Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, November 19, 2021

حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوری ؒ


                       تحریر
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
                       صدائے وقت 
=================================
دار العلوم دیو بند کے مؤقر استاذ ، معاون مہتمم، جمعیت علماء ہند (مولانا محمود مدنی گروپ کے) صدر، جمعیت علماء ہند کی جانب سے متفقہ طور پر منتخب امیر الہند، کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت کے ناظم، جامعہ قاسمیہ گیا ، جامعہ اسلامیہ جامع مسجد امروہہ کے سابق استاذ، اسلاف کی نشانی، تواضع، خاکساری، انکساری میں ممتاز حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوری نے ۲۱؍ مئی ۲۰۲۱ء مطابق ۸؍ شوال ۱۴۴۲ھ کومیدانتا اسپتال گڑگاؤں ہریانہ میں داعیٔ اجل کو لبیک کہا، رمضان کے مغفرت والے دوسرے عشرہ میں حضرت قاری صاحب کو کوڈ کی شکایت ہوئی، آکسیجن لیبل گرتا چلا گیا، کمزوری بڑھتی رہی، گھر پر رکھ کر علاج کرانا ممکن نہیں ہوا تو ۱۸؍ مئی ۲۰۲۱ء کو میدانتا میں داخل کیا گیا، بہترین علاج ، ڈاکٹروں کی غیر معمولی توجہ ، تیمار داروں کی مثالی خدمت اور مخلصین ومعتقدین کی دعا ئیں، ملک الموت کو اپنے کام سے نہ روک سکیں اور روکا جا بھی تو نہیں سکتا ، کیوں کہ فرمان الٰہی ہے، جب اللہ کا مقرر کردہ وقت آجاتا ہے تو وہ ٹلتا نہیں ہے ، جنازہ کی نماز دو بار ہوئی، پہلی نماز جنازہ مرکزی دفتر جمعیت علماء ہند بہادر شاہ ظفر مارگ نئی دہلی میں اور دوسری دار العلوم دیوبند کے احاطہ مولسری میں ادا کی گئی، دوسری نماز جنازہ صدر المدرسین دار العلوم دیو بند اور حضرت قاری صاحب کے برادر نسبتی حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب مدظلہ صدر جمعیت علماء نے پڑھائی اور مزار قاسمی میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں اہلیہ، ایک بیٹی اور دو نامور صاحب زادے مولانا مفتی سید محمد سلمان منصور پوری اور قاری مفتی سید محمد عفان کو چھوڑا، مولانا سید محمد سلمان منصور پوری جامعہ قاسمیہ شاہی مراد آباد میں مفتی ،مدرس اور بہت ساری کتابوں کے مصنف ومؤلف ہیں، وہاں کے ترجمان ندائے شاہی کے مدیر اور بافیض عالم ہیں، قاری مفتی محمد سید عفان جامعہ اسلامیہ جامع مسجد امروہہ میں صدر المدرسین اور استاذ حدیث ہیں۔
 حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان بن نواب محمد عیسی (م ۱۹۶۳) کی ولادت ۱۲؍ اگست ۱۹۴۴ء کو ان کے آبائی گاؤں منصور پور ضلع مظفر نگر اتر پردیش میں ہوئی، وہ اپنے دو بھائی حافظ محمد موسی اور حافظ محمد داؤد کے بعد تیسرے نمبر پر تھے، آپ کا خاندانی تعلق سادات حسینیہ بارہہ کی ایک شاخ سے تھا، آپ کے والدنے اپنے بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ اور قرآن کریم کا حافظ بنانے کے لئے نقل مکانی کرکے دیو بند میں سکونت اختیار کی، اور برسوں کرایہ کے مکان میں گذار دیا ، علماء دیو بند سے تعلق کی وجہ سے ان کا انتقال دیو بند میں ہی ہوا، اور مزار قاسمی میں وہ بھی مدفون ہیں۔ اللہ رب العزت نے ان کے تینوں بچوں کو حافظ بنادیا اور حضرت قاری صاحب کو اللہ نے جو لحن داؤ دی عطافرمائی تھی اس کی وجہ سے وہ حضرت مولانا کے بجائے قاری صاحب سے مشہور تھے، اور کہنا چاہیے کہ بڑے علماء میں حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب کے بعد حضرت مولانا قاری محمد عثمان صاحب ہی دیو بند میں اس لفظ سے جانے جاتے تھے، قرآن کریم سے حضرت قاری صاحب کو والہانہ تعلق تھا اور جس لحن میں وہ اس کی تلاوت کرتے تھے، اس نے اس لفظ کو قاری صاحب کے نام کا سابقہ بنا دیا اور پوری زندگی ’’قاری‘‘ کے سابقہ کے ساتھ ہی وہ جانے پہچانے گئے۔
قاری صاحب کی ابتدائی تعلیم مدرسہ حسینہ منصور پور میں ہوئی ، حفظ قرآن کریم کی تکمیل بھی آپ نے اسی مدرسہ سے کی، عربی اول سے لے کر دورۂ حدیث تک کی تعلیم دار العلوم دیو بند میں پائی ۱۹۶۵ء مطابق ۱۴۸۵ء میں یہیں سے  سند فراغت پائی ،فراغت کے بعد پھر تجوید کی طرف متوجہ ہوئے او ر۱۹۶۶ء میں یہیں سے قراء ت سعبہ عشرہ کی تکمیل کی اور اس فن میں کمال پیدا کیا۔ 
تدریسی زندگی کا آغاز حضرت مولانا قاری فخر الدین ؒ خلیفہ شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی (۱۹۷۵-۱۸۸۹) کے قائم کردہ مدرسہ قاسمیہ گیا سے کیا، ۱۹۶۷ء سے ۱۹۷۲ء تک پانچ سال یہاں مقیم رہے، یہاں سے مستعفی ہو کر جامعہ اسلامہ جامع مسجد امروہہ کو اپنی تدریس کا میدان عمل بنایا ، آپ ہی کے دور میں اس ادارہ میں النادی الادبی قائم ہوئی، یہاں آپ کے ذمہ سنن ابو داؤد ، جلالین اور مختصر المعانی وغیرہ کا درس تھا۔
 ۱۹۸۲ء میں انقلاب دار العلوم کے بعد پورے ہندوستان سے نامور اساتذہ چن چن کر دار العلوم دیو بند لائے گئے، حضرت قاری صاحب ان میں سے ایک تھے، ہدایہ، مشکوٰۃ ، مؤطا امام مالک وغیرہ کا درس آپ سے متعلق تھا، معاون مہتمم اور کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت کے ناظم کی ذمہ داری اس پر مستزاد تھی، مشہور تھا کہ حضرت قاری صاحب کو تقریر کا جو بھی موضوع دے دیجئے بات تحفظ ختم نبوت کے ذکر کے بغیر نامکمل رہتی تھی، یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم نبوت ہونے سے جو ان کو والہانہ عشق تھا، یہ اس کا مظہر ہوا کرتا تھا، آپ کا درس رطب ویابس سے پاک سہل اور آسان زبان میں ہوتا تھا، درسی تقریر ہویا جلسہ کی، آپ ٹھہر ٹھہر کر بولتے تھے، جس کی وجہ سے آپ کی تقریر کا نقل کرنا آسان ہوجاتا تھا، عربی زبان وادب میں وہ حضرت مولانا وحید الزماں کیرانوی ؒ کے شاگرد تھے، اور عربی میں زبان وبیان پر قدرت تھی ، النادی الادبی کے سالانہ اجلاس میں عربی میں آپ کی تقریر سے طلبہ بہت مستفید اور مستفیض ہوا کرتے تھے۔
 آپ کی انتظامی صلاحیت کے بھی اکابر دار العلوم قائل تھے، اسی وجہ سے آپ کو ۱۹۸۶ء میں کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت کا ناظم ، ۱۴۱۵ھ میں ناظم اعلیٰ دار الاقامہ ، ۱۹۹۷ء میں دار العلوم کے نائب مہتمم، ۲۰۲۰ء  مطابق صفر ۱۴۴۲ھ میں معاون مہتمم بنایا گیا ، آپ نے ان تمام ذمہ داریوں کو بحسن وخوبی انجام دیا، تحفظ ختم نبوت کے حوالہ سے آپ کی خدمت انتہائی وقیع ہیں، انہوں نے رجال کار کی فراہمی اور اس موضوع پر کتابوں کی تالیف اور محاضرات کا اہتمام کیا، کئی جگہوں پر قادیانیوں کو منہ کی کھانی پڑی اور کئی جگہ وہ بھاگ کھڑے ہوئے، اس موضوع پر حضرت قاری صاحب کے محاضرے بڑی علمی، منطقی اور مخالفین کے حق میں دندان شکن ہیں۔
 جمعیت علماء کے پلیٹ فارم سے بھی آپ نے جو خدمات پیش کیں وہ لائق تحسین ہیں، ۱۹۷۹ء میں قاری صاحب نے جمعیت کی تحریک ’’ملک وملت بچاؤ‘‘ کے ایک جتھے کی قیادت کی ، گرفتار ہوئے اور کئی دن تک تہاڑ جیل میں رہنا پڑا۔ 
۵؍ اپریل ۲۰۰۸ء کو جمعیت کے ایک گروپ کے آپ صدر منتخب ہوئے، ۲۰۱۰ء میں جمعیت کے دونوں گروپ نے آپ کو امیر الہند منتخب کیا اور مانا،اپنی تیرہ سالہ صدارت میں جمعیت یوتھ کلب اور جمعیت اوپن اسکول کے قیام پر آپ نے اپنی توجہ مرکوز کی اور اسے مختلف ریاستوں میںپھیلانے کا کام کیا۔
حضرت قاری صاحب کا اصلاحی تعلق شیخ الحدیث حضرت مولانامحمد زکریا ؒ (۱۹۸۲-۱۸۹۸) تھا، حضرت کے حکم پر فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنیؒ (۲۰۰۶-۱۹۲۸) سے منسلک ہو گئے، اور انہیں سے خلافت پائی، شادی حضرت مدنی ؒ کی صاحب زادی سے تھی ، اس لیے مدنی خاندان سے مصاہرت کا تعلق تھا، جس کا حضرت بہت پاس ولحاظ رکھا کرتے تھے۔
 میری ملاقات تو ۱۹۸۲ء سے ہی تھی، لیکن مجھے ان سے شاگردی کا شرف حاصل نہیں ہو سکا، البتہ دو طویل ملاقاتیں یاد داشت کا حصہ ہیں، ایک ملاقات بھاگلپور سے دہلی تک سفر کے دوران رہی اور حسب توفیق خدمت کا موقع ملا ، اس سفر میں حضرت کے ارشادات سے مستفیض ہوتا رہا، آدمی کی پہچان سفر میں زیادہ ہوتی ہے ، میں نے اس سفر میں حضرت کو سنجیدہ ، بردبار، اصول پسند ، نرم دم گفتگو پایا، دو سری طویل ملاقات دہلی سے قطر تک کے سفر میں رہی ، موقع تھا لجنۃ اتحاد علماء المسلمین سے متعلق سے کانفرنس کا ، ڈاکٹر یوسف قرضاوی کی تحریک اور ڈاکٹر محی الدین قرۃ داعی کی دعوت پر ہندوستان سے بڑے اور جید علماء کے ساتھ یہ حقیر بھی مدعو تھا، حضرت قاری صاحب حضرت مولانا ارشد مدنی، مولانا سید سلمان حسینی ندوی، مولانا بدر الحسن قاسمی کویت بھی شریک تھے، اس موقع سے حضرت قاری صاحب کا خطاب بڑا وقیع ہوا تھا، اتفاق سے میری والدہ کا انتقال ہو گیا ، اور میں دوسرے روز پروگرام کے اختتام سے قبل ہی واپس ہو گیا، یہ لجنہ کا بنیادی تشکیلی اجلاس تھا، جس میں ہندوستان کے لیے بھی کمیٹی بنی تھی اور اب اس کے کئی اجلاس ہو چکے ہیں،دوسرے علماء کے ساتھ حیدر آباد سے مولانا عمر عابدین اور بیگوسرائے سے مفتی خالد حسین قاسمی نیموی اس کے رکن ہیں۔
 اس دور قحط الرجال میں حضرت قاری مولانا سید محمد عثمان صاحب کا وصال دار العلوم دیو بند ہی نہیں پورے ہندوستان کی علمی ، ملی، دینی، تعلیمی دنیا کا عظیم خسارہ ہے، اللہ رب العزت غیب سے اس کی تلافی کی شکل پیدا فرمادیں، حضرت کے درجات بلندکریں اور پس ماندگان کو صبر جمیل سے نوازے ۔ آمین یا رب العالمین وصلی اللہ تعالیٰ علی النبی الکریم وعلی اٰلہ وصحبہ اجمعین ۔