Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, November 12, 2021

بے روزگاری اور مہنگائی کا سیلاب ملک کو کہاں لے جائے گا؟



از/✒️سرفراز احمدقاسمی،حیدرآباد 
برائے رابطہ: 8099695186
                          صدائے وقت 
==================================
           اپنے ملک بھارت میں ہرآنے والا دن مشکل سے مشکل ترہوتا جارہاہے اورحالات بدسے بدتر ہوتے جارہے ہیں ایسالگتاہے کہ جان بوجھ کر اس طرح کے حالات پیداکئے جارہے ہیں جس سے عام آدمی،غریبوں اورمزدوروں کےلئے زندگی گذارنا بہت مشکل ہوجائے،اوراسکے نتیجے میں لاکھوں،کروڑوں لوگ بھوک اور دووقت کی روزی روٹی نہ ملنے کی وجہ سے خودکشی کررہےہیں،یہ سلسلہ دراز ہوتاجارہاہے،ملک اسوقت بہت سنگین حالات سے دوچارہے،ایک طرف مہنگائی کاسیلاب ہے تو دوسری جانب بے روزگاری کا طوفان ایسے میں اس ملک کاغریب آدمی کیاکرے؟ اور یہ چیزیں ملک کو کس مقام  پر لیکر جائیں گی ؟ کورونا وائرس کے ابتداء سے ابتک اقتدار میں بیٹھے لوگوں نے جس طرح کی بے حسی اوربدبختی کا مظاہرہ کیا اس سے تو یہی لگتاہے کہ یہ حکومت عوام دشمن پالیسی پر گامزن ہے اور ان کو لوگوں کے دکھ درد اور مشکلات ومسائل سے کوئی سروکار نہیں، انکے دلوں میں ہمدردی نام کی کوئی چیز نہیں ہے،بھارت اسوقت چوطرفہ مسائل کا شکارہے،چین آہستہ آہستہ سرحدوں پر قبضہ کرتاجارہاہے،لیکن حکومت خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے،تقریباً سارے پڑوسی ممالک سے اس نے دشمنی کررکھی ہے،اور اب حالات یہ ہیں کہ کوئی بھی پڑوسی ملک بھارت کا صحیح معنی میں دوست نہیں ہے،اندورنی معاملہ بھی تشویشناک بنتاجارہاہے،ملک میں ہندو مسلم کی سیاست عروج پر ہے،اور ایسا محسوس ہوتاہے کہ پورے ملک کی ایجنسی کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کیاجارہاہے،دہلی فساد کے بعد تری پورہ کی مسلم مخالف غنڈہ گردی اسکا واضح ثبوت ہیں،مسلمانوں کے خلاف اس حدتک زہر گھول دیاگیاہے کہ اب پولس کی شبیہ بھی مسلم مخالف بنادی گئی ہے،عدالت کا جوحال ہے یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کس طرح ایک سال  قبل یعنی 9نومبر 2020 میں ملک کی سب سے بڑی عدالت نے انصاف کاقتل کیا اور بابری مسجد کو رام مندر کے مجرموں کو دیدی گئی،یوپی میں یوگی کے "رام راجیہ"میں کیاہورہاہے؟ کس طرح  وہاں مسلم مخالفت کی دھن میں رام راجیہ کی دھجیاں اڑائی جارہی ہے؟یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے،مدھیہ پردیش ہو،آسام ہو،کرناٹک ہو،تلنگانہ ہو،کشمیرہو،یا پھراورکوئی دوسری ریاست جہاں بی جے پی کی حکومت  ہے ہر جگہ مسلمان نشانے پر ہیں،سوال یہ ہے کہ کیا مسلمانوں سے انتقامی جذبہ ہی ملکی مسائل اور مشکلات کا حل ہے؟ اگر نہیں تو پھر ان پر اتنی توجہ کیوں؟ کیا اس ملک میں مسلمانوں کو رہنے کا حق نہیں ہے؟ کیا مسلمان اس ملک کے باشندے نہیں ہیں؟کیا مسلمانوں کی زمین تنگ کرکے یہ ملک محفوظ رہےگا؟ایک سال سے کسانوں کا احتجاج جاری ہے،سینکڑوں کسان اس احتجاج کے نتیجے میں اپنی جان گنوا بیٹھے لیکن مجال ہے کہ حکومت  تک یہ آواز پہونچ رہی ہو اورکسانوں کے مسائل حل کئے جائیں، حکومت کے رویے سے تو یہ ہرگز نہیں لگتاکہ یہ عوام کے ذریعے منتخب کی گئی حکومت ہے،بلکہ انکا رویہ تو کسی بھی طرح  "ایسٹ انڈیا کمپنی" سے کم نہیں، پھر آخر ایسی حکومت کو بھارت کے لوگ کیونکر برداشت کریں؟ عوام دشمن حکومت کو اکھاڑ پھینکنا ہی ملک کے مفاد میں ہے اور یہ وقت کی اہم ضرورت بھی ہے،چوطرفہ مسائل میں بھارت گھرا ہوا ہے لیکن مودی حکومت کو ہندو مسلم کرنے سے فرصت ہی نہیں،اگلے چند مہینے میں کئی ریاستوں میں الیکشن ہونے والے ہیں،حکمراں طبقے کے لوگ اسی میں مست ہیں،اپوزیشن پارٹیوں کو جو کردار ادا کرنا چاہئے تھا یہ پارٹیاں بھی اپنی ذمہ داری میں ناکام دکھائی دے رہی ہیں،جسکا نتیجہ یہ ہے کہ ملک مسائل کے دلدل میں پھنستا جارہا ہے لیکن اسے دلدل سے نکالنے کی ادنی کوششیں بھی نہیں ہورہی ہے،بھارت میں ابھی سب سے سنگین مسئلہ بے روزگاری اور مہنگائی ہے، اسکو سمجھنے کےلئے ایک مقامی اخبار کی یہ رپورٹ پڑھئے،اخبارکے مطابق" جاریہ سال ماہ اکٹوبر کے دوران ہندوستان کے شہری علاقوں میں بے روزگاری ہی شدید تشویش کا مسئلہ رہاہے،جبکہ عالمی سطح پر عوام،غریبی اورسماجی عدم مساوات سے پریشان رہےہیں ہیں،عالمی سطح پر پریشان کن مسائل پر ایپوسس کے ماہانہ سروے میں بتایاگیاہے کہ عالمی سطح پر اور ہندوستان کے شہری علاقوں کے عوام پہلے کوویڈ 19 وائرس کے معاملے پر تشویش کا شکارتھے،تاہم اب گذشتہ ماہ اکٹوبر میں انکی تشویش میں روزگار سب سے زیادہ مقام پر رہا،ہندوستان میں شہری علاقوں کے جن مسائل پر عوام زیادہ پریشان ہیں،انکی درجہ بندی میں 42 فیصد افراد بے روزگاری سے 35فیصد افراد کورونا وائرس کے انفیکشن سے،30فیصد لوگ مالیاتی و سیاسی بدعنوانیوں سے پریشان ہیں،جبکہ جرائم اور تشدد سے 24فیصد لوگ اور تعلیم و دیگر مسائل سے 20 فیصد افراد پرپشان ہیں،ایپوسس انڈیا کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر امیت آوارکر نے کہاکہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ بے روزگاری ہے اور یہ مسئلہ ہندوستان کے شہری علاقوں میں سب سے زیادہ شدت سے پایاجاتاہے،نوکریوں کے مواقع کی پیداوار،روزگار کے کھلنے کے رفتار کی مزید تیز ہونے کی امید ہے،فی الحال یہ مواقع منقطع ہیں،لیکن کورونا وائرس کی شدت میں کمی کے باعث مارکٹ کی صورتحال معمول پر آجانے سے جاب مارکٹ میں خوشی کی لہر دوڑ رہی ہے،آورکر نے مزید بتایاکہ ہندوستان کی شہری آبادی میں سماجی عدم مساوات اور دھوکہ وناجائز فائدہ اٹھانے کا معاملہ بھی ایک سنگین مسئلہ بناہوا ہے،انھوں نے بتایاکہ اس سروے کےلئے 24ستمبر سے 8اکتوبر تک 21ہزار 516 افراد سے آن لائن انٹرویو لئے گئے"
یہ ہے ایک اخبار کی رپورٹ اس چھوٹی سے رپورٹ سے اتنا تو سمجھ میں آہی گیاکہ ملک میں بے روزگاری کا سیلاب ایک سنگین مسئلہ بنتاجارہاہے، مودی حکومت نے وعدہ کیاتھا کہ ہم ہرسال دوکروڑ لوگوں کو روزگار دیں گے،جھوٹ  اورجملے بازی میں ماہر وزیر اعظم نے سات سال میں آخر کتنے لوگوں کو روزگار دیا؟ حکومت کی کمپنیاں اور اہم ادارے جب بیچے جارہے ہیں اور انھیں مونیٹائزیشن کیاجارہاہے تو لوگوں کو نوکریاں اور روزگار کیسے ملیں گے؟کورونا بحران کے نتیجے میں جولاک ڈاؤن ملک پر مسلط کیاگیا اس نے ساری معیشت کو ٹھپ کرکے رکھ دیا،زندگی کا کوئی شعبہ ایسانہیں ہے جس پر اسکے اثرات مرتب نہیں ہوئے،ان سب میں ملازمت کا شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا اورابتک متاثر ہے،اس لاک ڈاؤن کے نتیجے میں  کروڑہا افراد اپنی نوکریوں اورملازمتوں سے محروم ہوگئے،کچھ شعبے ایسے بھی رہے جہاں ملازمتوں میں تخفیف کرتے ہوئے ملازمین کو روزگار سے محروم کردیاگیا،آج ہندوستان بھر میں  صورتحال یہ ہے کہ ہر شعبے سے ملازمین کو نکالا جارہاہے،اورملازمتیں کم کی جارہی ہیں،ملازمت سے محروم کئےگئے لوگ متبادل ملازمت کی تلاش میں تو ہیں لیکن انکےلئے کوئی موقع دستیاب نہیں ایسے میں انکا مستقبل کیاہوگا؟انکے گھروں میں چولہا کیسے جلےگا؟ انکے بچے اسکولوں کی فیس کیسے اداکریں گے؟ انکے بیوی بچوں کی بنیادی ضروریات کیسے پوری ہونگی؟جن ملازمین کو لاک ڈاؤن  سے قبل ملازمت سے محروم کردیاگیاتھا انھیں آج بھی ملازمت پر بحال نہیں کیاجارہا ہے، کیا اسطرح کی صورتحال تشویشناک نہیں ہیں؟اگر روزگار اور ملازمتیں بحال نہیں ہونگے تو عوام کی مشکلات میں اضافہ ہی ہوتاچلاجائےگا،عوام کو پہلے ہی مہنگائی کی مار سہنی پڑرہی ہے ہر چیز کی قیمتیں آسمان چھورہی ہیں،دالوں کی قیمت 200روپے فی کیلو سے زیادہ ہے،خوردنی تیل بھی 200 سے اوپر ہے،پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کا مسئلہ تو عوام کی پہونچ سے باہر ہوچکاہے،حیدرآباد میں سبزیاں 80سے سو روپے کیلوفروخت کی جارہی ہیں،کوئی بھی  سبزی 80سےکم نہیں، لوگوں کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ وہ اب سبزی خریدنے کےلیے سوچنے پر مجبور ہیں،گیس سلنڈر کی قیمتیں آسمان چھورہی ہیں،پہلے سبسیڈی والے سلنڈر پر جو سبسڈی دی جاتی تھی وہ اب پچاس روپے کردی گئی ہے،کمرشیل سلنڈر کی قیمت بھی بڑھادی گئی ہے،گویا یہ سمجھئے کہ مہنگائی کے سیلاب نے عام آدمی کے گھریلو بجٹ کو چوپٹ کرکے رکھدیاہے،اکٹوبرکے مہینے میں مودی حکومت نے 24مرتبہ پٹرول اورڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کیا،پٹرول ڈیزل کی بڑھتی قیمتوں کے باوجود پٹرول پمپ کے مالکان چوری اورلوٹ کھسوٹ میں ملوث ہیں،یعنی اوپر سے لیکر نیچے تک سب چور بیٹھے ہیں،ایک رپورٹ کے مطابق" پٹرول پمپ کے مالکان پروگرام شدہ چپس کا استعمال کرتے ہوئے فیول میٹروں میں ہیرا پھیری کرکے صارفین کو لوٹ رہے ہیں،حیدرآبادیوں کےلئے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے،لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ دھوکہ دہی مسلسل جاری ہے،کیونکہ عہدےدار کارروائی کرنے میں ناکام رہےہیں ہیں،لیگل میٹرو لوجی ڈپارٹمنٹ جس پر اس فراڈ کو چیک کرنے کی ذمہ داری ہے،پٹرول پمپ پر کوئی ترتیب وار چیکنگ نہیں کررہا ہے،تقریباً ایک سال قبل انھوں نے بے ترتیب طورپر کچھ پٹرول پمپس پر چھاپے مارے تھے،اورچپس کے استعمال کی تصدیق کی تھی،لیکن دھوکہ دہی اب بھی جاری ہے،محکمہ بے بس ہے کیونکہ انکے پاس جوعملہ ہے وہ کافی نہیں ہے،اورآسامیاں پر بھی نہیں ہورہی ہیں،انکے پاس چپس کی شناخت کےلئے تکنیکی آلات بھی نہیں ہیں،شہر حیدرآباد اوراسکے آس پاس تقریباً 800پٹرول پمپ ہیں،تلنگانہ میں تقریباً 6ہزار پٹرول بنکس ہیں،لیکن لیگل اینڈ میٹرو لوجی ڈپارٹمنٹ میں ملازمین کی تعداد 250 سے بھی کم ہے،پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں پہلے ہی آسمان پر ہیں،دس سال قبل صرف سوروپے کے پٹرول سے ٹووہیلر گاڑی تین دن چلائی جاسکتی تھی،لیکن اب ہمیں ایساکرنے کےلئے 300سے پانچ سورپے خرچ کرنے پڑیں گے،اب عوام پٹرول کم مقدار میں خرید رہےہیں اورٹووہیلر کا استعمال کفایت شعاری سے کررہےہیں،لیکن شہریوں کی محنت کی کمائی پٹرول بنکوں کے ذریعے فیول میٹر چپس میں ہیرا پھیری سے لوٹی جارہی ہے،اسکی وجہ سے صارفین بوتل میں پٹرول خریدکر بھی ایندھن کی صحیح مقدار کا پتہ نہیں لگاسکتے،بوتل میں پٹرول دینے کےلئے بھی یہ تیار نہیں ہوتے،کئی پٹرول پمپس پر تو میرا خود کا تجربہ ہے کہ یہ لوگ بوتل میں پٹرول دینے سے سراسرانکار کردیتے ہیں،اب ایسے گروہ جو تقریباً ایک لاکھ روپے کی لاگت سے چپس لگاتے ہیں،اس چپس کے استعمال سے پمپس مالکان ہرلیٹر پٹرول یا ڈیزل سے 30ملی لیٹر چوری کرسکتے ہیں،اسکا مطلب یہ ہے کہ گاہک ہر لیٹر کی خریداری پر 3,50روپے کا نقصان کررہےہیں ہیں،اس ہیرا پھیری کو ایک سال قبل لیگل اینڈ میٹرولوجی ڈپارٹمنٹ نے بے نقاب کیاتھا،انھوں نے بے ترتیب چیکنگ کے دوران 33پٹرول پمپ کو اس قسم کی ہیرا پھیری میں مصروف پایاتھا،دھوکہ دہی کی شناخت ایک مخصوص گروہ کی طرف سے دی گئی معلومات کا استعمال کرتےہوئے کی گئی تھی،ایک پرائیویٹ کمپنی کے ملازم کے منوہر ریڈی نے کہاکہ افسران صحیح طریقے سے جانچ نہیں کررہےہیں،اگر وہ دھوکہ دہی کا پتہ لگاتے ہیں تو اہلکار مالک کا لائسنس کیوں منسوخ نہیں کرتے؟محکمہ صرف جرمانہ عائد کرتاہے،اسی وجہ سے پمپ کے مالکان پھر اسی جرم میں ملوث ہوجاتے ہیں،اگر محکمہ پٹرول بنکوں کی جانچ پڑتال کرےگا تو ان میں سے تقریباً آدھے پٹرول پمپ والے فراڈ کررہے ہیں،لیگل میٹرولوجی ڈپارٹمنٹ کے ایک اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہم چیک کررہے ہیں اور دھوکہ دہی کا پتہ لگانے کے بعد ہم ان پٹرول بنکس پر مہر لگادیتے ہیں،لیکن مالکان اسے دوبارہ توڑ کر اپنی کارروائی جاری رکھتےہیں،ہمیں ہربار ان پر جرمانہ عائد کرنے پڑتے ہیں،انکی طرف سے لگائے گئے چپس کی شناخت کےلئے ہمارے پاس کوئی مخصوص میکانزم بھی نہیں ہے،جب تک ہم وہاں پہونچتے ہیں،وہ اسے ریموٹ سے اصلی ریڈنگ میں ایڈجسٹ کرلیتے ہیں،ہمیں جوکچھ بھی ملا وہ چپس سپلائی کرنے والے گروہ کی چھان بین کے بعد پولیس کی طرف سے دی گئی معلومات کو استعمال کرتے ہوئے کیاگیا،درحقیقت ہم بہت مؤثر طریقے سے کام کرسکتے ہیں اگر حکومت کی طرف سے خالی آسامیاں پر کردی جائیں"
یہ اخبار کی ایک دوسری رپورٹ ہے اس سے اندازہ کیجئے کہ کیسے ہرجگہ لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے اور کہاں کہاں  آپکی پاکٹ ماری کی جارہی ہے۔کیا ہوگا اس ملک کا مستقبل؟ جہاں ہرقدم پر جھوٹ فراڈ،دھوکہ دہی اور لوٹ کھسوٹ کا بازار شدت سے جاری ہے،حکومت الگ لوٹ رہی ہے اور دوسرے لوگ الگ۔ ایسے میں سوچئے آپ کےلئے کونسا راستہ بچاہے؟اوربے روزگاری ومہنگائی یہ ہلاکت خیز سیلاب ملک کو  کہاں لیکر جائے گا؟

(مضمون نگار کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)
sarfarazahmedqasmi@gmail.com