکا طیاروں کی خریداری کیلئے 715کروڑ روپئے کے بجائے 1700کروڑ روپئے کی اضافی قیمت کیوں ادا کی گئی۔ اور HALکے بجائے انیل امبانی کی ریلائنس ڈیفنس لمیٹڈ کے ذریعے یہ سودا کیوں کیا گیا؟۔ بی جے پی حکومت نے HALکو لڑاکا طیاروں کی تکنیکی منتقلی کیوں منسوخ کی؟۔ پی ایم کیئر فنڈ کو بھی ایک بڑا اسکینڈل ہونے کا شبہ ہے۔ کونسل مطالبہ کرتی ہے کہ معزز سپریم کورٹ رافیل اور پی ایم کیئر فنڈ دونوں میں بدعنوانی کے تمام پہلوؤں کی تحقیقات کیلئے ایک خصوصی انکوائری کمیشن مقرر کرے۔ 8)۔ ذات پر مبنی مردم شماری کرانے اور اس کے مطابق ریزرویشن فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہندوستانی آبادی کا بڑا حصہ غربت سے دوچار ہے اور ترقی سے محروم ہے۔ ملک سماجی ترقی کے تقریبا تمام عالمی فہرستوں میں پڑوسی ممالک سے پیچھے ہے۔ اعلی ذات سے تعلق رکھنے والے لوگ سیاسی اقتدار سمیت تقریبا تمام شعبوں میں ترقی کے ثمرات سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ جو ذات، مذہب، علاقہ اور زبان کی بنیاد پر طویل عرصے سے جاری امتیازی سلوک کا نتیجہ ہے۔ یہ عدم مساوات ہمارے ملک کی مجموعی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ایس ڈی پی آئی کی قومی نمائندہ کونسل مطالبہ کرتی ہے کہ حکومت پورے ہندوستان میں ذات پر مبنی مردم شماری کرائے اور تمام ذاتوں اور برادریوں کو ان کی پسماندگی کے مطابق تعلیم، ملازمت اور سیاست میں ریزرویشن فراہم کرے۔
 9)۔ ملک میں 'حقیقی جمہوریت 'قائم کرنے کیلئے متناسب نمائندگی کا نظام۔ ہندوستان میں جمہوریت اب بھی مخصوص طبقوں، ذاتوں اور گروپوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کیلئے ایک دور رس ہدف ہے کیونکہ ملک میں سیاسی طاقت کا فائدہ چند ذاتوں، گروپوں اور خاندانوں کو ہوا ہے۔ خاندنی تسلط، پیسے اور طاقت کی سیاست، اعلی ذات کی بالا دستی وغیرہ نے ہمارے ملک میں طاقت کو کنٹرول کر رکھا ہے جہاں کمزور طبقے، اقلتیں، پسماندہ طبقات آج بھی تسلط پسند اور اقربا پروری طاقت کے کھیل کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ جمہوریت بامعنی اور زیادہ نتیجہ خیز ہوگی اگر ہر طبقے، ذات اور طبقے کو ایوانوں میں نمائندگی ملے۔ ایس ڈی پی آئی کی قومی نمائندہ کونسل مطالبہ کرتی ہے کہ ہندوستانی جمہوریت میں      "جمہوریت کا متناسب نمائندگی نظام "متعارف کرایا جائے اور اسے نافذ کیا جائے تاکہ "حقیقی جمہوریت "کو فعال کیا جاسکے اور سماج کے ہر طبقے کی نمائندگی کی راہ ہموار کی جاسکے۔ 10)۔ ہندوستان کو 'موسمیاتی تبدیلی 'کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کیلئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ گلوبل وارمنگ ہر ملک میں نقصان پہنچا رہی ہے کیونکہ موسمیات انتہائی تباہی میں تبدیل ہورہی ہے جو ماحولیات اور زندگیوں کو تباہ کررہی ہے۔ ترقی کے غیر سائنسی، جابرانہ اور ناموزوں ذرائع پوری دنیا میں اس طرح کی تباہی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ ہندوستان میں لوگ 'موسمیاتی تبدیلی 'کی وجہ سے ماحولیاتی تباہی کے چیلنجوں کا سامنا کررہے ہیں۔ آلودہ ہندوستانی شہریں، بادل پھٹنا، لینڈ سلائڈنگ، خشک سالی وغیرہ گلوبل وارمنگ کے اثرات ہیں۔ قومی جنر ل کونسل حکومت پر زور دیتی ہے کہ وہ بغیر کسی سمجھوتے کے موسمیاتی تبدیلیوں کو روکنے کیلئے منصوبہ بندی کرکے کام کرے۔ 11)۔ لکشدیپ کی نسلیت کی حفاظت کریں۔ بحیرہ عرب میں ہندوستانی جزیروں کا گروپ ایک منفرد جزائر ہے جہاں نسلی لوگ اپنی منفر د شناخت اور ثفاقت کے ساتھ پرامن اور خوش دلی سے رہ رہے ہیں۔ انتظامیہ کی بے معنی، بے رحم اور مضحکہ خیز پالیسیاں تباہ کن ہیں۔ ایس ڈی پی آئی کی قومی نمائندہ کونسل لوگوں سے لکشدیپ انتظامیہ کی عوام دشمن حکمرانی کی مخالفت اور مزاحمت کرنے کا مطالبہ کرتی ہے اور جزیروں کی نسلی اور انفرادیت کو خراب کرنے کے کسی بھی اقدام کو ناکام بنانے کی اپیل کرتی ہے۔ 12)۔ ملک سے فاشز م کو ناکام بنانے کیلئے SDPIہی متبادل ہے۔ ہمارا ملک ایک نازک موڑ سے گزر رہا ہے کیونکہ فسطائیت حکومت سمیت ہر طرف پر اپنا اثر ورسوخ قائم کررہی ہے۔ حکومت آئین کو ناکام بنانے اور شیطانی 'منووادی 'ایجنڈے کو نافذ کرنے کے چکر میں ہے۔ حکومت کی مذموم حکمرانی پر اپوزیشن پارٹیاں خاموش اور غیر جوابدہ ہیں۔ سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا ہمیشہ ملک میں فسطائیت اور عوام دشمن منصوبوں کی مخالفت اور مزاحمت میں سب سے آگے ہے۔ ایس ڈی پی آئی کے نظریات"بھوک سے آزادی اور خوف سے آزادی "اس ملک کو ایک 'فلاحی ریاست 'بنانے کیلئے سب سے زیادہ مناسب نظریہ اور وقت کی ضرورت ہے۔ ایس ڈی پی آئی کی قومی نمائندہ کونسل لوگوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ فاشزم کو شکست دینے اور ایس ڈی پی آئی کو ایک متبادل سیاسی پارٹی کے طور پر مضبوط کرنے کیلئے ایس ڈی پی آئی کا ساتھ دیں اور اس میں شامل ہوں۔