Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, November 28, 2021

بچوں کے خلاف سائبر جرائم


از /مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
                         صدائے وقت 
==================================
نیشنل رکارڈس بیورو (ان سی آر بی) کی رپورٹ کے مطابق بچوں کے خلاف سائبر جرائم میں چار سوفی صد کا اضافہ ۲۰۲۰ئ؁ میں درج کیا گیا ہے، جن میں ستاسی (۸۷) فی صد واقعات نابالغوں کے ساتھ جنسی ہراسانی اور استحصال کے ہیں، اعداد وشمار کے مطابق ۷۳۸ معاملات اس قسم کے تھے، جب کہ بچوں کے خلاف جرائم کی کل تعداد ۸۴۲ تھی، ۲۰۱۹ئ؁ میں صرف ۱۶۴ مقدمات درج ہوئے تھے جو ۲۰۲۰ئ؁ کے مقابل چار سو تیرہ (۴۱۳) فی صد کم تھے ۱۸-۲۰۱۷ئ؁ کی بات کریں تو یہ تعداد صرف ۱۷۹ اور ۱۱۷ تھی، بچوں کے خلاف آن لائن جرائم میں علی الترتیب اترپردیش کرناٹک (۱۴۴) مہاراشٹرا (۱۳۷) کیرالہ (۱۰۷) اور اڈیشہ (۷۱) پورے ملک میں سرفہرست ہیں۔
چائلڈرائٹس اینڈیو (سی آرواری) کی سی ای او یوما ماروا نے اپنے ایک تجزیہ میں کہا کہ انٹرنیٹ پر زیادہ وقت گذارنے کی وجہ سے بچوں کے خلاف جرائم میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے، بچے انٹرنیٹ کے ذریعہ جرائم پیشہ کے رابطے میں آتے ہیں، فحش پیغامات کا آپس میں تبادلہ ہوتا ہے، چڑھتی عمر کے بچوں کے لئے دھیرے دھیرے یہ محبوب مشغلہ بن جاتا ہے اور جرائم پیشہ ان بچوں کا استحصال شروع کرتے ہیں، معاملہ یہاں تک بڑھ جاتا ہے، کہ بچوں کے لئے نہ جائے رفتن، نہ پائے ماندن والی بات ہو جاتی ہے، جرائم میں اگر وہ ان کو ساتھ نہیں دے پاتے تو بلیک ملنیگ کی دھمکیاں ملنی شروع ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے بچے نفسیاتی طورپر پریشان ہوتے ہیں۔
ظاہر ہے اب تو تعلیم بھی آن لائن ہو رہی ہے، اس لئے اسمارٹ فون ۸۔۵۳ فی صد گھروں  میں پہونچ چکا ہے اور سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کی بہ نسبت نجی اسکولوں میں پڑھنے والے بچے اس کا زیادہ استعمال کر رہے ہیں، اس جائزہ کے مطابق اسی (۸۰) فی صد ایسے بچوں کے پاس اسمارٹ فون ہے جن کے والدین تو نویں، دسویں سے آگے نہیں اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکے تھے، ایسے والدین جن کی تعلیم پانچویں کلاس تک ہے، ان میں پچاس فی صد نے اپنے بچوں کو پڑھنے کے نام پر اسمارٹ فون دے رکھا ہے، پچیس فی صد گارجین وہ ہیں جنہوں نے تعلیم کے لئے ہی اسمارٹ خریدا، ایسے میں بچوں کو انٹرنیٹ سے دور نہیں رکھا جاسکتا جن تعلیمی اداروں میں انڈرائڈموبائل رکھنا اخراج کا سبب ہوتا تھا، وہاں موبائل بچوں کے ہاتھ دینا ان کی مجبوری ہو گئی ہے، ایسے میں بچوں کو سائبر جرائم سے بچانے کا صرف ایک طریقہ بچا ہے وہ یہ کہ اساتذہ گارجین بلکہ سماج بھی اس قسم کے جرائم اور حالات پر نگاہ رکھے اور اگر کوئی معاملہ سامنے آتا ہے تو فوری طورپر اس کے تدارک کی کوشش کرے۔